بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرتد کی سزا
قرآن اور اسوہ رسول صہ کی روشنی

(آر۔ایس۔بھٹی)
چھ ہجری، حدیبیہ کا مقام کام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ علیھم کے ہمراہ تشریف فرما ہیں اور کفار مکہ کے ساتھ صلح کی شرائط طے پا رہی ہیں۔
شرط نمبر 3-اگر مکہ والوں میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر کر مدینہ آجائے تو آنحضورصلی اسے پناہ نہیں دیں گے اور اسے واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی شخص مدینہ سے مکہ چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا
سوال یہ ہے کہ کوئی شخص مکہ چھوڑ کر مدینہ کیوں جائے گا؟
یہ اس شخص کی بات ہو رہی ہے جو اسلام سے پھر جائے، اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے اور جسے ہمارے ہاں عام محاورے میں مرتد کہا جاتا ہے۔ تو کیا اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ دے، اور کفر کی گود میں میں واپس چلا جائے تو اسے قتل کرنے کی بجائے مکہ جانے کی اجازت ہوگی؟ یہ چھ ہجری کا زمانہ ہے قرآن اپنی تکمیل کے قریب ہے اور اسلام کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے کے لیے بے قرار ہے اگر خدا تعالی نے قرآن کریم میں مرتد کی سزا قتل بیان فرما دی گئی تھی تو قرآن کی اس واضح تعلیم کے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح شرائط قبول فرما سکتے تھے ؟
اس کا مطلب ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا وضع کرنے کے لیے ہمیں قرآن اور حضور صل وسلم کے اسوہ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ہے کیا واقعی سزا قرآن یا حدیث میں بیان فرمائی گئی ہے
سورۃ آل عمران آیت نمبر 87 تا 90 اللہ تعالی فرماتا ہے
بھلا کیسے اللہ ایک قوم کو ہدایت دے گا جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہوں اور وہ گواہی دے چکے ہوں کہ رسول حق ہے اور ان کے پاس کھلے کھلے دلائل آ چکے ہوں اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا
یہی وہ لوگ ہیں جن کی جزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی
وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں ان سے عذاب کو ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ وہ کوئی مہلت دیئے جائیں گے۔
سوائے ان کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی تو یقین اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے
اسی طرح سورہ النساء کی آیت نمبر 138 میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کردیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے اللہ ایسا نہیں کہ انھیں معاف کر دے اور انہیں راستے کی ہدایت دے
درج بالا آیت میں تو اللہ تعالی نے مرتد کو قتل کرنے کے خلاف واضح تعلیم دی ہے کیونکہ اگر کسی شخص کو مرتد ہونے کے بعد قتل ہی کر دینا ہے تو اس کے دوبارہ ایمان لانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
اسی طرح ایک اور بہت مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا خب وحی ہوتی تو حضور اسے بلا کر لکھوا دیا کرتے۔ یہ سورۃ المومنون کی شروع کی آیات کا ذکر ہے جن میں انسان کی روحانی اور جسمانی پیدائش کے مختلف مراحل بیان فرمائے گئے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے 'ثم انشانہ خلقا اخر' تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا فتبارک اللہ احسن الخالقین حضور صل وسلم نے فرمایا یہی وحی ہے اس کو لکھ لو لو۔ اس بدبخت کو یہ خیال آیا کہ شاید جس طرح میرے منہ سے آیت نکلی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح بنا لی ہے اور شاید نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح قرآن بنا لیا کرتے ہیں وہ شخص مرتد ہوگیا اور مکہ چلا گیا (اصابہ جلد 4 صفحہ77 )
نہ صرف یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ یہ بھی روایت آتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ شخص مسلمان ہوگیا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام اپنے مکمل صورت میں قائم ہو چکا تھا تو پھر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم نہ دیا بلکہ دوبارہ اس کی بیعت قبول فرما لی۔
اب دیکھتے ہیں کہ مرتد کی سزا کا عقیدہ کن لوگوں کا ہے اور کون لوگ اس پر زور دیتے ہیں
جب بھی کوئی نبی دنیا میں مبعوث ہوتا ہے تو وہ نئی تعلیمات لے کر آتا ہے یا جن تعلیمات کو لوگ بھول چکے ہوتے ہیں ان کا اعادہ کرتا ہے اور وہ لوگ جو پرانے رسم و رواج کو چھوڑ کر اس کی پیروی کر رہے ہوتے انہیں مرتد کہا جارہا ہوتا ہے اور مرتد کا لفظ عمومی طور پر انبیاء کے مخالفین کی طرف سے عام طور پر زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ انبیاء کے پیروکاروں کو عام طریق سے ہٹ کر نیا طریق اختیار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے مخالفین کا ہمیشہ سے یہی عقیدہ رہا ہے کہ مرتد کو یا تو قتل کر دیا جائے یا اس کو ملک سے نکال دیا جائے۔
جیسا کہ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 14 اور 15 میں اللہ تعالی فرماتا ہے؛ اور ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم ضرور تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تم ہماری ملت میں واپس آ جاؤ گے تب ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کر دینگے
اور ضرور ہم تمہیں ان کے بعد ملک میں بسا دیں گے یہ اس کے لئے ہے جو میرے مقام سے خوف کھاتا ہے اور میری تنبیہ سے ڈرتا ہے
ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالی مرتد ہو جانے والوں کے بدلے میں خوشخبری دے رہا ہے کہ میں ان کے بدلے میں ایک قوم دوں گا چنانچہ سورہ المائدہ آیت نمبر 55 میں اللہ تعالی فرماتا ہے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہوجائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں اور و ہمومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت۔
ان سب آیات اور اسوہ رسولصل اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کے بعد اگر آج کے مسلمانوں کی دینی تربیت کو دیکھا جائے تو معاملہ بالکل الٹ دکھائی دیتاہے
نا صرف یہ کہ وہ دوسرے مذہب بلکہ دوسرے فرقے کو برداشت کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں اور آج کل تو ایک بہت ہی مشہور سلوگن انٹرنیٹ پر چلتا ہے کہ بغیر دلیل کے دوسرے کو کافر اور واجب القتل کہا جاتا ہے اور جماعت احمدیہ پر یہ نوازش خاص طور پر اور باافراط کی جاتی ہے
ذیل کی دو ویڈیو قتل و غارت گری کے اس سمندر میں سے صرف نمونے کے طور پر نکالی گئی ہیں
https://www.youtube.com/watch?v=EMiawYNp628
یہ صرف دو ویڈیو ہیں اس میں قرآن کے اس واضح حکم کے خلاف پاکستان کے علماء فتوی دے رہے ہیں اور یہ ان علماء کی ویڈیو ہیں جنہیں عام طور پر مہذب اور غیر شدت پسند علماء میں شمار کیا جاتا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک صاحب تو نہایت مہذب انداز سے احمدیوں کے قتل کے فتوے دے رہے ہیں اور دوسرے صاحب مرتد کو فتنہ وفساد کا منبع قرار دیتے ہوئے اس کے قتل کے لیے بہانہ تراش ہیں اور ہمیشہ سے یہ کام خدا کے بھیجے ہوئے فرستادہ کے مخالفین کرتے آئے ہیں
ہے کام مساوات محمد کومٹانا
کرتا ہے عرب اور عجم اور طرح سے