ALLAH IS THE GREATEST

THERE IS NO GOD BUT ALLAH.

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

ALLAH HO AKBAR الله اکبر

ALLHA IS THE GREATEST.

ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL

LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE

Everthing is created by ALLAH

Nature is always perfect.

ALLAH Knows Everything

No one is powerful then "ALLAH"

LOVE FOR HUMANITY

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

Wednesday, January 27, 2021

دہریوں کے لئے _چیلنج 1 Challenge-to-Atheists

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہر گز

دہریوں کے لئے _چیلنج

 (آر-ایس-بھٹی) 

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلآم فرماتے ہیں  

  بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز                      

تو پھر کیوں کر بنانا نور حق کا اس پہ آساں ہے                          

نیز فرماتے ہیں 

وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہےکہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتے میں جوکدورت واقع ہوگئی ہےاس کو دور کرکےمحبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں   (لیکچر لاہور، ص180) ا

__________________________________________________________________________________   

مادیت پرستی نے انسان کو اپنے خالق کے وجود کا انکاری بنا دیا۔ ایسے لوگوں کوچاہیے کہ ایک فہرست بھی ان اشیاء کی پیش کریں جو خودبخود پیدا ہورہی ہوں تاکہ ان کی بات میں کوئی وزن بھی پیدا ہو 

 اگرانسان اپنے اردگرد موجود چیزوں پر غور کرئے تو اسے ایسی کوئی بھی چیز دکھائی نہیں دے گی جس کا بنانے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود بخود وجود میں آ گئی ہو- ایک معمولی سمجھ کا مالک بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس کے قرب و جوار میں موجود اشیاء مثلآ میز، کرسی، کمپیوٹر، مکان، دکان کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خود بخود معرض وجود میں آئی ہو لیکن جب بات اس سے بہت زیادہ پیچیدہ اوراعلی اشیاء  کی ہو جیسے ---- زمین، پہاڑ، انسان، درخت، سورج، چاند، ستارے، کائنات، کہکشائیں۔۔۔۔  تو بعض مادہ پرست اس پر زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں کہ یہ سب تو خود بخود وجود میں آ گیا ہے-( اگرچہ یہ معمولی سی کرسی یا میز یا گھڑی یا آلات جراحی وغیرہ توسب ایک خالق کی محتاج ہیں لیکن کائنات وآسمان وزمین وغیرہ سب خود بخود ہیں

 فزکس کاایک بہت معروف عنوان این ٹروپی1* اورہیٹ ڈیٹھ 2*کے نام سے جانا جاتا ہے-اسے سمجھاتے ہوئے اساتذہ کرام ایک مثال دیا کرتے ہیں کہ ایک بہت اچھا صاف ستھراکمرہ ہے جس میں کوئی نہیں رہ رہا- یہ تو ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ آندھیاں اور تیز ہوائیں اس کمرے کی ترتیب خراب کردیں، میزپررکھا گلدان گرادیں، کاغذات اڑا دیں- لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی آندھی یا طوفان ان بکھرے ہوئے کاغذات کو واپس ترتیب سے لگا دے اور گرے ہوئے گلدان کو اٹھا  کرمیز پر رکھ دے یعنی اگر چیزوں میں ترتیب اور توازن ہے تو لازما کسی بڑی طاقتورہستی نے اسے توازن عطاکیا ہے

 تو جناب ! اس کائنات میں موجود عناصر کی ترتیب اور توازن پکار پکار کر ایک غالب ہاتھ کاپتہ دے  رہے ہیں اور غور کرنے والے کبھی  بھی اس ہاتھ کی موجودگی سے انکار نہیں کرسکتے- یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ فطری سچائی کی وجہ سے اس کا کھلم کھلا اظہار کردیتے ہیں جیسا کہ نیوٹن نے کیا اور بعض گلیلیو کی طرح معاشرے کے دباؤ میں آ کر خاموشی اختیار کرلیتے  ہیں 

ان دہریوں کے لیے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ سائینس خداسے  دور لے جاتی ہے نیوٹن کےیہ شاندار الفاظ ایک طمانچہ ہیں 

“This most beautiful system of the sun, planets, and comets, could only proceed from the counsel and dominion of an intelligent and powerful Being … This Being governs all things, not as the soul of the world, but as Lord over all; and on account of his dominion he is wont to be called Lord God.”

 ترجمہ : سورج، سیاروں، شہاب ثا قب کا یہ خوبصورت نظام صرف ایک ذہین اور طاقت ور وجود کی صلاح اور حکمرانی سے چل سکتا ہے---یہ وجود ہر چیز پرحکمرانی کرتا ہے دنیا کی روح کی حیثیت سے نہیں بلکہ سب کے خداوند کی حیثیت سے؛ اور اپنی سلطنت کی وجہ سے وہ خداوند خدا کہلائے گا

کائنات کی وسعتوں کے بارے میں غور کرنا ان دہریوں کے لیے تو ناممکن ہے یہاں تو خدانے ایک ایک ذرے میں کائنات بسا رکھی ہے 

اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے

 اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا 

ترجمہ: اللہ ہرگز اس سے نہیں شرماتا کہ کوئی سی مثال پیش کرے جیسے مچھر کی بلکہ اُس کی بھی جو اُس کے اوپر ہے۔

 خدا نے قرآن میں مچھر کومثال کے طور پربیان کیا ہے- مچھر بظاہر انتہائی حقیر نظر آنیوالا کیڑا، لیکن اس کے اندراس قدر پیچیدہ نظام کام کر رہا ہے کہ شائید ابھی تک انسان اسے مکمل طور پرسمجھ ہی نہیں سکا- مچھر کی پیدائش بذات خود ایک معجزہ ہے- مچھر خشکی پررہتا ہے لیکن اس کی پیدائش کاسارا عمل پانی پر ہوتا ہے اور مچھر کی زندگی کاسب سے پہلا ایڈونچر اسکی پیدائیش سے پہلے شروع ہوتا ہے؛ وہ یہ کہ پانی پر پیدا ہونا ہے لیکن گیلا ہوئے بغیر-کیونکہ پانی لگنے سے فورا ہی اس کی موت واقع ہو سکتی ہے

                                                      Raft                                                     

                                       

مادہ مچھر پانی پر انڈےدیتی ہے لیکن ان کو ایک رافٹ کی شکل میں ترتیب سے پانی پرلگاتی ہے جس کی وجہ سے یہ انڈے پانی میں ڈوبتے نہیں ہیں- یہ انڈے سفید رنگ کے ہوتے ہیں لیکن فوراہی گہرے رنگ میں تبدیل ہوجاتے ہیں ورنہ دوسرے کیڑے مکوڑے انھیں کھا جائیں- اس انڈے میں لاروا بنتا ہے جو کہ الٹا ہوتا ہے یعنی اسکاسر پانی میں ہوتا ہے جبکہ یہ سانس پانی سے باہر کھلی ہوا میں لیتا ہے- وہ ایسے کہ خدانے اس میں ایک خاص عضو بنایا ہے جو کہ غوطہ خوروں کے سنورکل3* کی طرح ہوتا ہے جس کی ٹیوب کا منہ پانی سے باہر ہوتا ہے اس سنورکل کے منہ پرایک چپکنے والا مادہ لگا ہوتا ہے جو پانی کواس ٹیوب میں جانے سے بچاتا ہے ورنہ لاروا پانی میں ڈوب کر مرجائے- لاروا سے پیوپل اور کوکون کے اندر مچھر بننے تک یہ کیڑا ایسے ہی کئی حیران کن مراحل سے گزرتا ہے اور بالاخر اس کی پیدائش کا مرحلہ آتا ہے- مچھر پانی کی سطح پر کوکون سے باہر اسطرح نکلتا ہے کہ گیلا  نہ ہو- کیونکہ مچھر پیدا ہوتے ہی ایسی مہارت کے ساتھ اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑا ہوتا ہےاورپروں کوپانی نہیں لگنے دیتا کیونکہ ہلکی سی ہوا بھی اس کے پرگیلے کرسکتی ہے جومچھر کوموت کی طرف لےجاسکتی ہے

مچھرکوخدا نے جو بہت سی حیران کن صلاحیتں عطا کی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ یہ آپ کو انتہائی اندھیرے میں ڈھونڈ لیتا ہے جبکہ آپ خود کو بھی دکھائی نہیں دے رہے ہوتے لیکن یہ حقیر کیڑا نہ صرف آپ کوڈھونڈ نکالتا ہے بلکہ انتہائی پھرتی کے ساتھ آپ پرحملہ آور بھی ہوتاہے اور کوئی بھی مچھر بھگانے والا سپرے یا کریم اس سے آپ کو بچا نہیں پاتی- آخرمچھر گھپ اندھیرے میں کیسے آپ تک پہنچتا ہے؟ مچھر کے جسم میں کئی قسم کے سینسرز لگے ہوئے ہیں- یہ آپ کے جسم سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو محسوس کرسکتا ہے- آپ کے پسینے کی بو سونگھ سکتا ہے-اس کا انٹینا ستر70 سے زائدقسم کی خوش بوؤں اور کیمیکلز کو سینکڑوں فٹ دور سے سونگھ سکتا ہے یہ آپ کے جسم کی حرارت کو بھی محسوس کرسکتا ہے اور پھر آپکے جسم میں موجود خون کی شریانوں کو ڈھونڈ نکالتا ہے 

اسی منفرد صلاحیت کو بنیاد بناتے ہوئے سائینسدانوں نے وہ کیمرے ایجاد کئے جو کہ حرارت کے ذریعے تصویریں لیتے ہیں اوراندھیرے میں بھی اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح روشنی میں

مچھروں کی خون چوسنے کی صلاحیت اسقدر پیچیدہ ہے کہ شائید اسے ابھی تک پورے طور پر سمجھا نہیں جاسکا

پہلی بات تو یہ کہ مچھر کی خوراک پھلوں کا رس ہے، خون نہیں- خون تو مادہ مچھر صرف اس وقت چوستی ہے جب اسے انڈوں کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے 

   جب مچھر آپ پر بیٹھتا ہے تومناسب جگہ کا انتخاب کرتاہے اسکی ایک سوئی      کی طرح کی ٹیوب ہوتی ہے جو کہ سرنج سے مشا بہت رکھتی ہےاور اس پر ایک حفاظتی ڈھکن ہوتا ہےخون چوسنے کے دوران یہ سرنج ڈھکنے سے باہر نکلتی ہے لیکن مچھر یہ سوئی آپ کے جسم میں نہیں گھساتا(شائید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سوئی کی لمبائی انسانی جلد کی موٹائی سے کم ہے) بلکہ پہلے اپنے نیچے کے جبڑے کو جسم پر رگڑ کرسوراخ کرتا ہے اور پھر اس سوراخ میں اپنا سرنج ڈالتا ہے لیکن ابھی اس سے پہلے بہت کچھ کرنا باقی ہے

 ہمارے خون میں خدا نے جمنے کی صلاحیت رکھی ہے یہی وجہ ہے کی زخم لگنے کے تھوڑی دیر کے بعد خون خودبخود جم کر رک جاتا ہے ورنہ ایک ہی زخم انسان کی زندگی کا آخری زخم ثابت ہو- لیکن خون جمنے کی یہ صلا حیت مچھر کو بالکل پسند نہیں کیونکہ اس طرح جو زخم مچھر نے ہمارے بازو پر کیا ہے وہ فورا ہی جم جائے اور اسقدر گاڑھا خون مچھر کےلیے چوسنا ممکن نہیں- اس لیے وہ پہلے ایک اینٹی کلاٹ4* دوائی ہمارے جسم میں داخل کرتا ہے یہ دوائی5* نہ صرف ہمارے خون کو جمنے سے بچاتی ہے بلکہ ایک قسم کا لوکل انستھیزیا 6*کا بھی کام کرتی ہے یہی وجہ ہے آپ کو مچھر کے کاٹے کی تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنا کام کرچکا ہوتا ہے

مچھر کا منہ صرف ایک سوراخ نہیں ہوتا بلکہ یہ سوئیوں کا ایک بہت ہی لطیف نظام ہے اس میں چھ سوئیاں ہوتی ہیں جو جسم میں گھس کر اپنا اپنا کام کرتی ہیں اورمچھر کے لیے خون چوسنا آسان بناتی ہیں

جب مچھر کی آنت خون سے بھر جاتی ہے تو پھر وہ خون سے سرخ ذرات اور پانی کو الگ الگ کرتی ہے اور زائید پانی جسم سے باہر نکال پھینکتی ہےاور اس طرح اس میں مزید خون چوسنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے

مچھر ملیریا سمیت بہت سی بیماریوں کے جراثیم اٹھائے ہوتا ہے لیکنخود مچھر کو کبھی ملیریا نہیں ہوتا- یہی نہیں بلکہ انتہائی مہلک اینٹی کلاٹ دوائی جو وہ اٹھائے پھرتا ہے اسکے اپنے جسم کانظام مکمل طور پر اس سےمحفوظ رہتا ہے

یہ بظاہر معمولی اور حقیر نظر آنیوالا مچھر، جو اسوقت تک دنیا کا سب سے زیادہ قاتل وجود ہے، اپنی ذات میں ایک شاہکار ہے- کیا اس کا ایک مترتب، جامع اور مشکل نظام خود بخود پیدا ہوگیا ؟ کیا ایسی ترتیب اورتوازن بغیر کسی طاقتور ہستی کے ممکن ہے؟ ہرگز نہیں- سائنس تو ترتیب کے لیے طاقت کی موجودگی کو لازم ٹھراتی ہے

اور پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن میں مچھر کو ہی مثال کے طور پر چنا گیا؟اگر خدا کا وجود نہیں تھا تو پھر کس نے آنحضور صل اللہ علیہ وسلم سے یہ مثال قرآن میں لکھوائی؟ یقینا ان میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں

خدا تعالی نے یہ کائنات تخلیق کی اور اس کو ایسا متنوع، مناسب وجود بخشا کہ سائنسدان جواس کو سمجھنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں وہ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ اتنا سب ترقیات کے باوجود انسان ابھی تک اس کائنات کے ایک فیصد حصہ کو بھی سمجھ نہیں سکا

نیوٹن نے اپنی تمام سائنسی تحقیقات کے باوجود خود کوعلم کے سمندر کے  کنارے پر موجود کنکروں سےکھیلنے  والے ایک بچے سے تشبیہہ دی

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بظاہر معمولی نظر آنے والا یہ کیڑا مچھر کس قدر پیچیدہ ہے اور یہ کہنا کہ بغیر کسی خالق کے،یہ خود بخود سب کچھ سیکھ گیا اور ایک اندھے ارتقاء نے اسکو ایسا بنا دیا تو ان کی خدمت میں ایک اور نہایت ہی سادہ سی پہیلی حاضر ہے یہ انسان کے نروس سسٹم کی تصویر ہے 


Picture of Human Nervous System
 کیا کوئی خدا کا منکرذرا یہ تصویر دیکھ کرہمیں سمجھا سکتا ہے کہ انسانی جسم پر یہ جال جو کہ نروس سسٹم کے طور پر موجود ہے یہ کیسے خود بخود بغیر کسی خالق کے وجود میں آیا؟

اور یہ تو ایک پہیلی ہے ایسی کتنی ہی پہیلیاں اس زمین کی سطح پر اور سمندرکی گہرائیوں میں، کائنات کی  وسعتوں میں اور خلا کے اندھیروں میں  پوشیدہ، کسی اولی  الباب کی منتظر ہیں 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۱﴾ۚۙا

یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

________________________________________________           

حا شیہ

*1-Entropy        *2-Heat death  *3-snorkel     *4-anticlot     *5-apyrase    *6-local anesthesia

*************

دہریوں کے لیے چیلنج - حصہ سوم     

https://virkma.blogspot.com/2021/03/challenge-to-atheist-3.html

دہریوں کے لیے چیلنج - حصہ دوم

https://virkma.blogspot.com/2021/02/Challenge-to-Atheists.html


Sunday, January 10, 2021

کیا اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا؟ Islam-Religion of Peace


بسم اللہ الرحمن الرحیم


کیا اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا؟؟ 

اسلام_امن وآ شتی کا مذہب  

(آر-ایس-بھٹی)       

ہمارےمعاشرے کو مذہبی انتہا پسندوں نے تباہی کے کنارے پرلا ڈالا ہے- اس کے رد عمل نے ایک ایسےطبقے کو جنم دیا جو خود کو لبرل کہلوانا پسند کرتے ہیں- اور مذہبی شدت پسندوں کی جوابی کاروائی کے طور پر انھوں نے جہاں مذہبی اقلیتوں کے حق میں آوازاٹھائی وہاں پرمذاہب کے بانی انبیاء کی کردار کشی کرنا بھی اپنا حق سمجھ لیا- ایسی صورت میں جبکہ ایک متشدد طبقہ مذہب کی غلط تشریح کرکے معاشرے کا امن وسکون برباد کرنے کاسبب بن رہا ہے وہاں ساتھ ہی یہ لبرل انتہا پسند، انبیاء کی توہین کرکے معاشرے میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں سادہ لفظوں میں دونوں گروہ ہی دو انتہاوں کاشکار ہیں

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں

    انبیاء سے بغض بھی اے غافلو اچھا نہیں                 

دور تک ہٹ جاؤ اس سے ہے یہ شیروں کی کچھار                           

 معاشرے کے کسی مظلوم طبقہ کی حمایت کرکے کسی کویہ حق حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ خدا کے مرسلوں کی کردارکشی کرئے- بانی جماعت احمدیہ نے گزشتہ انبیاء کے عموما اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم پر اٹھائے گئے اعتراضات کا خصوصا تمام عمردفاع کیا اور خداکے فضل سے جماعت نے بھی ہمیشہ یہی طریق اختیار کیا- ایک بہت ہی پرانا اور گھساپٹا اعتراض جو اسلام پرکیاجاتا ہے اور جسے موجودہ حالات نےپھر سے تازہ کیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا

 یہ ایک نہایت ہی گھناونا، جھوٹا اور بے بنیاد الزام ہے جو اسلام پرلگایا جاتا ہے اگرچہ اسکا ہر پہلو سے جواب بھی دیا جاتا ہے لیکن چونکہ کتاب پڑھنا اورمنصفانہ اورغیرجانبدارانہ تحقیق کارواج قریباختم ہوگیا ہے اسلئے لوگ سنی سنائی باتوں کودہراتے رہتے ہیں اورپھرموجودہ حالات میں بہت سی جہادی تنظیمیں اسلام کانام استعمال کرکے دہشت گردی کا مرتکب ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے اورمزید ستم ظریفی یہ کہ بعض نام نہادعلماء جو خود شدت پسندی کارجحان رکھتے ہیں وہ خود بھی اس کا پرچار کرتے رہے ہیں

 جیسا کہ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں 

’’یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم 13 برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے....  لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی ۔۔۔ تو دلوں  سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا ۔۔۔ روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں۔ ۔۔۔ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کردیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے‘‘۔ 

(الجہاد فی الاسلام صفحہ١٦٦- ١٦٨    باب چہارم ادارہ ترجمان القرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور

(اس کتاب کااصل متن مضمون کے آخیر پر دیاگیا ہے) 

    انسان کا خود  کوعقل  کل سمجھنا اسے انبیا کی پیروی سے روکتا ہے- شیطان کا آدم کو سجدہ سے انکارتکبرکانتیجہ تھا اورہمیشہ ہی سے  انبیاء سے استہزاء تکبر کا نتیجہ رہا ہے اورانبیاء کے مخالفین کو یہی زعم رہا کہ اگر یہ شخص سچا ہوتا تو ہم ضرور اس کومان لیتے- آج بھی یہ قرآنی آیت  نبیوں کے مخالفین کی ترجمان ہے اوراسی طرح سچ ہے جیسے چودہ سو سال پہلےتھی اورہر دورمیں رہی ہے

فقال الملا الذین کفروا من قومہ ما نرک الا بشرا مثلنا وما نرک اتبعک الا الذین ھم

( اراذلنا بادی الرای وما نری لکم علینا من فضل م بل نظنکم کذبین( ھود 28

پس اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جنہوں نے کفر کیا کہ ہم تو تجھے محض اپنے جیسا ہی ایک بشر دیکھتے ہیں نیز ہم اس کے سوا تجھےکچھ نہیں دیکھتے کہ جن لوگوں نے تیری پیروی کی ہے وہ بادی النظر میں ہمارےذلیل ترین لوگ ہیں اور ہم اپنے اوپر تمہاری کوئی فضلیت نہیں سمجھتے بلکہ تمہیں جھوٹے گمان کرتے ہیں

 پھریہی تکبر ہی ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے پیعمبروں کی کردار کشی پر منتج ہوتا ہے اورمذہب کے انکار کی وجوہات مذہب پر اعتراضات      تراشنے کی صورت میں نکالتاہے-حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اسلام نے ہمیشہ اخوت،بھائی چارے کا درس دیا ہے اوردوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی صلح کی دعوت دی ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے 

        (یآھل الکتب تعالواالی کلمتہ سوآء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ-   (آل عمران 65

یعنی توکہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاو جوہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کےسوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے

یہ وہ آفاقی تعلیم ہے جواسلام کوایک عالمگیرمذہب بناتی ہے تما م مذاہب عالم کوایک خدا کے نام پرایک ہی معاشرے میں پر امن طریق سے رہنے کا لائحہ عمل دیتی ہے اور دوسرے کے عقاعد کو برداشت کرنے کا سبق دیتی ہےمعاشرے میں دوسرے کے عقائد کو برداشت کرنے کی تعلیم اسلام نے اس دور میں دی جب لوگ اپنی ہی بیٹیوں کو قتل کر دیا کرتے تھے 

 معترضین کو یہ بات تو دکھائی دیتی دہے کہ قرآن  نےقتال کی اجازت دی ہے لیکن اس بات سے نظریں چرا لیتے ہیں کہ کن حالات میں یہ اجازت دی گئی آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں قریش نے انتہائی مظالم مسلمانوں پر کئے، خدائے واحد کی عبادت سےمسلمانوں کو جبرا روکا، ان کو نہایت بے دردانہ طور پر ماراپیٹا جاتا، بعض کو بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کا بائیکاٹ کرکے ہلا ک کرنے کی کوشش کی گئی، حتی کہ ان مظالم سے تنگ آ کر بہت سے مسلمان مکہ سے حبشہ ہجرت کرگئے لیکن ان کفار مکہ نے وہاں بھی ان کا پیچھاکیا اور واپس لانے کی تدابیر کیں، واپس لانے میں ناکامی کا سامنا ہوا توغیض وغضب مزید بڑھ گیا، آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتل کا منصوبہ بنایا جس میں ناکام ہوئے پھر پیچھا کیا، لیکن خدا کی تائید و نصرت آ نحضور صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور کفارمکہ غار ثور کےمنہ تک پہنچ کر بھی ناکام لوٹے

ان تمام مظالم کاکسی بھی اور قوم کو سامنا ہوتا تو وہ اس سے بہت پہلے اعلان جنگ کرچکی ہوتی 

پھر ان سب حالات و واقعات کے بعد، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما گئے تو قریش کو کیا ضرورت تھی کہ مدینہ پر حملہ کرتے۔ جب ظالموں نے مدینہ میں بھی آ رام سے نہ رہنے دیا تو پھر خدا نے محض اپنےدفاع کےلئے تلوار اٹھانے کی اجازت دی۔ اس پر بھی یہ کہنا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا محض حقائق سے مجرمانہ غفلت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ تین سو تیرہ افراد جن کے پاس نہ مناسب تلواریں تھیں نہ ڈھالیں تھیں جو محض خدا کے فرمان پرایک مسلح لشکر کے سامنے کھڑے تھے تعصب کے بغیرظاہری نظر سے دیکھا جائے توآسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ خودکشی کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن یہ کہنا کہ تلوار کے ذریعے اسلام پھیلانے کے لئے کھڑے تھے ایک نہایت ہی احمقانہ تبصرے کے سوا کچھ نہیں۔ 

اوریہ تمام جنگیں جوابی کارروائیاں تھیں نہ کہ مکہ پر حملہ۔ کیونکہ ہر بارکفار مکہ حملہ  کرنےمدینہ کی طرف آ ئے 

 بدر میں قریبا ساڑھے تین سو کلومیٹر کا فیصلہ طے کیا جبکہ مسلمانوں نے اس سے آ دھا فاصلہ بھی طے نہیں کیا اوراحد کا میدان تو مدینہ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جبکہ جنگ خندق تو ہوئی ہی مدینہ کے اندر رہ کر تھی۔ 

سورہ الحج (٤٠) میں اللہ تعالی نے جہاد کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا

اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیر

ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا( قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پرظلم کئے گئے-اور یقینا اللہ انکی مدد پر قدرت رکھتا ہے 

191 قرآن میں اللہ تعالی جہاد کی اجازت دیتے ہوئے جہاں یہ  فرماتا ہے کہ البقرہ 

قاتلو ا فی سبیل اللہ الذین یقتلونکم

یعنی تم اللہ کے راستہ میں ان لوگوں سےجنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں

وہاں ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے ذریعے کسی کے مذہب کو جبرا تبدیل نہیں کرنا یعنی یہ  دفاعی قتال کی اجازت دی جارہی تھی اور کہیں بھی اس کو اسلام  پھیلانےکا ذریعہ قرار نہیں دیا اس لئے ساتھ ہی فرمایا کہ

 لآ اکراہ فی الدین                سورہ البقرہ 257

دین میں کوئی جبر نہیں

 پھر سورہ البقرہ آیت 194 میں آتاہے

و قتلو ھم حتی لاتکون فتنتہ و یکون الدین للہ

یعنی  اوران سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اختیار کرنا اللہ ہی کی خاطر ہو جائے

 ان دونوں آیات میں اللہ تعالی فرماتا ہے اے مسلمانو تمہیں قتال کی اجازت تو دی گئی ہے کیونکہ تم پر قتال مسلط کیا گیا ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تم قتال کے ذریعہ لوگوں کا دین تبدیل کرنے کی کوشش کرو بلکہ قتال کرو یہاں تک کہ دین کا اختیار کرنا محض خداکی خاطر ہو جائےاور کسی کو کوئی بھی دین اختیار کرنے میں کسی قسم کا خطرہ نہ رہے اوریہاں پر خداتعالی نے اسلام کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ مذہب کے نام پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کا ذکر فرمایا ہے

 قتال کی جن حالات میں فرضیت ہوئی سورہ البقرہ (217) ہی میں ان حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے

کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم

تم پرقتال فرض کردیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناپسند تھا

اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ جن حالات مں قتال فرض کیا گیا وہ مسلمانوں کا انتہائی تنگی کا زمانہ تھا اور دشمن کے مقا بلے کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ تقریبا نہ ہونے کے برابر تھے اور یہ خیال کرلینا کہ قتال کی اجازت ملنے پر مسلمانوں نے گویا خوشی کے شادیانے بجائے ہوں گےبالکل غلط اوربعید از حقائق ہے

