آر-ایس-بھٹی
ابھی
کچھ دن پہلے علامہ طاہراشرفی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو دیا- جس میں سوال
کرتے ہوئے علی فرقان نے یہ پوچھا کہ اسلام میں یہ کہا جاتا ہے کہ سب کے حقوق
برابر ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ کوئی اقلیتی رکن اگر کسی حکومتی اعلی عہدے پر آجاتا
ہے تو عوامی سطح پر اس کے اوپر ردعمل جو
ہے وہ آنا شروع ہو جاتا ہے جواب علامہ طاہر اشرفی: اعتراض یہ نہیں ہے کہ کوئی اقلیتی رکن اوپر کیوں آ رہا ہے اعتراض جو ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ آپ آئین اور قانون کو تسلیم بھی نہیں کرتے اور آپ کہتے ہیں کہ ہمیں پوزیشن بھی دیں توبھئ جو پوزیشن جس آئین اور قانون کے تحت آپ نے لینی ہے اسے تو آپ تسلیم کریں نا- تو جب یہ ایک چیز مسلمہ ہے اور آپ کی پارلیمنٹ نے طے کر دیا ہے اور آئین نے طے کر دیا ہے- اب یہ دو چیزیں ہیں میں چاہوں گا کہ آپ اس کو کلیئر بالکل کردیں -ایک ہے ان کا غیرمسلم ہونا ایک ان کا پاکستانی بطور ان کا حق ہم اس بات کے بالکل قائل ہیں کہ ان کو پرٹیکشن ملنی اہئے ان کی جان و مال سے کسی کو نہیں کھیلنا چاہیے اور یہ علماء اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان کے ساتھ ریاست کو معاملہ کرنا ہے اگر کوئی توہین بھی کرتا ہے گستاخی بھی کرتا ہے تو 298 سی کا قانون اسی لیے ھے اگر اس قانون کی
موجودگی میں کوئی قانون کوہاتھ میں لیتا ہے تو قطعا
درست نہیں ہے- (انٹرویو دیکھنے کے لیےلنک
پر کلک کریں) ---------------- -
یہاں علامہ طاہر اشرفی کون سی اقلیت کی بات کر رہےہیں۔ کیا
پاکستان میں کبھی کسی ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی کے ماننے والے کو
حکومتی عہدے پر فائز ہونےپر کبھی عوام کی طرف سے ردعمل آیا ہے؟ جی نہیں صرف
جماعت احمدیہ ہی ہے کہ اگر کبھی کسی احمدی کے بارے میں یہ خبر آ جائے کہ
اسے کوئی عہدہ ملکی سطح پر ملنے والا ہے تو ملک میں ایک فساد کی سی کیفیت
مذہبی طبقے کی طرف سے پیدا کردی جاتی ہے- اور جس 298 سی کا علامہ طاہر
اشرفی حوالہ دے رہے ہیں وہ تو خاص طور پر احمدیوں کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور یہ
الزام تو صرف احمدیوں پر ہی لگایا جاتا ہے کہ وہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے کسی
بھی اور مذہب کے لوگوں کو آپ یہ الزام نہیں لگاتے خدا
کے فضل سے احمدی اپنے ایمان کو دنیاوی عزتوں اور عہدوں پر نہ صرف فوقیت دیتے ہیں بلکہ اپنی جان و مال کی قربانی سے
بھی دریغ نہیں کرتےاور اس پر پچھلے ستر سال کی پاکستان کی تاریخ گواہ ہے
پاکستان بننے کے لئے قائداعظم کا ساتھ دینے والی واحد مذہبی جماعت؛ جماعت احمدیہ
ہی تھی اور اس کے چند سالوں کے بعد ہی 1953ء
میں احمدیوں کے خلاف پاکستان میں تحریک چلی جس میں احمدیوں نے جان اور مال کا
نذرانہ محض اپنے ایمان کی خاطر دیا ۔ 1974ء میں آپ کے بڑوں نے دوبارہ احمدیوں کے
خون سے اپنے ہاتھ رنگے ان کے گھر جلائے گئے کاروبار اور اموال کو نقصان
پہنچایا ۔ اور اس کے بعد سے آج تک آپ نے احمدیوں کی جان
اور مال کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اور یہ سب
قربانیاں احمدیوں نے اپنے ایمان کی خاطر دیں ۔ کہ لکھنے والے نے لکھ دیا ہے
مریض تم ہو طبیب ہم ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ احمدی قانون کو
تسلیم نہیں کرتے تو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔ درج
بالا تمام واقعات میں جب جب اور جہاں جہاں احمدیوں کو تختہ مشق کا نشانہ بنایا
گیا تو کوئی ایک بھی واقعہ بتایا جائے جہاں
احمدیوں نے مظلوم ہونے کے باوجود کبھی قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہو احمدیوں نے اس ملک کو
بنانے کی خاطر قربانیاں دیں لیکن اس کے
بعد اسی ملک میں ستائے بھی گئے ۔ جان اور مال سے محروم کیے گئے لیکن ایک بھی
مثال آپ کے پاس نہیں کہ آپ یہ کہہ سکیں۔ کہ احمدیوں نے قانون شکنی کی ہو- دور کیا جانا ابھی 2010 میں احمدیوں کی دو مساجد پر لاہور میں
خودکش حملہ ہوا جس میں احمدیوں نے ایک خود کش حملہ آور کو زندہ پکڑ کر
پولیس کے حوالے کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ خودکش حملہ آور
کو زندہ پکڑا گیا۔ لیکن احمدیوں نے اس سے اپنے پیاروں کا بدلہ خود لینے کی بجائے، اس کو زدوکوب کرنے
کی بجائے ایک ذمہ دار شہری کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کے بعد وہ خودکش حملہ آور کہاں گیا؟آج وہ کہاں ہے؟؟
جس ائین کی آپ بات کرتے ہیں تو اس آئین میں درج مسلمان کی تعریف کو کبھی
خود بھی غور سے پڑھ لیں اس کی رو سے تو
آپ بھی مسلمان نہیں ہیں کیونکہ آپ بھی تو پچھلے تیرہ سو سال میں آنیوالے محدثین، صالحین، مجددین، اور خلفائے راشدین
پر ایمان رکھتے ہیں اور آئندہ کے لئے
حضرت عیسی کے دوبارہ آنے کے بھی قائل ہیں اور اس کے باوجود خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں- بلکہ احمدی تومسلمان کی اس کی خود ساختہ تعریف
پر دستخط نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی سے بچ
جاتے ہیں آپ تو اس پر دستخط کر کے مسلمان بھی بنتے ہیں حکومت سے عہدے بھی
لیتے ہیں اور پھر بیٹھ کر حضرت عیسی کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ احمدی توآئین کی اس خلاف ورزی سے بچ جاتے ہیں
کیونکہ احمدیوں کو خود کو مسلمان ثابت
کرنے کے لئے اس خود تراشیدہ تعریف پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں ہے طاہراشرفی صاحب آپ کا یہ رویہ اور اس طرح کے بیانات کسی بھی طرح غیر جانبدار نہیں اس طرح کی جانبدارانہ رویہ کے مالک سے ہم کس طرح یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ حال ہی میں احمدیوں کی ہونے والی شہادتوں کی غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تحقیقات کر سکیں گے- کیا یہ ویسی ہی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونے جارہی ہیں جو 2010ء میں گرفتار ہونے والے خودکش حملہ آورسے کی گئیں؟ اور کیاآپ بتا سکتے ہیں کہ دس سال گزر جانے کے بعد اس خود کش حملہ آور کو کیاسزاسنائی گئی ہے؟ اب بات کر لیتے ہیں آئین وقانون کی پاسداری کے اس اعلی معیار کی جو پاکستان میں قائم ہے
|