دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے ہم جنس پرستی کے رجحانات
اگر ہم دنیا کی موجودہ حالت کا سرسری جا ئزہ لیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ انسان ہی نے خدا کی بنائی اس خوبصورت دنیا کو نقصان پہنچایا ہے ، کبھی ارادی اور کبھی غیر ارادی طور پر۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی تو کی لیکن اس کے ساتھ انسان میں یہ جذبہ بھی پیدا ہوا کہ وہ قوانین قدرت کی خلا ف ورزی کرنے میں فخر محسوس کرنے لگا ، کلونگ اور جنیٹک انجینئرنگ کی بعض شاخیں اس کی مثال ہیں
ہم جنس پرستی بھی ایسا ہی ایک غیر قدرتی رجحان ہے جسے آجکل مغربی معاشرے میں خصوصا اور دنیا بھر میں عموما پزیرائی مل رہی ہے۔
خدا تعالی نے قرآن میں اس کی واضح طور پر ممانعت فرمائی ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا
بنایا ہے ، چنانچہ سورہ الذاریات آیت 50 میں آتا ہے
وَمِن کُلِّ شَیءٍ خَلَقَا زَوجَینِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ
اور ہر
چیز میں سے ہم نے جوڑا جوڑا پیدا کیا تاکہ تم نصیحت پکڑو۔
پھر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جنسی تعلقات کا مقصد بھی بیان
فرمایا ہے ، چنانچہ سورہ الاعراف آیت 190 میں آتا ہے۔
ھوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنہَا زَوجَہَا لِیَسکُنَ اِلَیہَا فَلَمَّا تَغَشّٰہَا حَمَلَت حَملًا خَفِیفًا فَمَرَّت بِہٖ فَلَمَّا اَثقَلَت دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَالَئِن اٰتَیتَنَا صَالِحًا لَّنَکُونَنَّ مِنَ الشّٰکِرِینَ
یعنی : وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیااور اسی سے اس کا
جوڑا بنایا تاکہ وہ اس کی طرف تسکین کی خاطر مائل ہو۔ پھر جب اس نے اسے ڈھانپ لیا
تو اس نے ایک ہلکا سا بوجھ اٹھا لیا پھر وہ اسے اٹھائے ہوئے چلنے لگی۔ پس جب وہ
بوجھل ہو گئی تو ان دونوں نے اپنے ربّ کو پکارا کہ اگر تُو ہمیں ایک صحت مند
(بیٹا) عطا کرے تو یقیناً ہم شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے۔
اس آیت میں خدا تعالی نے جنسی تعلقات کا اصل مقصد اور اس کی
تمام تفصیلات بیان فرما دی ہیں۔ یعنی جنسی
تعلقا ت کا اصل مقصد افزائش نسل ہے ، جبکہ خدا تعا لی نے سکینت بھی اس میں اضافی طور پر رکھ
دی، تاکہ افزائش نسل کی بھاری اور اہم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے مرد اور عورت ایک
دوسرے کا ساتھ دے سکیں ۔
لیکن نام نہاد جدت
پسندی کی دلدل میں دھنستی ہوئی نسل انسانی نے اصل مقصد کو ایک طرف پھینکتے
ہوئے ،محض لذت کا حصول ہی اپنا مقصد حیات قرار دے دیا ۔ اور اس کے لیے نت نئے
طریقے تلاش کرتے، ہم جنس پرستی کی گہر ی کھائی میں آ گرئے ہیں، اور اب حالت یہ ہے
کہ ہم جنس پرستی ایک عفریت کی طرح اس دنیا کو اپنے نرغے میں گرفتار کرتی
جا رہی ہے ۔
قر آن میں ہم جنس پرستی کی ممانعت
اللہ تعالی نے قرآن میں واضح طور پر اس بے حیائی کو منع فرمایا