اسلام  کی اشاعت امن کے دنوں میں ہوئی یا ایام جنگ میں؟؟؟

غزوہ بدر دوہجری میں ہوا جس میں تین سو افراد شامل ہوئے، غزوہ احد میں سات سو اورغزوہ خندق جو پانچ ہجری میں ہوا اس میں تین ہزار مسلمان شامل ہوئے (یہ تعداد اسلئے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ غزوہ مدینہ کے اندر رہ کر ہوا)-اس کے اگلے سال صلح حدیبیہ ہوئی جس میں ڈیڑھ ہزار افراد شامل ہوئے اس کے بعد قریباپونے دوسال امن کے آتے ہیں جس میں اسلام اس تیزی سے پھیلا کہ فتح مکہ کے موقع پردس ہزار مسلمان آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اس سے بھی یہ الزام غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ جس تیزی کے ساتھ اسلام ان امن کے پونے دو سالوں میں پھیلا اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی

پھر جب معترضین اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تلوار کی ذریعے پھیلا تو انہیں چاہیےکہ  اس کے ثبوت کے طور پرایک فہرست بھی ایسے ناموں کی پیش کریں کہ جن لوگوں کوزبردستی تلوار کے ذریعے  مسلمان بنایا گیا ہو۔

 بلکہ اس کے برعکس ایک بہت ہی مشہور واقعہ حضرت اسامہ بن زید کا ہم تاریخ میں سے پیش کر سکتےہیں کہ جب انھوں نے ایک شخص پر لڑائی میں غلبہ پا لیا اور اس کو قتل کرنے لگے تواس نے لاالہ الا اللہ کہہ دیا لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر بھی اسے مار دیا- اگر رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صحا بہ کرام کو یہ ہدایت تھی کہ لوگوں کو تلوار سے ڈرا کر مسلمان بناؤ تو پھر حضرت اسامہ کو چاہیے تھا کہ اس کو معاف کر دیتے لیکن ظاہر ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کی طرف  سے ایسی کوئی ہدایت مسلمانوں کونہیں تھی
 ( مسلم کتاب الایمان)                       
اگر اسلام مذہب کی جبری اشاعت کی تعلیم دیتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ  جبر کا ایسا کوئی بھی واقعہ فتح مکہ کہ موقع پر دکھائی نہیں دیتا جبکہ لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا اس سے اچھا موقع نہ ملتا

آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کے دور میں دشمنوں نے تلوار کے ذریعے خدا کا پیغام روکنے کی کوشش کی اور خدا نے انھیں دفاع میں تلواراٹھانے کی اجازت دی- جبکہ آج اسلام کے مخالفین قلم کے ذریعے اسلام پر حملے کررہے ہیں اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں اسلئے اس دور کے  امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے مخالفین        کے ساتھ قلمی جہاد کیا اور جماعت احمدیہ بھی اس تقلید میں قلمی جہاد میں مصروف ہے 

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام اپنے وطن کےدفاع سے غافل کرتی ہے بلکہ پاکستان کی دفاعی تاریخ کبھی بھی احمدی سپاہیوں اور سپاہ سالاروں کے معرکے بیان کئے بغیرمکمل نہیں ہوسکتی -1948 کی جنگ کے موقع پر جماعت احمدیہ نے فرقان فورس بنا کر ملک کے دفاع میں اپنا حصہ ڈالا تھا  اسی طرح احمدی فوجیوں ائیرمارشل ظفر چوہدری، لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی، لیفٹیننٹ جنرل اخترحسین ملک، میجرجنرل افتخار جنجوعہ، کے کارنامے تاریخ  سنہری حروف میں یاد رکھے ہوئے ہے 

یاد رکھیں ! ایک امام کے اشارے پر اٹھنے اور بیٹھنے والوں، اور ایک امام کی قیادت میں صف آرا جماعت کے بارے میں  کبھی غلط اندازہ مت لگائیے- اگرکبھی ایسی ضروت پڑی توہراحمدی سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا انشااللہ

    کبھی یہ بھول نہ جانا یہ بے غرض سے لوگ                      

جوحق کی راہ میں گردن کٹا بھی سکتے ہیں                                 

امام وقت کے ابرو کے اک اشارے پر                       

تمہارے زعم کے پرزے اڑا بھی سکتے ہیں                                 


____________________________