ALLAH IS THE GREATEST

THERE IS NO GOD BUT ALLAH.

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

ALLAH HO AKBAR الله اکبر

ALLHA IS THE GREATEST.

ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL

LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE

Everthing is created by ALLAH

Nature is always perfect.

ALLAH Knows Everything

No one is powerful then "ALLAH"

LOVE FOR HUMANITY

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

Monday, December 11, 2023

Global warming

                                         گلوبل وارمنگ- گلوبل وارنگ            


  
کیا آپ جانتے ہیں کہ جولائی 1945ء سے لے کر آج تک دو ہزار سے زائد ایٹم بم ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں۔ جن میں سے ایک ہزار سے زائد امریکہ اور سات سو سے زائد بم  روس  ٹیسٹ کر چکا ہے۔

 جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی سویلین آبادی کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہیروشیما پر گرائے گئے بم کا درجہ حرارت دھماکے کے (0.2) سیکنڈ کے دوران 7،700 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، جو اگلے چند سیکنڈ میں کم ہوکر3000 سے 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک آ گیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ پانی ایک سو ڈگری سینٹی گریڈ پر ابلتا ہے اور لوہا ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھل جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو اس بم دھماکے سے پیدا ہونے والی گرمی کی لہر(جو تابکاری شعاعیں پر مشتمل تھی) کی زد میں براہ راست  آئے ہوں گے ان کا کیا حال ہوا ہوگا۔ زیا دہ تر انسانوں کی جلدیں اندرونی تہوں تک جل گئی تھیں۔ تقریبا اس سے ملتے جلتے تباہ کن اثرات ناگاساکی پر گرائے جا نیوالے ایٹم بم کے بھی تھے۔ ان دھماکوں میں کتنے افراد لقمہ اجل بنے اس کے مکمل اعداد و شما ر تو شائید مرتب نہ ہو سکے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق ان میں سے ہر ایک بم نے، اگلے چار ماہ کے دوران 140،000 کے قریب انسانوں کی جان لی۔ اس کے بعد، ان بموں کے تقلید میں، دنیا کے مختلف ممالک میں جو ایٹم بم تیار ہوئے وہ ان سے زیادہ مہلک تھے۔

 ایک ایٹم بم کا وزن پچاس کلوگرام سے لے کرایک ہزار کلو گرام تک ہو سکتا ہے اوراسی لحاظ سے اس کے نقصانات کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دھماکے کے وقت ایک ایٹم بم کا درجہ حرارت 10 ملین ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر 100 ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک جا سکتاہے۔ جو کہ سورج کےمرکز کے درجہ حرارت سے 4  سے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ سورج کے مرکز کا درجہ حرارت 15 ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔

پھر یہ تجربات نہ صرف زمین پر کئے گئے بلکہ امریکہ اور روس جیسے ممالک نے
 یہ تجربات زمین سے باہر کی فضا میں بھی کئےگویا کہ

 دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے                
         
خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات میں جہاں تک انسان کی پہنچ ہوئی وہاں وہاں تابکاری پھیلانے کی کوششیں کی گئیں۔ بنی آدم کے تباہی پھیلانے کے اس جنون کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔

 شا ئید کوئی کہے کہ اب اس طرح کے ٹیسٹ کرنے پر نہ صرف زمین بلکہ زمین سے باہر کی فضا میں بھی پابندی لگا دی گئی ہے، جی بالکل پابندی ہے- لیکن متواتر کئی دہا ئیوں سے دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں جو جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، جہاں خدا معلوم روزانہ کتنے بم دھماکے کئےجا رہے ہیں، جو بظاہر ایٹمی دھماکے تو نہیں ہیں، لیکن بہرحال روایتی بم دھماکے بھی گرمی کی شدت میں اضافہ کا باعث تو بنتےہیں ۔

افغانستان میں  2017ء میں امریکہ نے اب تک کے سب سے بڑے روایتی بم کا استعمال کیا تھا۔ اس بم کو 'تمام بموں کی ماں' کا نام دیا گیا ہے۔اس بم کے پھٹنے کے نتیجے میں بھی آگ کا ایک شعلہ نکلتا ہے جس کی وجہ سے بہت بلند درجہ حرارت پیداہوتا ہے اور گیس کی بڑی مقدار بنتی ہے

اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں چھ مقامات پر مختلف ممالک یا گروہ براہ راست ایک دوسرے سے برسر پیکا ر ہیں جہاں سالانہ شرع اموات دس ہزار سے زائد ہے۔ان میں افغانستان، یمن میکسیکو، میانمار، ایتھوپیا اور یوکرین جنگ شامل ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں مقامات پر نسبتا کم شدت کی جنگیں ہو رہی ہیں جن میں سالانہ شرع اموات دس ہزار سے کم ہے۔ 
 
 پھر پچھلے صرف ایک ماہ کے دوران جس طرح کی تباہی کے مناظر اسرائیل- فلسطین جنگ پر دیکھنے کو مل رہے ہیں انسان یہ سوچنے پربھی مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا یہ واقعی روایتی بموں کا استعمال ہورہا ہے؟ کیا یہ تباہی عام ٹی۔این۔ ٹی بموں کی پھیلائی ہوئی ہے؟ اور کیا یہ انسانی جسم کسی تابکاری اثرات کے بغیر بکھر گئے ہیں ؟

اب ہم اس مضمون کےعنوان کی طرف آتے ہیں، جوکہ ترقی یا فتہ اقوام کا بہت ہی
 پسندیدہ اور زیر بحث موضوع ہے، یعنی گلوبل وارمنگ۔گلوبل وارمنگ یعنی دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت، یہ غالبا ان اصلاحات میں سے ایک ہے جس کا اردو زبان میں ترجمہ موجود نہیں ہے
 
 اگر آپ زمین پر دو ہزار سے زائد ایٹم بم محض تجرباتی بنیادوں پر کرچکے ہیں جن میں سے ہر ایک کا درجہ حرارت اگر 100 ملین نہیں، دس ملین نہیں صرف ایک ملین یا اس سے بھی آدھا ہے، اور متواتر دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں ہونیوالی جنگ میں بلا واسطہ یا بالواسطہ شامل ہیں، تو اس کے مقابلے پر گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے لئے کی جا نیوالی آپ کی کوششوں کی کیا حیثیث رہ جاتی ہے

 کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا جس سے زمین پر موجود زندگی کی بہت سی اقسام کو خطرہ درپیش ہو سکتا ہے لیکن کیا آپ جا نتے ہیں کہ ایک ایٹمی دھماکے سے زندگی کی ہر قسم ختم ہو جاتی ہے 

گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے لیے درخت لگائے جاتے ہیں لیکن کیا کو ئی درخت
 ایک ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا مقابلہ کر سکتا ہے ؟

آج کل گلوبل وارمنگ  کی زد میں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں بھی ہیں۔ ان گاڑیوں کی بہت حوصلہ شکنی کی جا رہی ہےاوران پر بھاری ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں۔ شہروں کے مصروف اوقات میں بھی ان پر اضافی جرمانے لگائے جاتے ہیں لیکن کیا یہ پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ایک ملین یا اس سے آدھے درجہ حرارت  کی بھی ذمہ دار ہیں؟

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی بھی مسئلے کو اس کی بنیادی وجوہات کو درست کئے بغیر حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے معمولی یا وقتی فا ئدہ تو شائید ہو لیکن اس سے مسئلے کا تسلی بخش حل نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے( سورہ الصف2-3 )

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ۔کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں
اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آیات کی تشریح میں بیان فرماتے ہیں 

تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اورعملی طاقت اس میں نہ ہو تو اثر پزیر نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت ثابت ہوتی ہے ۔ کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب ان کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ سورہ الصف۔آیت 2۔3، ص 393 )

اللہ تعالی بنی نوع انسان کو مسائل کے حل کے لئے درست سمت میں اقدامات کی توفیق بخشے، اور قول و فعل کے تضاد سے بچنے کی توفیق دے آمین





https://www.census.gov/history/pdf/fatman-littleboy-losalamosnatllab.pdf
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/books/NBK219184/#:~:text=During%20the%20period%20of%20peak,the%20center%20of%20the%20Sun.
https://hpmmuseum.jp/modules/exhibition/index.php?action=ItemView&item_id=59&lang=eng#:~:text=About%200.2%20seconds%20after%20the,temperature%20of%207%2C700%20degrees%20Celsius.
https://worldpopulationreview.com/country-rankings/countries-currently-at-war
https://revisesociology.com/2021/03/03/ongoing-wars-and-conflicts-in-the-world-today/?utm_content=cmp-true
https://www.pbs.org/newshour/nation/military-jan-june05-bombs_05-02

