یہ جرم اگر ہے تو سر عام کیاہے
(آر- ا یس- بھٹی)
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے جب گجرانوالہ کےکچھ نوجوانوں کی طرف سے دنیا کےعظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر پرسیاہی ڈالنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس ویڈیومیں نظر آنےوالےنوجوان اوریہ پوسٹ لگانےوالی خاتون دونوں کا انداز ایسا تھا کہ انھوں نے کوئی بہت بڑی سائنسی ایجاد کردی ہو
اس واقعہ کےکچھ ہی دن بعد مشہور اکانومسٹ عاطف میاں صاحب کا آن لائن لیکچر آئی بی اے کراچی نے کینسل کر دیا کیونکہ آئی بی اے کراچی کی انتظامیہ کو بعض شدت پسند عناصر کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں
اس کے بعد سےسوشل میڈیا پریہ موضوع بہت زور شور سے زیر بحث ہےمحترم عاطف میاں صاحب کا جرم بھی محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی طرح یہی ہے ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور یہ جرم وطن عزیز میں بہت سنگین گردانہ جاتا ہے - سوشل میڈیا پر بہت سےمعززین نے اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے جس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ابھی باشعور لوگ باقی ہیں لیکن عمومی طور پر پچھلی چنددہائیوں میں پاکستان میںنفرت کی فضا میں بہت اضافہ ہوا ہے اور دوسرے کے عقیدے کوتنقید کانشانہ بناتےہوئے بداخلاقی کی حدود میں داخل ہو جانا ایک معمولی بات ہے
جماعت احمدیہ دوسرے مسالک کی نسبت اس نفرت کا خصوصی طور زیادہ شکار ہے اور متواتر مظالم کا نشانہ بنتی رہتی ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں احمدیوں کےخلاف ظالمانہ قوانین ہیں جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں پچھلے دواڑھائی مہینوں کے دوران ہی پاکستان میں کئی احمدیوں پر قاتلانہ حملے ہوئے جن میں ایک معزز قابل استاد پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک صاحب اور ایک مہذب شہری مکرم معراج احمد صاحب شہید ہوگئے
اس نفرت کی ایک تصویر آپ عاطف میاں صاحب کی ٹویٹ کے نیچے جوابی ٹوئیٹس کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں ایک سٹوڈنٹ نے اپنی ایک جوابی ٹویٹ میں لکھا کہ " ہم سٹوڈنٹس آپ کے بغیر خوش ہیں --- ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا --- ان کا چھپاہوا مذ ہبی ایجنڈا ہے کہ یہ مسلمانوں کے ذہنوں کو اپنے غلط عقائد کی طرف تبدیل کریں--- ہمارے پاس ان سےبہتر علمی ذرائع ہیں
@yeschoudhary
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نفرت کی ان اونچی فصیلوں کے درمیان ہمارا معاشرہ کس قدر تضادات کاشکار ہو چکا ہے ایک طرف تو ہم اسلام کے محافظ ہیں اور دوسری طرف اسلام کے نام پرقائم ہونے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود مسلمانوں کے ایمان اس قدر کمزور ہیں کہ معاشیات کے ایک آن لائن لیکچر (جو کہ غالبا دو یا تین گھنٹے کاہوگا ) کے دوران ہی طالب علموں کے ایمان کمزور پڑ جاتے اور وہ کسی ان دیکھے ایجنڈے کاشکار ہو جاتے یا پھر ایک احمدی کی صرف تصویر ہی انکے ایمانوں کے لئے خطرہ بن جاتی
یہ صورتحال اور بھی زیادہ حیران کن ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جوغیرت اور حمیت اسلام کی ہمیں آج پاکستان میں نظرآتی ہے اسکا عشرعشیر بھی( نعوذباللہ) پندرہ سوسال پہلےکی ریاست مدینہ میں دکھائی نہیں دیتا بلکہ آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کے نہ صرف ارشادات بلکہ عمل بھی پاکستانی مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں
احادیث میں بہت کثرت سے علم حاصل کرنے کے ارشادات موجود ہیں حدیث علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جاناپڑے بچےبچے کی زبان پر ہے اور چین تو غالبا کسی بھی دور میں مسلم ریاست نہیں رہا -اس کے علاوہ علم حاصل کرنے کی جس قدر تاکید قرآن میں ہےکسی اور مذہبی کتاب میں نہیں ہے بلکہ سب سے پہلی وحی جو آنحضورصل اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ اقراء تھی اور کسی ایک بھی جگہ یہ تخصیص نہیں کی گئی کہ قادیانیوں یا کسی بھی اور مذہب کےلوگوں سے علم حاصل کرنا منع ہے بلکہ اس کے بر عکس آپ صل اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں یہ اعلان فرمایا کہ وہ جنگی قیدی جو فدیہ نہیں دے سکتے اور لکھنا پڑھنا جانتے ہیں وہ مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو انھیں آ زاد کر دیا جائے گا- اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی ان بچوں میں شامل تھے جنھوں نے کفار مکہ سے لکھنا پڑھنا سیکھا
آ ج کے پا کستان کے ما حول کو دیکھیں تو یہ ارشاد نبی سن کر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں کہ آ نحضور صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے بچوں کو مشرک استادوں کی زیر نگرانی دے دیا؟
ہمارے ہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف عوام ہی نہیں بلکہ پا کستان کی پوری ریاست ہی مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے- علمی کام ایک مشکل کام ہےاس کے لئے توجہ اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگیں ، نفرتیں اور جنگی جنوں علم اور عالموں کو بہا لے جاتی ہیں
سپین پہ عیسائیوں کے غلبے کے بعد وہاں کے مسلمان سا ئنسدانوں نے یورپ میں پناہ لی ا ور پھر یورپ کی زرخیز مٹی میں علم اور حکمت پروان چڑھا اسی طرح جب یورپ نے یہودیوں کو مظالم کا نشانہ بنایا تو بہت سے یہودی سائنسدان یورپ سے امریکہ منتقل ہو گئے ان میں آ ئن سٹائن اور فرمی بھی (فرمی کی بیوی یہودی تھی)شامل تھے جنھوں نے ایٹم بم بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں وہ ایٹم بم جس کا بنیادی عمل (فشن ری ایکشن) یورپ(جرمنی) کی لیبارٹریوں میں تخلیق پایا تھا وہ وہ امریکہ میں پایا تکمیل کو پہنچا
آ ج بھی نجانے کتنے دماغ جو کہ پاکستان کے لئے خدمات سر انجام دے سکتے تھے وہ پاکستانیوں کی نفرت کا شکار ہو گئے اور انھیں دنیا کی لیبارٹریز چھین کر لے گئیں
پاکستانی نو جوانو! اپنی حدود کو پہچانو مذہب ہر انسان اور خدا کے درمیان کا معاملہ ہے انسان اور خدا کے درمیان گھسنے کی کو شش مت کرو قومیں اگر غلط عقائد کی وجہ سے تباہ ہوتیں تو آ ج آدھی دنیا تباہی ہو چکی ہوتی یہ غلط اعمال ہی ہوتے ہیں جو کسی قوم کو تباہی کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں اپنے اعمال کی فکر کرو نہ کہ دوسروں کے عقائد کی اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے