گلوبل وارمنگ- گلوبل وارنگ
کیا آپ جانتے ہیں کہ جولائی 1945ء سے لے کر آج تک دو ہزار سے زائد ایٹم بم ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں۔ جن میں سے ایک ہزار سے زائد امریکہ اور سات سو سے زائد بم روس ٹیسٹ کر چکا ہے۔
جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی سویلین آبادی کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہیروشیما پر گرائے گئے بم کا درجہ حرارت دھماکے کے (0.2) سیکنڈ کے دوران 7،700 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، جو اگلے چند سیکنڈ میں کم ہوکر3000 سے 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک آ گیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ پانی ایک سو ڈگری سینٹی گریڈ پر ابلتا ہے اور لوہا ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھل جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو اس بم دھماکے سے پیدا ہونے والی گرمی کی لہر(جو تابکاری شعاعیں پر مشتمل تھی) کی زد میں براہ راست آئے ہوں گے ان کا کیا حال ہوا ہوگا۔ زیا دہ تر انسانوں کی جلدیں اندرونی تہوں تک جل گئی تھیں۔ تقریبا اس سے ملتے جلتے تباہ کن اثرات ناگاساکی پر گرائے جا نیوالے ایٹم بم کے بھی تھے۔ ان دھماکوں میں کتنے افراد لقمہ اجل بنے اس کے مکمل اعداد و شما ر تو شائید مرتب نہ ہو سکے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق ان میں سے ہر ایک بم نے، اگلے چار ماہ کے دوران 140،000 کے قریب انسانوں کی جان لی۔ اس کے بعد، ان بموں کے تقلید میں، دنیا کے مختلف ممالک میں جو ایٹم بم تیار ہوئے وہ ان سے زیادہ مہلک تھے۔
ایک ایٹم بم کا وزن پچاس کلوگرام سے لے کرایک ہزار کلو گرام تک ہو سکتا ہے اوراسی لحاظ سے اس کے نقصانات کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دھماکے کے وقت ایک ایٹم بم کا درجہ حرارت 10 ملین ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر 100 ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک جا سکتاہے۔ جو کہ سورج کےمرکز کے درجہ حرارت سے 4 سے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ سورج کے مرکز کا درجہ حرارت 15 ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔
پھر یہ تجربات نہ صرف زمین پر کئے گئے بلکہ امریکہ اور روس جیسے ممالک نے
یہ تجربات زمین سے باہر کی فضا میں بھی کئےگویا کہ
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات میں جہاں تک انسان کی پہنچ ہوئی وہاں وہاں تابکاری پھیلانے کی کوششیں کی گئیں۔ بنی آدم کے تباہی پھیلانے کے اس جنون کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔
شا ئید کوئی کہے کہ اب اس طرح کے ٹیسٹ کرنے پر نہ صرف زمین بلکہ زمین سے باہر کی فضا میں بھی پابندی لگا دی گئی ہے، جی بالکل پابندی ہے- لیکن متواتر کئی دہا ئیوں سے دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں جو جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، جہاں خدا معلوم روزانہ کتنے بم دھماکے کئےجا رہے ہیں، جو بظاہر ایٹمی دھماکے تو نہیں ہیں، لیکن بہرحال روایتی بم دھماکے بھی گرمی کی شدت میں اضافہ کا باعث تو بنتےہیں ۔
افغانستان میں 2017ء میں امریکہ نے اب تک کے سب سے بڑے روایتی بم کا استعمال کیا تھا۔ اس بم کو 'تمام بموں کی ماں' کا نام دیا گیا ہے۔اس بم کے پھٹنے کے نتیجے میں بھی آگ کا ایک شعلہ نکلتا ہے جس کی وجہ سے بہت بلند درجہ حرارت پیداہوتا ہے اور گیس کی بڑی مقدار بنتی ہے
اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں چھ مقامات پر مختلف ممالک یا گروہ براہ راست ایک دوسرے سے برسر پیکا ر ہیں جہاں سالانہ شرع اموات دس ہزار سے زائد ہے۔ان میں افغانستان، یمن میکسیکو، میانمار، ایتھوپیا اور یوکرین جنگ شامل ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں مقامات پر نسبتا کم شدت کی جنگیں ہو رہی ہیں جن میں سالانہ شرع اموات دس ہزار سے کم ہے۔