Saturday, September 23, 2023

why quality education important for any country ?معیا ری تعلیم کسی قوم کے لیے کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر عطا ء الرحمن ایک وقت میں پاکستان کی وزارت تعلیم اور وزارت سائنس و ٹیکنالو جی میں رہے۔ انھوں نے اپنے دور میں اس قوم کو پڑھانے کی بہت کوششیں کیں لیکن تعلیم ہماری ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی  اور مخلص ایماندار لوگ کبھی ہماری ضرورت نہیں تھے۔ آخر اپنے سے پہلے مخلص ، ایماندار لوگوں کی تقلید میں استعفی دیا ، گھر گئے۔ یہ قریب ترین ماضی میں ہمارے ملک میں تعلیم کے سلسلے میں ہونیوالی مخلصانہ کوششوں میں غالبا آخری کوشش تھی۔ ھم نے تو بس خادم رضوی ، سعد رضوی ، اشرفی، اور دیگر نام نہاد مولاناوں پر ہی اکتفا کر لیا ہے۔ اگر ہم اپنے ہمسا ئے ملک کی 
  






طرف دیکھیں تو بخوبی جان سکتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنے لوگوں کو معیاری تعلیم فراہم کرئے تو کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ہمیں امریکی نائب صدر یا برطانوی وزیر اعظم کی مثال نہیں دینی کیونکہ یہ لوگ تو شائید کبھی انڈیا کے سسٹم میں نہیں رہے۔ ہم ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو انڈیا میں پیدا ہوئے اور اسی سسٹم سے نکل کر اپنے شعبے میں کمال تک پہنچے۔


اس وقت دنیا کی بہترین بزنس اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سی ای او کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو انڈیا ہی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ 

ستیا ندیلا () جو کہ اس وقت ما ئیکرو سافٹ کمپنی کے سی ای او ہیں ۔ ان کی جائے پیدائش حٰیدر آباد ہے۔ 

سندر پچھئی () اس وقت گوگل کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں ان کی۔    جا ئے پیدائش مادورائے انڈیاہے۔  

شانتانو نارائن () جو کی ایڈوبی کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں ان کی پیدائش حیدر آباد کی ہے 



اروند کرشنا () جو کی آئی بی ایم کے سی ای او ہیں ان کی پیدائش آندھرا پردیش کی ہے
 
کشمن ناراسمھن () جو سٹار بکس کے سی ای او ہیں ان کی جا 
ئے پیدائش پونے انڈیا کی ہے






اجے بانگا جن کی پیدائش پونے انڈیا کی ہے اس وقت ورلڈ بنک کے صدر ہیں 

گنیش مورتھی اس وقت مائیکرو چپ ٹیکنالوجی کے سی ای او ہیں 



راجیش سبرونیم جو کی فیڈکس کے مینجگ ڈائریکٹر ہیں ان کی جا ئے پیدائش  تھیرو ونیتھا پورم ، انڈیا کی ہے 

لینا نیئر یہ شنیل کی سی ای او ہیں ان کی جائے پیدائش کولھا پور انڈیا کی ہے

سنجے مھوترا جو کہ مائیکرون ٹیکنالوجی کی سی ای او ہیں ان کی پیدائش کانپور انڈیا کی ہے 
ریشما کیوکرامانی ان کی جا ئے پیدائش ممبئی ہے اور یہ ورٹیکس فا ما سیوٹیکل کی مینجنگ ڈائریکٹر ہیں 





یہ چند افراد اس طویل فہرست کا حصہ ہیں جو دنیا بھرمیں مضبوط پوزیشنز پر بیٹھے ہوئے ہیں اور جو بھارتی اوریجن ہیں۔ انسان دنیا میں جہاں کہیں بھی رہے ان کا رشتہ اپنی مٹی سے کبھی نہیں ٹوٹتا۔ جب بھی اسی کوئی اہم فیصلے کرنے ہوں وہ اپنے لوگوں اورملک  کے لیے دل میں ضرور نرم گوشہ رکھے گا اور ان کے مفاد کے لیے کام کرنے کی کوشش کرئے گا۔ اسی سے کسی ملک کا عالمی سطح پر بیانیہ مضبوط ہوجاتا ہے بلکہ دنیا ان کی بات کی سنتی اور اہمیت دیتی ہے

R.S. BHTTI









Saturday, July 22, 2023




 



سویڈن میں ایک خاتون نے جن کی شادی ٹوٹ چکی تھی بیٹا ان کے ساتھ رہ رہا تھا انہوں نے مجھے بتایا تھا ایک لمبا عرصہ پہلے کی بات ہے جب ہم 78ء میں سفر کر رہے تھے اپنی چھوٹی فیملی کے ساتھ تو وہ چونکہ کسی زمانے میں یونیورسٹی آف لندن میں پڑھا کرتی تھی ان کے اوپر اسلام کا بہت اثر تھا اور بعد میں انہوں نے مجھ سے کچھ عرصہ خط و کتابت بھی رکھی ان کا ایڈریس میرے پاس تھا چنانچہ سویڈن جب ہم پہنچے ہیں کہیں کوئی جگہ ٹھہرنے کی ملتی نہیں تھی سٹاک ہالم میں تمام ہوٹل بک تھے 100 فیصد ۔ اس لیے مجھے خیال ایا کہ میرے پاس پرانی نوٹ بک پڑی ہوئی ہے، بی بی سے کہا کہ میں دیکھیں شاید ابھی تک شاید اس ایڈریس پہ ہو تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے ٹرائی کرو بارش بھی ہو رہی تھی اور کوئی ٹھہرنے کی جگہ نہیں تھی ٹینٹ لگانے کا موقع کوئی نہیں تھا کیونکہ بارش ہو رہی تھی بڑی تیز، تو اس لیے جب میں نے فون کیا تو عجیب اتفاق ہے کہ وہ فون پر مل گئی اور اس کو جب میں نے بتایا کہ یہ پوزیشن ہے اس نے کہا کہ فوری ا جاؤ میں فلاں جگہ کھڑی ہوں گی تم پہنچ جاؤ وہاں چنانچہ چونکہ اس وقت خود بخود راستوں کی مہارت ہو گئی تھی اس لیے بلا روک ٹوک میں سیدھا وہاں پہنچا ان کے گھر گئے وہاں رات کو میں نے ایک رویا دیکھی جس کا اس مضمون سے تعلق ہے
اس لیے میں وہ بتا رہا ہوں رویا یہ دیکھی کہ سویڈن کی بلند پہاڑی چوٹی پر بہت بڑے بڑے مجسمے ہیں اور وہ عورتوں کے ہیں اور وہ ہیرو عورتیں جنہوں نے عورت کو مردوں کی غلامی سے نجات بخشنے میں کام کیا ہے سویڈن میں بہت زیادہ موومنٹ تھی ،عورت کی برابری کی اور اس کی لبریشن کی یورپ میں سب سے زیادہ ازادی کے خیالات سویڈن میں پائے جاتے ہیں تو وہیں مجھے اللہ تعالی نے دکھائی روہ دکھائی کہ پہاڑ پر بڑے بڑے عظیم مجسمے ہیں اور بھری پڑی ہے چوٹی مجسموں سے سب عورتوں کے ہیں اور نیچے میں نے نظر کی تو نیچے کثرت سے ایک سمندر ہے مردوں کا اور اواز مجھے اتی ہے کہ اب ان کو ان سے کون نجات بخشے گا یعنی ان عورتوں کو اپنے تو مردوں سے عورتوں کو چھڑا لیا اب یہ نیچے جو چھوٹے چھوٹے لوگ نظر ا رہے ہیں وہ پیگمی سے دکھائی دے رہے تھے اب ان کو کون ان سے نجات بخشے گا اور سوال میں نفی کا معنی جو ہوتا ہے نا کہ کوئی اب نہیں۔ یہ تو ہو گیا ان کو کوئی نجات نہیں بخش سکتا یہ حیرت انگیز رویا تھی جو میرے سوتے وقت اس وقت سیر کا ماحول تھا میرے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی تو صبح نماز کے بعد وہ میرے اٹھنے کی اواز سے وہ بھی آگئی کہ چائے وائے تیار کرنی ہو تو میں دوں تو اس کو میں رویا سنائی رویا سن کے تو بمشکل اس نے انسو ضبط کیے بار بار چہرہ اس کا جوش سے بدلتا تھا، بل پڑتے تھے چہرے پہ اور ضبط کر رہی تھی کہ جب کچھ حوصلہ ہوا اس نے کہا کہ بالکل سچی رویا ہے میں گواہ ہوں میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے یہاں جو ازادی کا ماحول ہے عورت کی ازادی کا اس نے عائلی زندگی کو بالکل غیر محفوظ کر دیا ہے اور ایسے رجحانات پیدا کر دیے ہیں کہ بات بات پر مرد سے جھگڑ کر مرد کو سوٹ کیس پکڑا اور کا گھر سے بھاگ جاؤ مکان بھی میرا اور سب کچھ میرا۔ اور اس کے بعد پھر ساری زندگی ویران پڑی رہتی ہے کبھی سکون نہیں ملتا ،کبھی چین نہیں اتا۔ تو یہ حقیقت میں اس وقت ہمارا ملک اسی بلا کا شکار ہے تو یہ ایک غیر کی گواہی بھی میں آپ کو بتا رہا ہوں۔