ہے چنانچہ سورہ النساء( 16-17)
میں اللہ تعالی فرماتا ہے
وَالّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡھُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَنَّ سَبِیۡلًا
وَالَّذٰنِ یَاتِیٰنِھا مِنکُم فَاٰذُوھُمَا فَاِن تَابَا وَاَصلَحَا فَاَعرِضُوا عَنہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیمًا
یعنی : اور تمہاری عورتوں میں سے وہ جو بے حیائی کی مرتکب ہوئی
ہوں ان پر اپنے میں سے چار گواہ بنا لو۔ پس اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں
روک رکھو یہاں تک کہ ان کو موت آجائے یا ان کے لئے اللہ کوئی (اور) رستہ نکال دے
اور تم میں سے وہ دو مرد جو اس (بے حیائی) کے مرتکب ہوئے ہوں
انہیں (بدنی) سزا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کر لیں تو ان سے اِعراض
کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے
ان آیا ت میں اللہ
تعالی نے اس بے حیائی کا ذکر فرمایا ہے جسے آج کل
گے، لیزبین ازم یا ایسے ہی دوسرے ناموں سے پکا را جاتاہے
اس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس عورت پر ایسے الزامات لگیں اس کے متعلق چار گواہ کر لیا کرو
جبکہ مردوں کے متعلق چار گواہ کی بات نہیں کی گئی
۔یہ عورتوں کی عصمت کی حفاظت اور انھیں جھوٹے الزام سے بچانے کے لیے ہے
اور جیل بھیجنے کا حکم بھی نہیں دیا کیونکہ یہ انھیں اور بھی زیا دہ
برباد کر دے گا۔
اور مردوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ ایسی عورتوں کو گھروں سے نکال دیں، یعنی ایسا جرم بھی قرار نہیں دیا جس کے نتیجے میں طلاق وارد ہو جائے اس لئے سزا کے طور پر فرمایا کہ ان کے گھروں سے اکیلے نکلنے پر پابندی رکھو، اکیلا باہر نہ پھرنے دو ، تاکہ یہ بے حیائی معاشرے میں نہ پھیلے ، متعدی بن سکتی ہے کیونکہ یہ ایسی بیماری ہے جو
عورتوں پر زیادہ
احتیاط اس لیے کی گئی کیونکہ ایسے معاشرے
میں، جہاں پردہ بھی رائج ہو، عورتیں ایسی بات
کو چھپا لینے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں
اور عموما عورت کا عورت کے پاس جا کر گھر میں بیٹھنا زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا جتنا
مردوں کا مردوں کے پاس جا بیٹھنا معیوب
سمجھا جاتا ہے ۔ اس لیے قران کریم نے اس مسئلے پر بہت احتیاط فرمائی ہے
مردوں پر چونکہ
گھر چلانے کی ذمہ داری ڈالی ہے اس لیے انھیں گھروں میں رکھنے کا ارشاد نہیں
فرمایا تاکہ گھر چلانے کی ذمہ داری پور ی
کرتے رہیں ۔ اس لیے ان کے لئے بدنی سزا دینے کا حکم ہے ۔ لیکن بدنی سزا حسب حالات مقرر ہو سکتی ہے اور جس طرح سورہ
النور میں زنا کی سزا کے تعلق میں کوڑوں
کی تعداد بیان فرمائی گئی ہے، اسکا یہاں
ذکر نہیں ہے ۔
