Friday, March 19, 2021

عورتوں کے حقوق Rights of woman

عورتوں کے حقوق     

آر-ایس-بھٹی
عورتوں کے حقوق کے بارے میں مذاہب کی تعلیمات کا آپس میں موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتاکیونکہ جو حقوق اسلام عورت کو دے رہا ہے، اس کے مقابلے میں دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں عورتوں کے حقوق کا ذکر نہ ہونے کے برابر  ہے- یہی وجہ ہے کہ عام طور پر لوگ اسلام کے  عورتوں کو دیئے گئے حقوق پر اعتراض تو کرتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں کسی دوسرے مذہب میں دیے گئے عورتوں کے حقوق کا ذکر نہیں کرتے
 آج سے تقریبا دو سو سال سے کچھ کم عرصہ گزرا ہے جب انگلستان میں عورتوں کے حقوق کی تحریکات بہت زور سے اٹھیں  اور عورتوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کیے ، گرفتاریاں دیں  - اور تب  جا کر  وہ حقوق عورتوں کو ملے  جن کو آج مغربی اقوام  بہت فخر  سے اسلام  کے مقابلے میں پیش کرتی ہیں
 جبکہ اسلام نے تقریبا  ایک ہزار پانچ سو  سال پہلے  بغیر کسی انقلابی تحریک, بغیر کسی احتجاجی مظاہرے اور  بغیر کسی زبانی  مطالبے کے عورتوں کو بنیادی انسانی حقوق دیے-  اور ان دونوں موازنوں  میں غالبا سب سے اہم بات یہی ہے  کہ یہ سب حقوق  خوشی سے دیئے گئے اور اس  تمام   منظر نامے میں مذہب اسلام کی طرف سے محبت اور احترام کا  پہلو غالب ہے ،جو انسان کی زندگی میں یقینا  سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے 
ہم دلائل سے مقدمات تو جیت سکتے ہیں لیکن دلوں کو فتح  نہیں کر سکتے-  زبردستی چھین کرلیے گئے حقوق(جن میں کمی یا زیادتی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ) معاشرے کے امن و سکون کی ضمانت نہیں بن سکتے - غالبا یہی وجہ ہے کہ یہ حقوق کی جنگ  جو کہ بظاہر خواتین نے  کسی حد تک جیت لی  ،لیکن پھر بھی معاشرے سے عورتوں کا استحصال ختم نہ ہو سکا-ممکن ہےکہ چھین کر لیے گئے ان حقوق نے، مغربی معاشرے کےمردوں میں  گھریلو ذمہ داریوں سے انحراف کے رویہ کو فروغ دیا ہو - شائید  انھی حقوق  نے  پھر  معاشرے میں غیر شادی شدہ تعلقات کی حوصلہ افزائی کر کےمعا شرے میں خاندانی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہوں  اور  بے سکونی،  بے راہ روی اور بے اعتمادی کی فضا کو فروغ دیا ہو  
انگلستان میں  1882 ء تک  شادی کے بعد عورت کی ذاتی جائیداد  اس کے خاوند کومنتقل  ہو جاتی تھی - یہاں تک کہ اگر کسی خاتون  مصنف کے پاس کاپی رائٹ کا اختیار  ہوتا  تو وہ  بھی شادی کے بعد اس  کے خاوند کو منتقل ہوجاتا تھا -کوئی بھی شادی شدہ عورت اپنی کوئی وصیت  یا ڈرافٹ اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر  نہیں لکھ سکتی تھی  - جائیداد  میں عورتوں کو حصہ صرف اس صورت میں  ملتا اگر کوئی بھی مرد وارث موجود نہ ہوتاتھا 
 اسلام نے عورت کی اپنی کمائی کو اس کا ذاتی حق  قرار دیا ہے  سورۃ النساء آیت نمبر 33   میں اللہ تعالی فرماتا ہے
ترجمہ: مردوں کے لیےاس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں
وراثت میں حصہ
اسلام نے عورت کو  والدین کی جائیداد میں حصہ دیا ، اسی طرح خاوند  کی جائیداد میں بھی حصہ دیا گیا ہے ، اور  اس کے علاوہ شادی کے موقع پر خاوند پر حق مہر بھی فرض کیا ،جو  خاوند کی حیثیت کے مطابق رکھنے کا کہاگیا ہے، اور اسے خوشی سے ادا کرنے کا  ارشاد فرمایا ہے  سورۃ النساء آیت نمبر5  میں آتا ہے
ترجمہ:اور عورتوں کو ان کے مہر دلی خوشی سے ادا کرو

قرآن میں اللہ تعا لی نے ورثہ کی تقسیم کے متعلق کچھ بنیادی اصول بیان فرمائے ہیں سورہ النساء آیت نمبر 12 میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہیں اور اس آیت میں آتاہےکہ
 
ترجمہ: اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے مرد کے لئےدو عورتوں کے حصہ کے برابر( حصہ )ہے

اس آیت میں اللہ تعالی نے بیٹی کے لئیے والدین کی جائیداد میں بیٹے کے مقابل پر آدھا حصہ مقرر کیا ہے   اور یہ وہ  اسلامی تعلیم ہے جس پر عموما اسلام کے مخالفین بہت اعتراض کرتے ہیں اور  یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسی بیٹی کو خاوند کی جائیداد میں سے بھی حصہ دیا گیا ہے اور پھر خاوند کی حیثیت کے مطابق حق مہر بھی دیا گیا ہے- اس کے علاوہ بھی اس میں بہت سے حکمتیں ہیں  جیسے کہ عورتوں پر چونکہ معا شی ذمہ داریوں کا  بوجھ نہیں ڈالا گیا اور گھر کے اخراجات مرد کی ذمہ داری قرار دیئے گئے اس لئیے بھی مرد کا حصہ زیادہ رکھا گیا ہے -لیکن ان سب باتوں کے باوجود، سب سے زیادہ حیرت ہمیں اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام پر یہ اعتراض ان لوگوں کی طرف سے کیا جارہا ہے جو بچوں کو والدین کی جائیداد میں سے حصہ دیتے ہی  نہیں ہیں اور میاں یا بیوی  میں سے کسی ایک کی وفات کی صورت میں تمام جائیداد  دوسرے کو منتقل ہوجاتی ہے اور بیٹا یا بیٹی کسی کو بھی حصہ نہیں دیا جاتا اور آج بھی انگلستان میں یہی قوانین ہیں سوائے اس کے کہ وہ جائیداد ایک خاص مقرر کردہ قیمت سے زیادہ کی ہو اس صورت میں بچوں کو جائیداد میں سے کچھ حصہ ملتا ہے
 آدھی گواہی
 ایک اور بڑا اعتراض جو اسلام پر کیا جاتا ہے وہ عورت کی آدھی گواہی سے متعلق ہے اور یہ اعتراض  سورۃ البقرہ آیت نمبر 283 سے اخذ کیا گیا ہے -یہ آیت لین دین سے متعلق معاملات کے بارے میں ہے اور  ایک تفصیلی آیت ہے جس میں درج ذیل الفاظ آئے ہیں 


ترجمہ:اور اگر دومرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں( ایسے) گواہوں  میں سے جن پر تم راضی ہو- (یہ) اس لئے( ہے) کہ ان دو عورتوںمیں سے اگر ایک بھول جا ئےتو دوسری اسے یاد کروا دے  

اس آیت کریمہ میں درج ان الفا ظ  یعنی،   اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں،سےیہ مطلب نکالا گیا  ہے کہ گویا اسلام میں یہ ضروری ہے کہ ہر معاملے میں ایک مرد کے مقا بلے میں دو عورتوں کی گواہی ہوگی اور اگر   دو مردوں کی گواہی  ہو تو اس کےمقا بلے میں چار عورتوں کی  گواہی ہوگی-یہ بات  قطعا غلط ہے- اور  پورے قرآن کریم میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں بلکہ اس کے برعکس دوسری جگہ سورہ النور میں جہاں گواہی کا ذکر ہے  وہاں مرد اور عورت دونوں کو چار، چار  بار اللہ کی قسم کھا کر گواہی کا حکم ہوا ہے  اور یہ نہیں کہا گیا کہ مرد چار مرتبہ گواہی دے اور عورت آٹھ مرتبہ گواہی دے
 جہاں تک زیر بحث آیت کاتعلق ہے اس کے سیاق و سباق پر  غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ ارشاد خاص طور پر  مالی معاملات کے متعلق  فرمایا گیا ہے  جبکہ دوسری گواہیوں  میں اس کا کہیں  ذکر نہیں  ہے -مثال کے طور پر  اگر  کوئی واقعہ  قتل ہوجائے  اور اس کی گواہ صرف ایک ہی  عورت ہے تو  اس کی گواہی پوری کرنے کے  لئے دوسری عورت کو ڈھونڈنے کا کہیں اشارتا  بھی ذکر نہیں  ہے-لیکن  جہاں تک  مالی معاملات کی بات ہے، روزمرہ کا دستور بھی یہی ہے، کہ اگر عورت  تنہا  یہ کام کر رہی ہو،  تو  اس کے دھوکا کھا نے کا امکان زیادہ ہوتا  ہے - یہاں ہم مالی معاملات کی  ماہر خواتین کی بات نہیں کررہے اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں  کی بات ہو رہی ہے بلکہ ایک عام گھریلو  خاتون کے بارے میں  یہ کہا گیا ہے ۔۔اور یہ حقیقت بھی ہے ۔ ضمنی طور پر بتاتے چلیں کہ ریاضی کا نوبیل پرائز (فیلڈ میڈل) اب تک صرف ایک خاتون جیت سکی ہیں
پھر اسی آیت ہی پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے  کہ گواہی  ایک  ہی عورت کی ہے لیکن اگر وہ بھول جائے  تو دوسری کو ساتھ یاد کروانے کے  لیے رکھا گیا  ہے  اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ عورتوں کو مالی  معاملات میں غلطی لگنے کا   امکان زیادہ ہے
طلاق کا حق
 انگلستان میں طلاق تقریبا ناممکن امر ہوا کرتا تھا، اسکے متبادل کے طور پر بیوی کو بیچ دینے کا رواج تھا- 1857 ءمیں پہلی مرتبہ (چرچ کی انتہا ئی مخالفت برداشت کرنے کے بعد) پہلی مرتبہ طلاق عام خواتین کی پہنچ میں ممکن ہوسکی-  اس سے قبل طلاق  ایک قانونی مسئلہ نہیں تھا اور چرچ ہی ان معاملات کو دیکھتا تھا-جبکہ  اسلام نے عورتوں کو طلاق کا اور خلع کا حق پندرہ سوسال قبل دیا تھا لیکن ایک فرق کے ساتھ ، یعنی  اس معا ملے میں بھی احسان  کا سلو ک نہیں بھولنا 
 ترجمہ:  طلاق دو مرتبہ ہے۔ پس اس کے بعد یا تو معروف طریق پر روک رکھنا ہے یا احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہے 
 البقرہ 230 
 طلاق کی صورت  میں  اگر بچہ دو سال کی عمر سے چھوٹا ہے تو  نہ صرف  بچے کے  اخراجات  بلکہ اس بچہ کی والدہ کے اخراجات کی ذمہ داری  بھی دو سال تک بچے کے والد پر  ڈالی گی - اور  ماں  اور باپ دونوں کے جذبات کاخیال رکھنے کا ارشاد فرمایا گیا- اور جب بچے کی بات ہوئی ہے تو ماں اور باپ دونوں کے جذبات کا خیال رکھنے کا ارشاد فرمایا گیا ہے البقرہ- 234
 اعمال کی جزا 
اسلام نہ  صرف ظاہری  ، مادی حقوق  میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے  بلکہ اعمال کی جزا دینے میں مرد اور عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتا چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 196 میں اللہ تعالی فرماتا ہے 
ترجمہ: پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کرلی اور کہا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہر گز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت
اور  اسی طرح سورہ النحل آیت نمبر ٩٨ میں فرماتا ہے
ترجمہ: مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجا لائے بشرطیکہ وہ مومن ہواسے ہم یقیناایک حیات طیبہ کی صورت    میں زندہ کردیں گے
اسلام میں عورتوں اور مردوں کو دیئے گئے حقوق  اور ذمہ داریوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے - دونوں پر ان کی صلاحیتوں کے متعلق بوجھ ڈالے گئے ہیں- وہ لوگ جو اسلام کی تعلیمات  پر  اعتراض کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں   اور ان تعلیمات کو عورتوں پر پابندی گردانتے ہیں ،وہ  یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے  عورتوں پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالا اور مردوں  پرعورتوں اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ڈالی ہے- اس کی وجہ یہی ہے کہ خدا تعالی نے عورتوں پر بچوں کی پیدائش اور پرورش کی بہت اہم ذمہ داریاں ڈالی ہیں اگر خواتین معاشی بوجھ ڈھونے کی دوڑ میں شامل ہوجائیں تو مستقبل کی نسل کی صحت، تربیت، تعلیم، اخلاقیات سب داؤ پر لگ جاتے ہیں- بچوں کی تربیت اور پرورش کے ساتھ عورتوں پر مالی ذمہ داری کابوجھ بھی ڈالنا سراسر عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے اور ستم ظریفی یہ کہ جدید   دنیا میں یہ سب کچھ عورتوں کے حقوق ، برابری اور مساوات کے نام پر کیا جارہاہے  اصل بات یہی ہے کہ عورتوں کی آزادی کے نام  پر معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کے لیے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں اور نہایت ہوشیاری کے ساتھ ترقی پسندیت، جدت پسندی،لبرل ازم اورایسے خوبصورت نعروں اور  لبادوں میں لپیٹ کر یہ مال بیچاجاتا ہے- جبکہ جو نظام خدا نے انسان کے لیے بنایا ہے وہ انسان کی فطرت اور سہولت کے عین مطابق ہے  
*************
حوالہ جات










0 comments:

Post a Comment