ترجمتہ القرآن کلاس 54





















آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جامع دعا


اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ
یعنی اے اللہ ہم تجھ سے ہر اس خیر کا سوال کرتے ہیں جس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سوال کیا اور ہر اس چیز سے پناہ مانگتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے پناہ مانگی، تو ہی مدد گار ہے، تو ہی خیر و شر پہنچانے والا ہے، اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی ہمت بھی صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

Saturday, May 20, 2023

خدا کے ایک بندے کو آپ کی تلاش ہے



 خدا کے ایک بندے کو آپ کی تلاش ہے




 کیا آپ محنت کرنا جانتے ہیں اتنی محنت کے تیرہ چودہ  گھنٹے مجھے دن  میں کام کر سکیں 


 کیا آپ سچ بولنا جانتے ہیں؟ اتنا کہ کسی صورت میں آپ جھوٹ نہ بول سکیں۔ آپ کے سامنے آپ کا گہرا دوست اور عزیز بھی جھوٹ نہ بول سکے۔ آپ کے سامنے کوئی اپنے جھوٹ کا بہادرانہ قصہ سنائے  تو آپ اس پر اظہار نفرت کئے بغیر نہ رہ سکیں۔


 کیا آپ جھوٹی عزت کے جذبات سے پاک ہیں۔ گلیوں میں جھاڑو دے سکتے ہیں۔ بوجھ اٹھا کر گلیوں میں پھر سکتے ہیں۔ بلند آواز سے ہر قسم کے اعلان بازاروں میں کر سکتے ہیں۔ سارا سارا دن پھر سکتے ہیں  اور ساری ساری رات جاگ سکتے ہیں۔


کیا آپ اعتکاف کر سکتے ہیں جس کے معنی ہوتے ہیں

(الف) ایک جگہ دنوں بیٹھے رہنا 

(ب)گھنٹوں بیٹھے وظیفہ کرتے رہنا 

(ج) گھنٹوں اور دنوں کسی انسان سے بات نہ کرنا۔


کیا آپ سفر کرسکتے ہیں؟اکیلے اپنا بوجھ اٹھا کر بغیر اس کے کہ آپ کی جیب میں کوئی پیسہ ہو؟ دشمنوں اور مخالفوں میں، ہفتوں،  مہینوں


 کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ بعض آدمی ہر شکست سے بالا ہوتے ہیں۔ وہ شکست کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ وہ پہاڑوں کے کاٹنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ دریاؤں کو کھینچ لانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس قربانی کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔ 


کیا آپ میں ہمت ہے کہ سب دنیا کہے نہیں اور آپ کہیں ہاں؟ آپ کے چاروں طرف لوگ ہنسیں اور آپ سنجیدگی قائم رکھیں۔ لوگ آپ کے پیچھے دوڑیں اور کہیں ٹھہر تو جا ہم تجھے ماریں گے اور آپ کا قدم بجائے دوڑنے کے ٹھہر جائے اور آپ اس کی طرف سر جھکا کر کہیں لو مار لو آپ کسی کی نہ مانیں کیونکہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں مگر آپ سچے ہیں۔