جب تک ایسے افراد کے متعلق یہ پتہ نہ ہو کہ توبہ کریں گے اور اصلاح کریں گے ،ان کی نگرانی رکھنی ہے ۔کیونکہ اس آیت کا اگلا حصہ بتاتا ہے کہ ہر گز یہ مراد نہیں ہے کہ جرم پکڑا گیا ہے اور انھوں نے کہہ دیا کہ " ہم توبہ کرتے ہیں"،تو ان کو معاف کر دو ، جو جرم پکڑا گیا ہے اس کی سزا تو ملے گی۔اس کے بعد اگر وہ توبہ کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ اپنی اصلاح کریں گے تو پھر ان سے اعراض کرو پھر ان کو بار بار اپنی نظر میں رکھ کر یا کسی اور پابندی کے ساتھ تنگ نہ کرو۔
(خلاصہ از ترجمہ القرآن کلاس: 52)
درج بالا آیات میں
خدا تعا لی نے ہم جنس پرستی کی ممانعت اور اس کی سزا کے بارے میں تفصیل
بیان فرما دی ہیں ۔پھر اللہ تعا لی قرآن کریم میں اس بے حیائی میں مبتلا قوم لوط کا بھی قرآن میں ذکراور ان کے انجام کے بارے میں
بیان فرما یا ہے ، چنانچہ
سورہ الاعراف آیت 85 میں حضرت لوط
کی قوم کے انجام کے بارے میں فرماتا ہے
وَاَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ
یعنی اور ہم نے ان پر ایک قسم کی بارش برسائی۔ پس دیکھ کہ
مجرموں کا کیسا انجام ہوتا ہے
حضرت خلیفہ المسیح الرابع اس آیت کی تشریح میں فرماتےہیں :
" یہاں بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے ۔ یا تو کوئی زلزلہ
آیا ہے بہت بڑا ،اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوئے
ہیں ، اور اس زلزلے کی طاقت سے ان پر وہ پتھر گرئے ہیں آ کر ۔اور بعض بڑے بڑے
زلزلوں میں یہ ثابت شدہ بات ہے کہ کئی ہزار میل تک بھی اس زلزلے کے نتیجے میں پھٹنے والا مادہ
اور پتھر دور دور جا کر گرتے ہیں ۔ جو ایک ہزار سے زائد میل تک کاتو قطعی
طور پر ثبوت ملتا ہے۔ "
( ترجمہ القرآن کلاس: 90)
حضرت خلیفتہ المسیح
الرابع رحمہ اللہ حضرت لوط علیہ
السلام سے متعلق آیا ت کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :
"اس لیے یاد رکھیں کہ یہ جو آج کل بھی بیماری
یورپ میں بہت پھیل رہی ہے اور
امریکہ میں بھی ، اس کے نتیجے میں وہ دو (2)بستیاں ہلا ک کر دی گئیں تھیں جن میں یہ لوگ بستے تھے ۔ "۔ (ترجمہ القرآن کلاس: 90، منٹ:38)
بائیبل میں ہم جنس پرستی
کی ممانعت:
صرف قرآن میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں بھی اس
کی ممانعت ہے ، چنانچہ بائیبل احبار (Leviticus)کی آیت 22 میں آتا ہے
''تمہیں کسی آدمی کے ساتھ اُس طرح جنسی
تعلقات نہیں کرنا چا ہئے جیسا کسی عورت کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ یہ بھیانک گنا ہ ہے''۔
مغربی ممالک میں بسنے
والےافراد کی اکثریت خود کو عیسا ئی مذہب کی طرف
منسوب کرتی ہے ۔ اور یہاں رہنے والے لوگ خواہ عیسا ئی ہوں ،کسی دوسرے
مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا لا مذہب
ہوں ان کی شادیوں کا اندراج چرچ میں ہی ہوتا ہے ۔ جبکہ
ان ممالک کے قوانین میں ہم جنس
پرستوں کی شادیوں کی بھی اجازت ہے ۔ اور پادری ایسے جوڑوں کی بھی شا دیاں کرواتے
ہیں جو ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں، اور
بائیبل کے اس واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔
ہم جنس پرستوں میں بیماریوں کےخطرات :
