آر۔ ایس۔ بھٹی پاکستان میں رمضان کے ہنگامے رمضان کی آمد سے پہلے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو احمدیوں پر مشق ستم کے لیے ہمارے ہاں کوئی خاص موسم نہیں، روز مرہ کی بنیاد پر جب ،جہاں، جیسے کی سہولت کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں یہ ستم جاری رہتے ہیں۔رمضان سے چند روز قبل پولیس نے پاکستان میں جماعت احمدیہ کی دو مساجد پر، انتہا پسند ملا کی زیر قیادت دھاوا بولا اور ان مساجد کے مینار اور محراب توڑے اور ان پر لکھاخدا کا نام مٹایا
پہلا واقعہ ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں گرمولا ورکاں میں پیش آیا یہ وسط مارچ کا ذکر ہے جب پولیس انتہا پسند ملا کی زیر قیادت ایک جلوس کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئی اور مینار توڑے اور مسجد کی پیشانی پر سے کلمہ طیبہ توڑنے کا فریضہ اپنے ہاتھ سے سرانجام دیا
دوسرا واقعہ ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں چک 604 کا ہے 12/ اپریل کو پولیس نے ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گاؤں کی ایک چھوٹی سی مسجد پر حملہ کیا اس کی محراب اور مینار توڑے اور اس کے بعد پانچ احمدیوں کو گرفتار کرکے ساتھ لے گئی اور ان پر محراب اور مینار بنانے کے جرم میں مقدمہ درج کیا اور خبروں کے مطابق یہ کاروائی علی الصبح دو بجے سر انجام دی گئی۔ خدا معلوم کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان کی پولیس فرض شناش نہیں یہ تو راتوں کو بھی اپنے فرائض سے غا فل نہیں سوتے۔خاص طور پر اگر یہ کام احمدیوں کی مساجد میں گھس کر خدا کا نام مٹانے کا ہو۔
دوسرے واقعے کو گزرے غالبا دو دن ہی ہوئے ہوں گے کہ پنجاب پولیس جو علماء کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے احمدی مساجد کونقصان پہنچانے کے ناپاک کام میں مصروف تھی ، دو دن کے بعد وہی پنجاب پولیس آگے آگے تھی اور وہی ملا اس کے پیچھے پیچھے ۔ اور اگلے دو دن تک اسلام آباد اور ملک کے طول و عرض میں یہ ہنگامے جاری رہے۔ اسی طرح خدا ایک ظالم پر دوسرے ظالم کو مسلط کر دیا کرتا ہے۔ خدا کو وہ جگہ بہت عزیز ہوتی ہے جہاں اس کا نام بلند کیا جاتا ہو۔ سورہ البقرہ میں آتا ہے
پاکستان میں احمدیوں کو روزانہ کی بنیاد پر ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ ہمسائے اپنے احمدی ہمسائے کو تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، سکول میں طلباء، احمدی طلباء سے بائیکاٹ کیے رکھتے ہیں، احمدی اساتذہ کو اپنے شاگردوں کی طرف سے خطرہ رہتا ہے ۔ الغرض معاشرے کے کسی بھی شعبہ کو دیکھ لیں جیسے ہی آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کو آپ کے احمدی ہونے کا علم ہوتا ان کے رویئے تبدیل ہو جاتے ہیں اور وہ احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کے طریقے ڈھونڈنے لگتے ہیں
اب تو پاکستان میں یہ حال ہو چکا ہے کہ جب بھی کوئی سیاستدان اپنی اوپر بنے ہوئے کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے مشکل میں ہوتا ہے تو وہ مذہبی کارڈ استعمال کرتا ہے اور یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ مذہبی کارڈ صرف اور صرف احمدیوں کے خلاف ہی کھیلا جاتا ہے۔
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
جس دن یہ مظفرگڑھ کا واقعہ ہوا اسی دن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب جو جرمنی کے دورے پر تھے ، ان سے کسی جرمن صحافی نے احمدیوں سے پاکستان میں ہونے والے ناروا سلوک کے بارے سوال کیا۔ صحافی نے اپناسوال پاکستان کے احمدیوں سے شروع کیا پھر عیسائیوں اور پھر عمومی طور پر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا ذکر کیا
لیکن اسے بھی محض اتفاق سمجھ لیں کہ جواب دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی صرف احمدیوں کا لفظ ہی زبان پر لانا بھولے رہے۔جس ملک کے وزیر خارجہ احمدیہ جماعت کا نام بھی زبان پر لانے کی جرات نہیں کرسکتے وہ احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا کیا خاک تحفظ کریں گے۔
اس کے بعد بھی وہ فرماتے ہیں کہ" یہ سب پراپیگنڈہ ہے " - جناب ! اگر یہ پروپیگنڈا ہے تو جو کچھ دو دن تک پاکستان میں ناموس رسالت کے نام پر ہوا یقینا وہ بھی پروپیگنڈا ہی ہوگا۔
https://youtu.be/WDrVS2JF9bY
آپ نے جرمن صحافی کو ملک میں قانون کی حکمرانی دکھانے کے لئیے انھیں پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے تو براہ کرم آپ انھیں جلدی بلا لیں تاکہ وہ امن و امان کی صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں- انھیں آزادانہ طور پر, بغیر ان کا روٹ پلان طے کئے اور بغیر سیکیورٹی کے پاکستانی شہروں میں گھومنے کی اجازت دیں تاکہ آپ کے پروپیگنڈا والے بیان پر انھیں اچھے سے یقین آ سکے۔
لیکن یاد رکھیں! آپ اپنی شعلہ بیانیوں سے وقتی طور پر تو کسی صورتحال سے بچ کر نکل سکتے۔ لیکن آخرکب تک؟ یہ ظالم حقائق بار بار آپ کے سامنے آتے رہیں گے اس لیے عارضی جنت کی بجائے مسائل کے مستقل حل کی تلاش ہی ایک اچھے سیاستدان کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے ، ورنہ مسائل کے یہ اژدھے اس بد بودار نظام کو نگل جائیں گے جبکہ حقائق اور تاریخ کو مسخ کر کے نہ آپ کو پچھلے ستر سالوں میں کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی آئندہ کچھ حاصل ہوگا۔
Because history revives itself
************
0 comments:
Post a Comment