پھر پچھلے صرف ایک ماہ کے دوران جس طرح کی تباہی کے مناظر اسرائیل- فلسطین جنگ پر دیکھنے کو مل رہے ہیں انسان یہ سوچنے پربھی مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا یہ واقعی روایتی بموں کا استعمال ہورہا ہے؟ کیا یہ تباہی عام ٹی۔این۔ ٹی بموں کی پھیلائی ہوئی ہے؟ اور کیا یہ انسانی جسم کسی تابکاری اثرات کے بغیر بکھر گئے ہیں ؟
اب ہم اس مضمون کےعنوان کی طرف آتے ہیں، جوکہ ترقی یا فتہ اقوام کا بہت ہی
پسندیدہ اور زیر بحث موضوع ہے، یعنی گلوبل وارمنگ۔گلوبل وارمنگ یعنی دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت، یہ غالبا ان اصلاحات میں سے ایک ہے جس کا اردو زبان میں ترجمہ موجود نہیں ہے
اگر آپ زمین پر دو ہزار سے زائد ایٹم بم محض تجرباتی بنیادوں پر کرچکے ہیں جن میں سے ہر ایک کا درجہ حرارت اگر 100 ملین نہیں، دس ملین نہیں صرف ایک ملین یا اس سے بھی آدھا ہے، اور متواتر دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں ہونیوالی جنگ میں بلا واسطہ یا بالواسطہ شامل ہیں، تو اس کے مقابلے پر گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے لئے کی جا نیوالی آپ کی کوششوں کی کیا حیثیث رہ جاتی ہے
کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا جس سے زمین پر موجود زندگی کی بہت سی اقسام کو خطرہ درپیش ہو سکتا ہے لیکن کیا آپ جا نتے ہیں کہ ایک ایٹمی دھماکے سے زندگی کی ہر قسم ختم ہو جاتی ہے
گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے لیے درخت لگائے جاتے ہیں لیکن کیا کو ئی درخت
ایک ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا مقابلہ کر سکتا ہے ؟
آج کل گلوبل وارمنگ کی زد میں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں بھی ہیں۔ ان گاڑیوں کی بہت حوصلہ شکنی کی جا رہی ہےاوران پر بھاری ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں۔ شہروں کے مصروف اوقات میں بھی ان پر اضافی جرمانے لگائے جاتے ہیں لیکن کیا یہ پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ایک ملین یا اس سے آدھے درجہ حرارت کی بھی ذمہ دار ہیں؟
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی بھی مسئلے کو اس کی بنیادی وجوہات کو درست کئے بغیر حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے معمولی یا وقتی فا ئدہ تو شائید ہو لیکن اس سے مسئلے کا تسلی بخش حل نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے( سورہ الصف2-3 )
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ۔کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں
اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آیات کی تشریح میں بیان فرماتے ہیں
تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اورعملی طاقت اس میں نہ ہو تو اثر پزیر نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت ثابت ہوتی ہے ۔ کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب ان کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ سورہ الصف۔آیت 2۔3، ص 393 )
اللہ تعالی بنی نوع انسان کو مسائل کے حل کے لئے درست سمت میں اقدامات کی توفیق بخشے، اور قول و فعل کے تضاد سے بچنے کی توفیق دے آمین
https://www.census.gov/history/pdf/fatman-littleboy-losalamosnatllab.pdf
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/books/NBK219184/#:~:text=During%20the%20period%20of%20peak,the%20center%20of%20the%20Sun.
https://hpmmuseum.jp/modules/exhibition/index.php?action=ItemView&item_id=59&lang=eng#:~:text=About%200.2%20seconds%20after%20the,temperature%20of%207%2C700%20degrees%20Celsius.
https://worldpopulationreview.com/country-rankings/countries-currently-at-war
https://revisesociology.com/2021/03/03/ongoing-wars-and-conflicts-in-the-world-today/?utm_content=cmp-true
https://www.pbs.org/newshour/nation/military-jan-june05-bombs_05-02
0 comments:
Post a Comment