یہ تو تھیں وہ سب تعلیمات جو خدا تعالی نے ہم جنس پرستی کے متعلق بیان فرمائیں ۔ لیکن خدا تعا لی کی بیان فرمودہ تعلیمات کے
پیچھے گہری ، پر حکمت وجوہات بھی ہوتی ہیں
۔ مختلف تحقیقات سے یہ بات ثا بت شدہ ہے
کہ ہم جنس پرستی انسانوں میں خطرناک بیما
ریوں کی وجہ بھی بنتی ہے ۔ مارچ 2024 میں چھپنے والی ایک ریسرچ کے مطابق
HIV سے متاثر ہونے والے لوگوں میں سب سے زیادہ تعداد ہم جنس پرست مردوں کی ہے ۔ اس تحقیق میں ایسے افراد کو احتیاطی تدابیر کے طور پر ایک یہ
بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ ایک ہی ساتھی تک محدود رہنا ایچ ۔آئی ۔وی کے خطرے کو کم کر سکتا ہے ۔
(جبکہ ایک ساتھی تک محدود رہنےکا رجحان تو
اس مغربی معاشرے میں قریبا نا پید ہی ہو چکا ہے، ان کے تو لطائف بھی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ"تم نے
اتنے سا ل ایک ہی شخص کے ساتھ کیسے گزار دیئے "؟)
اس کے علاوہ جو بیماریاں ہم جنس پرست افراد میں ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں ان میں آتشک ،سوزاک ، مقعد
کا کینسر ، سروئیکل کینسر اور
اعضائے تناسل کا کینسر بھی شامل ہے۔ دل کے امراض، سگریٹ نوشی کی زیادتی،
بریسٹ کینسر ، موٹاپا اور کھانے
پینے میں بے ضابطگی ،
ہیپا ٹائٹس (بی، سی) ، گلے کا سوزاک
وغیرہ وہ بیماریاں ہیں جن کا تناسب ہم جنس پرستوں میں دوسرے لوگوں سے زیادہ دیکھنے
میں آتا ہے
اس کے علاوہ ہم جنس پرستوں کی عمومی ذہنی صحت کی خرابی
بھی دیکھنے میں آتی ہے ۔ ڈپریشن ، بائی پولر ڈس آڈر اور بے چینی
جیسے مسا ئل بھی ہم جنس پرست افراد
میں دوسرے لوگوں سے زیادہ پائے جاتےہیں۔
پمپائے:
تاریخ نے ایک ایسے شہر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر رکھا ہے جس کے رہنے والوں میں ہم جنس
پرستی کا رجحان عام تھا۔ پمپائے ، اٹلی کا
ایک شہر ۔یہ اگست 79ء کی ایک دوپہر کا ذکر ہے ،
جب
پمپائے سے قریبا 24
کلو میٹر دور
واقع
ایک آتش فشاں پہاڑ نے لاوا
اگلنا شروع کیا ۔ یہ لاوا اس شدت ،کثرت اور تیزی سے پھوٹا کہ پمپائے
کے مکینوں کو جان بچانے کا
موقع ہی نہ مل سکا۔ اس شہر اور اس کی بڑی آبادی
اس آتش فشاں کے ملبے میں 19 فٹ
نیچے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی ۔ وہاں
کے آرٹ اور محفوظ آثار سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ یہاں کی
اکثریت میں ہم جنس پرستی کا رجحان عام تھا۔ اس سے یہ بات تو واضح ہو جا تی ہے کہ
اگر خدا نے کسی بستی کو تباہ کرنا ہو تو اسے بس "کن" کہنے کی دیر ہے
حضرت لوط علیہ السلام کو گزرے تین ہزار سال سے زائد عرصہ ہو گیا، جبکہ پمپا ئے کی بربادی کو ابھی دو ہزار سال بھی نہیں ہوئے، لیکن ان دونوں قوموں کے انجام کی مماثلت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائید خدا تعا لی ہم جنس پرست اقوام کو اسی طرح سزا دیا کرتا ہے۔
واللہ اعلم
خد اتعالی ابن آدم کو ہدایت عطا فرمائے اور خدا کے بنائے قوانین کا احترام
کرنے کی توفیق دے آمین۔ افراد جماعت کو ان
برائیوں سے محفوظ رکھے آمین