کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
آر-ایس- بھٹی
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کاکوچ کرجانا
نومبر کی بیس(20) تا ریخ کی شا م کو ا یک
نہا یت تکلیف دہ خبرملی. ایک ا حمدی ڈاکٹر طا ہر محمود صا حب کو اپنے ہی گھر کی د ہلیز پر گولی ما رکر شہید کر دیا
گیا-
انا للہ و انا علیہ راجعون
اس قتل کا محرک وہ مذ ہبی نفرت اورانتہاپسندی ہے جس کی
بنیا د ہمارے معا شرے میں کمزورسیاسی حکومتوں
اورجابر آمروں نے رکھی-
نفرت کے وہ بیج پچھلے چا لیس سالوں میں ایک ایسے تناوردرخت کی شکل اختیار کر
چکے ہیں جس کی جڑیں زمین میں گہرائی تک
اتر گئی ہوں- اسی نفرت نے امنگوں سے بھرپور نوجوان کی زںدگی ںگل لی- اور وہ قد م
جو اپنے گھر پردستک دینے والے مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے اٹھے تھے وہ پھر
کبھی لوٹ کر نہ آۓ- دروازہ پرجان لیوا گولیاں ان کا انتظار کررہی تھیں- وہ نفرت جس
کا غالبا ڈا کٹر طاہرمحمود نے اکتیس سالہ زندگی میں قدم قدم پر سامنا کیا ہوگا،
کبھی ساتھی کلاس فیلوز کے رویوں میں، کبھی ہمسائیوں کی بے اعتنائی میں، کبھی گلی
محلے کی دیواروں پہ لکھے نفرت انگیز نعروں کی صورت میں ؛ وہ نفرت آخر ان کی زندگی
نگل گئی- اس گھر کے افراد کے دکھ کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے جن کی امیدوں کا
مرکزتو شہید ہوچکا ہواور بوڑھا باپ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہسپتال میں ہو-
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس قتل سے ایک پندرہ سالہ نوجوان قاتل کی مسلمانی ثا بت ہوگئی؟ اورآخر ایک پندرہ سالہ لڑکے کو اپنی مسلمانی ثابت کرنے کی ضرورت کیو ں پیش آئی؟ قرآن توکہتا ہے کہ جس نے کسی ایک شخص کی بھی ناحق جان لی اس نےگویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا- پھر یہ کس مذہب کے پیروکار ہیں جن سے ان کے ہمساۓ تک محفوظ نہیں
آخر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود سرکاری مسلمانوں کو اپنی مسلمانی
ثا بت کرںے کی ہر وقت ضرورت کیوں محسوس
ہوتی ہے؟ وہ کیا بے چینی ہےجوانھیں ہر وقت بے چین کیۓ رکھتی ہے؟ اٹھانوے فیصد
مسلمان آبادی والے ملک میں ہر وقت اسلام خطرے میں کیوں رہتاہے؟ کیا یہ خطرہ انھیں باقی کی دو فیصد غیرمسلم
آبادی کی طرف سے ہے؟
یقینا نہ تو وہاں اسلام کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کسی سرکاری مسلمان کی
مسلمانی خطرہ میں ہے- دراصل یہ وہی بیانیہ
ہے جونام نہاد علماء سستی شہرت کے حصول کے لیۓ اپںاۓ ہوۓ ہیں- اس کا ایک بہت بڑا
ثبوت اسی دن بیس (20) ںومبر کو علامہ خادم
حسین رضوی کے مینار پاکستان میں ہونے والا جنازہ ہے- جس میں ایک جم غفیر شامل ہوا- علامہ مرحوم نے
تمام عمر نفرت کی سیاست کی- اور ان کے جنازے میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی – جسے ان کے حامیوں نے علامہ صاحب کے
لۓ جنت کا ٹکٹ قرار دیا -اور ان کے حامیوں کی طرف سے متواتر یہ راگ الاپ جا رہا ہے کہ ''ہمارے اور تمہا رے درمیان جنازے فیصلہ کریں
گے''
تو جناب پھریہ بھی بتا دیں کہ کیا فیصلہ کیا ہےعلا مہ خادم حسین رضوی کے جنازے
نے؟؟؟
کیا اس جنازے نے یہ فیصلہ کیا کہ اب قوم کی دھڑکنیں نفرت پھیلانے والے انتہا پسندوں کے ساتھ دھڑک رہی ہیں؟؟
کیا یہ فیصلہ ہوا کہ مینارپاکستان کی وہ تاریخی جگہ جہاں سے اسی (٨٠)سال پہلے
تحریک پاکستان کا آ غازکچھ باشعور لوگوں ںے کیا آج وہاں ان لوگوں کا اجماع ہوا، جن کے بڑے پاکستان بننے کے مخالف تھے
؟؟؟
کیا یہی اہل لاہور/ اہل پاکستان کا فیصلہ ہے کہ وہ تنگ نظر علما کی شرانگیزی
کے لیۓ ایندھن بننے کے لۓ تیار ہیں ؟؟
اگر یہی فیصلہ ہے تو یقینا یہ بہت ہی برا فیصلہ ہے- لیکن یقینا ایسا نہیں ہے یہ انتہاپسند موقف رکھنے والا گروہ بظاہر کیسا ہی طاقتور نظر آرہا ہو لیکن قائداعظم جیسی عظیم ہستی نے جس محنت اور لگن کی ساتھ، جس عظیم مقصد کے لیے تمام عمر جدوجہد کی اس کا ایسا انجام نہیں ہوسکتا- أس وقت بھی ان لوگوں کے بڑوں نےقائداعظم کے مقابلے پہ منہ کی کھائی تھی- اور آیندہ بھی ان کو ناکامی اور نا مرا دی کا سامنا کرناپڑے گا- انشاءاللہ