آپ یہ نہ کہتے ہوں کہ میں محنت کی مگر خدا تعالی نے مجھے ناکام کر دیا بلکہ ہر ناکامی کو اپنا قصور سمجھتے ہوں۔ آپ یقین رکھتے ہوں کہ جو محنت کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے اور جو کامیاب نہیں ہوتا اس نے محنت ہرگز نہیں کی۔


اگر آپ ایسے ہیں تو آپ اچھا مبلغ اور اچھا تاجر ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں۔


اے احمدی نوجوان! ڈھونڈ اس شخص کو اپنے صوبہ میں، اپنے شہر میں، اپنے محلہ میں، اپنے گھر میں، اپنے دل میں!!

Friday, January 13, 2023

“A wonder of the World”



Khewra Salt Mine – “A wonder of the World”

Every summer, I always plan with my family to visit a tourist as well as historical places in the world. This summer we planned to visit a very remarkable place called “Kewera salt Mine”. I always wanted to visit Khewra mine and finally, the day arrived when I was there with my family. Some things and some places are worth waiting for. It was a bright sunny hot day in June. Kewera is 180km far from Islamabad. It can be accessed by two routes one from Islamabad Motorway (M1 via Kalar Kahar Interchange, which is a bit longer route, as here you have to cross Choa Seydan Shah and then reach the salt mine. It is a half-plane and half-hilly road. While another route is via Liyya Interchange. From Lilla Interchange, the Khewra salt mine is just 42 km distance. This is far shorter and better than the Kaler Kahar interchange.

The weather was a little bit hot but we were excited to visit the salt mine. So, we started our trip at 7:00 AM and reached the salt mine around 9:00 AM. When we reached there I realize that this is not a good place to visit because there is no tree or shade to park our vehicle or to relax. All around us, there are big mountains with no greenery. The weather was also hot as compared to our city.

The Khewra Salt Mines is located in Khewra, north of a small city called Pind Dadan Khan, Punjab, Pakistan. It is Pakistan's largest and oldest salt mine and the world's second-largest mine. It is also called the world’s largest edible pink salt mine. This salt range started near the Jhelum River and finish at the Indus River in Kala Bagh District Minawali.

We bought 3 tickets for around Rs. 700-  for entrance and train ride. The train took us into the mine. It is around a 1.5 KM / 1-mile long tunnel. The weather inside the tunnel was cold as compared to the outside. I feel very pleasant and my mind is changed about this place. After passing by a huge main tunnel inside the mine, we reached our destination where the guide took us first all to a beautiful Mosque that is situated inside the mine and made of salt. Different light bulbs have been placed inside the rocks made of salt thus giving a very bright and golden shine to the Salt Mosque. It’s really amazing and a work of appreciation.

Everything in the tunnel was made up of pink and white salt. The tour guide told us about the historical background of the mine. He told that, In 1849, Brits took charge and started working here on a scientific basis to get salt. In 1872, under the guidance of a famous British Mining Engineer named Dr. Warth. He further told that the Khewra salt mine is also been called the 'Natural Museum on the Earth'. There were a few rooms inside the mine which were supposed to be used as a post office during the British regime.

The Total length of the mine is 300 km, the width is from 8 to 30 km and the height is 2200ft to 4990ft. Khewra mine has 17 stories. Only the ground floor has been opened for tourists. According to scientific rules and regulations, 50% of the salt is taken from here for consumption while the rest of 50% of the salt is left over here so that it can work as a pillar to give support to the mine range.

In Khewra mine different kinds of souvenirs are available and are they all made of salt. There are many different designs of lamps that look unique in themselves. There is a very nice restaurant with desi food and some shops are located in the mine. We eat lunch and buy some decoration pieces. In the evening around 7:00 PM, we came back home.

At last, I must say that if anyone gets a chance then must visit this unique piece of art. The entire salt range is pink and desolate. The mine is famous for its production of Pink Khewra Salt, often marketed as Himalayan salt. Must take some water and food items with you because there are few restaurants and shops at the site.