یہ خاک وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
(آر۔ ایس۔ بھٹی)
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ پاکستان میں موجود اٹھانوے فیصد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کس قدر نازک ہیں نہ صرف نازک ہیں بلکہ کچھ عجیب / متنازعہ قسم کے ہیں اور ان کی دل آزاری کچھ انوکھی طرز سے ہوتی ہےمثلا
کسی احمدی عبادت گاہ پر موجود مینار صرف اس لئیے توڑ دیئے جاتے ہیں کہ مینار کی موجودگی سے اس عبادت گاہ کے مسجد ہونے کا گمان ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کو گوارا نہیں کہ ان کی دل آزاری ہوتی ہے
اور کسی مندر میں موجود مورتیوں کو کس لئیے توڑا جاتا ہے ؟ شائید اس لیئے کہ یہ سب اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا احمدیوں کی عبادت کو غیراسلامی بنانا اور غیر مسلموں کی عبادت گاہ کو اسلامی طرز پر ڈھالنا، دونوں مقامات پر مسلمانوں کی دل آزاری کی وجوہات بالکل ایک دوسرے کے برعکس کیوں ہیں؟ ۔۔۔
اگر ایک احمدی کلمہ پڑھے تو دوسرے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور اس پر مقدمہ قائم کیا جاتا ہے
لیکن ایک ہندو کو تھپڑ مار مار کے زبردستی اللہ اکبر کہلوایا جاتا ہے ۔۔۔۔اور اس سے مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہوتی ہے
احمدی کے کلمہ پڑھنے سے دل آزاری کیوں ہوتی ہے اور غیر مسلم سے اللہ اکبر کہلوانے سے کیوں نہیں ہوتی؟
یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب ابھی تک منظر عام پر تو نہیں آئے لیکن گمان ہے کہ پاکستان کے مذہبی علما اپنے کسی مدرسے کی لیبارٹری میں ان کے جواب تیار کروا رہے ہوں ؟ ۔۔۔
لیکن یہ مذہب کے ٹھیکیدار ایک بات تو مان گئے ہوں گے کہ یہ مذہبی اقلیتوں پر جتنا بھی ظلم کریں نہ تو یہ ان کا مذہب چھین سکے نہ ہی وطن کی محبت ۔
یہ خاک وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے
اور پیارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان "حب الوطن من الایمان" ۔ پر ہم کاربند ہیں، اور رہیں گے انشاءاللہ
مذہبی منافرت ہمارے ماحول میں پائی جانیوالے تناو کی واحد وجہ نہیں ہےبچوں کے بارے میں جرائم نئی نئی شکلیں بدل کر سامنے آتے ہیں جن کو ضبط تحریر میں لانے کے لئیے بھی حوصلہ چاہیئے
صنف نازک کے خلاف ہونے والے مظالم کی نوعیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ہم نے دانستہ طور پر یہاں خواتین کی بجائے صنف نازک کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ جانوروں کی صنف نازک بھی اب انسانوں کی سفاکی سے محفوظ نہیں اور قبروں میں دفن مردے تو زندہ انسانوں کی بے رحمی کا نشانہ بننے سے نوحہ کناں ہیں
مقصد ملک میں ہونے والے جرائم کو گنوانا نہیں کیوں کہ یہ کام تو بڑے بڑے عالمی ادارے کر رہے ہوتے ہیں دیکھنا تو صرف یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی سمت کیا ہے؟ ایک طرف مذہبی جنونیت بھی اپنی انتہاوں کو چھونا چاہ رہی ہے اور جنسی جنونیت بھی۔ یعنی دو بالکل متضاد چیزیں بیک وقت عمل پیرا ہیں۔ اگر حکومت کا موقف سنا جائے تو وہ بھی اتنا ہی مبہم اور دوہرا معیار لئیے ہوئے ہے جتنا عوام کا ۔ یعنی کبھی ریپ ہونے کی تمام ذمہ داری ریپ ہونیوالوں پر ڈالی جاتی ہے کبھی اس کے برعکس بیان آتا ہے۔ کبھی ہمسا یہ ملک کے مذہبی جنونی گروہ دشمن ہوا کرتا تھا اور اب انھیں محافظ کہا جاتاہیں۔ کبھی وہ قاتل تھے اور اب شہید ہیں۔
لیکن یہ اگست کا مہینہ ہے اور لکھنا تو تھا قائد اعظم کی اولوالعزم شخصیت پر، ان کے برصغیر کے مسلمانوں پر احسانات کے بارے میں، لیکن نظر بار بار قائد اعظم کے پاکستان کی حالت زار کی طرف لوٹ جاتی ہے
کہتے ہیں کہ جب کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اسے اس کے اسلاف سے بد ظن کر دینا چاہیئے۔ اور ہماری قوم اپنے محسن قائد کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور دو قومی نظریہ کوبھی۔ سوچنے کی بات ہے کیا دو قومی نظریہ قائد اعظم کا تخلیق کردہ تھا؟
یہ نظریہ تو سینکڑوں سالوں سے برصغیر کے مسلمانوں کا خواب تھا۔ جسے قائد نے عملی جامہ پہنایا۔ اگر برطانوی تقسیم کاروں نے مسلمانوں کی آبادی کے مطابق انھیں خطہ زمین نہیں دیا اور تقسیم کے منصوبے میں سقم رکھے گئے تو اس میں قائد اعظم تو قصور وار نہ تھے۔
لیکن قائد اعظم کی طرف سے وضاحتیں دینے کی بجائے ہمیں ان لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے جنھوں نے یا جن کے بڑوں نے اسوقت بھی قائد کی مخالفت کی اور پاکستان بننے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور آج بھی ان کی کردار کشی میں مصروف ہیں صرف ایک ہی مذہبی جماعت تھی جماعت احمدیہ جس نے پاکستان بنانے میں بحیثیت جماعت قائد کا ساتھ دیا
اگر برصغیر کے مسلمان یک جان ہوکر اس وقت قائد کا ساتھ دیتے تو تقسیم کے وقت کسی کو پاکستان کے حصہ میں ڈنڈی مارنے کی جرات نہ ہوتی اور سینکڑوں سالوں سے برصغیر کے مسلمانوں کے سینوں میں سلگتی الگ خطہ زمین کی خواہش عظیم الشان طریقہ سے پوری ہوتی لیکن افسوس مسلمان تب بھی بکھرے ہوئے تھے اور آج بھی
افتخار عارف کی نظم "قائد کے حضور" بار بار ذہن میں گونجتی ہے
بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد
کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد
تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی ترے کوچے کی فضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت کرتے
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد
ترے قدموں کو جو منزل کا نشاں جانتے تھے
بھول بیٹھے تیرے نقش کف پا تیرے بعد
مہرو مہتاب دو نیم ایک طرف خواب دو نیم
جو نہ ہونا تھا وہ سب ہو کے رہا تیرے بعد
**********************
0 comments:
Post a Comment