ALLAH IS THE GREATEST

THERE IS NO GOD BUT ALLAH.

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

ALLAH HO AKBAR الله اکبر

ALLHA IS THE GREATEST.

ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL

LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE

Everthing is created by ALLAH

Nature is always perfect.

ALLAH Knows Everything

No one is powerful then "ALLAH"

LOVE FOR HUMANITY

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

Thursday, December 24, 2020

Defination of Muslim آئین پاکستا ن میں مسلمان کی تعریف




 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


آئین پاکستا ن میں مسلمان کی تعریف 

اورعقیدہ ختم نبوت   

(آر-ایس-بھٹی)

آئین پا کستان  1974 میں مسلما ن کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی 

مسلم'' سے مراد کوئی ایسا شخص ہے جو وحدت و توحید قادرمطلق اللہ تبارک   وتعالی، خاتم النبیین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط طور پرایمان رکھتا ہواور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔

اس تعریف کو پڑھ کرتعصب سے بغیرایک عام فہم کا انسان بھی یہ جان سکتا ہے کہ یہ تعریف نہ تو قرآن میں بیان ہوئی ہے اورنہ ہی مستند احا دیث کی کسی کتاب میں  کیونکہ ختم نبوت کا لفظ نہ تو قرآن کا بیان کردہ ہے اور نہ ہی مستند احادیث میں اس کا کچھ ذکر ہے۔ پھر آخر پاکستان کے آئین میں خود سے ایک نئی تعریف بنا کر ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اوراحادیث میں بیان کردہ کسی بھی تعریف کی رو سے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار نہیں دیا جا سکتا تھا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعریف باقاعدہ ایک خاص مقصد کے تحت تراشی گئی تھی۔

لہذا علماء اور ماہرین قانون نے سخت عرق ریزی کے بعد یہ تعریف بنائی تاکہ جماعت احمدیہ کو کسی طرح اسلام سے خارج قرار دیا جا سکے یہ دوسری بات کہ اس طرح وہ خود بھی دائرہ اسلام سے باہر نکل گئے؛ لیکن پرواہ نہیں۔

 اس سے قبل 1953 میں بھی علماء یہ کوشش کر چکے تھے لیکن تب ابھی پاکستان بنے کو چند سال ہی ہوئے تھے اور ان لوگوں کی اکثریت ابھی زندہ تھی جو یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ تحریک پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والی اور قائداعظم کا ساتھ دینے والی جماعت احمدیہ واحد مذہبی جماعت تھی اور وہ علماء جو جماعت احمدیہ کے درپئے ہیں اور ملک کو فسادات میں دھکیل رہے ہیں وہ تو باآواز بلند اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے

اور شائید ایک وجہ یہ بھی ہوکہ تب تک پا کستانی علماء کا عقیدہ ختم نبوت اتنا پختہ نہیں ہوا تھا اس لئے جب منیرانکوائری کمیشن کے دوران مختلف علماء سے مسلمان کی تعریف پوچھی گئ تو سوائے ایک مولوی صاحب (مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صدر جمیتہ العلماء پاکستان )کے علاوہ  ابوالاعلیٰ مودودی صاحب سمیت کسی نے بھی مسلمان بننے کوعقیدہ ختم نبوت کے ساتھ مشروط نہ کیا۔ اس کےعلاوہ ایک اور مولوی صاحب(امین احسن اصلاحی) نے مسلمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے لفظ خاتم النبیین کا ذکر کیا لیکن اس کے ساتھ ہی لفظ خاتم النبیین کی تشریح بھی کی۔ لیکن لفظ ''ختم نبوت'' کسی بھی مولوی صاحب نے استعمال نہیں کیا

چنانچہ مولاناابو الحسنات صاحب نے مسلمان کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی

اول ۔ وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو

دوم ۔ وہ پیغمبر اسلام کو اور تمام انبیائے سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو 

سوم۔ اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام صلعم انبیاء میں آخری نبی ہیں (خاتم النبیین) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور مولوی امین احسن اصلاحی نے مسلمان کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی

 مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک سیاسی مسلمان دوسرے حقیقی مسلمان۔ سیاسی مسلمان کہلانے کے لئے ایک شخص کے لیے ضروری ہے کہ

 وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو

 ہمارے رسول پاک کو خاتم النبیین مانتا ہو یعنی اپنی زندگی کے متعلق تمام معاملات میں ان کو آ خری سند تسلیم کرتا ہو

-------

ان تمام سوال وجواب کے بعد جسٹس منیرکمیشن کے ریمارکس بہت اہم اور تاریخی ہیں لکھتے ہیں کہ کوئی سے بھی دو عالم، مسلمان کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں اور اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہمیں متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے گا۔ اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن تمام علماء کی تعریف کے رو سے کافر ہو جائیں گے  

            ( منیر انکوائری رپورٹ  ص335 تا 340 )                                                       اوپربیان کردہ تفصیل سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ آج جو ہرطرف یہ راگ الاپا  جاتا ہے کہ احمدیوں نے چودہ سو سال    سے  قائم عقیدہ "ختم نبوت" پرڈاکہ ڈالا ہے توجناب چودہ سوسال تو کیا؛ابھی ساٹھ سال پہلے تک لفظ "ختم نبوت" آپکے اپنے علماء کی لغت میں نہیں تھا آپکے علماء تو زمانے کے بدلنے کےساتھ اپنا رنگ اورعقیدہ بدلنے کے ماہرہیں اور پچھلے چند سالوں میں انھوں نے اسےدوبارہ  سے جدت بخشی ہے تاکہ کسی طرح وقت کے امام کو نہ ماننے کا بہانا تراشا جاسکے اورعوام تک اس روشنی کوپہنچنے سے روکاجاسکا

              اب اگر احادیث کو دیکھیں تو احادیث میں مختلف موقعوں پر مسلمان کی تعریف مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے جیسا کہ ایک موقع پرفرمایا گیا کہ مسلمان وہ ہے کہ جسکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں- ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جس شخص نے وہ نمازادا کی جوہم کرتے ہیں اس قبلہ کی طرف رخ کیا جسکی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے

       (بخاری کتاب الصلوہ باب فضل استقبال القبلہ)                                             

 آئیے اب ایک اور حدیث دیکھتے ہیں جوبخاری کتاب الجہادوالسیر میں کتابہ الامام الناس میں درج ہے جوکہ غالبا مردم شماری     کے موقع کی ہے اور جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غالبا کسی جہاد کی تیاری کےلئے حضورصل اللہ علیہ وسلم       کو مجاہدین کی تعدادکا اندازہ لگانا مقصود ہوگا-جب آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا

جن لوگوں نے اسلام کا زبان سے اقرار کیا ہے ان کےنام مجھےلکھ دو اور ہم نے ڈیڑھ ہزارمردوں کے نام لکھ کرآپکودیئے اور ہم کہنےلگے کیا اب بھی ہمیں ڈر ہے جب ہم ڈیڑھ ہزار ہیں ہم نے اپنے آپکو آزمائش کےاس زمانے میں بھی دیکھاہے جب ایک شخص ا کیلا نماز پڑھتا تھا اوروہ خوفزدہ ہوتا 

 اللہ تعالی نے حضورصل اللہ علیہ وسلم کو دینی اوردنیاوی دونوں بادشاہتیں عطا فرمائی تھیں،علم غیب سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا لیکن جب مردم شماری کی ضرورت پیش آئی تونہ تو تفصیلی سوال وجواب کئے(نماز، روزہ، زکوہ کاپوچھا) نہ  ہی اپنے رسول ہونے کاکوئی زعم کیا( خدا چاہےتو رسول کو دلوں کے حال پر آگاہ کردے)،صرف یہ پوچھنے پر اکتفا کیا کہ جوخود کو مسلما ن بتائے اسے مسلما ن لکھ لو-اور ایک حکومت کااپنے شہریوں کے مذہب سےبس یہی تعلق ہونا چاہیے کہ ان سے پوچھ لے کہ ان کا کیا مذہب ہے نہ یہ کہ خودان کو بتائے کہ ان کامذہب کیا ہے

اب ذرا غورکرتے ہیں کہ قرآن میں لفظ مسلمان کہاں کہاں اور کیسےاستعمال ہوا ہے 

مسلمان کا لفظی ترجمہ فرمانبردار کے ہوتے ہیں اورعام طور پر ان آ یات کے ترجمہ  میں یہی مطلب استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے مسلمان کا لفظ ہی لکھا گیا ہے اس طرح ان آیات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان کا لفظ خدا تعالیٰ نے پرانے انبیاءکے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ 

سورہ البقرہ آیت ١٢٩ میں حضرت ابراہیم کی ایک دعا درج ہے جوانھوں نے حضرت اسمعیل کےساتھ خانہ کعبہ کی بنیادیں استوار کرتے ہوئے مانگی 

ربناواجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امتہ مسلمتہ لک

اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دو "مسلمان" بندےبنادے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک "مسلمان" امت بنادے 

اسی طرح سورج البقرہ آیت 133میں ہے

 ووصی بھآ ابراھیم بنیہ و یعقوب یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلاتموتن آلا و انتم مسلمون

اور اسی بات کی تاکیدی نصیحت ابراھیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی  کہ اے میرے پیارے بچو! یقینا اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چن لیا ہے پس ہر گز مرنا نہیں مگر اس حالت میں کہ تم "مسلمان" ہو۔

 آئیے اب سورہ الحج آ یت 79 کو دیکھتے ہیں جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے 

ھو اجتبکم و ما جعل علیکم فی الدین من حرج  ملتی ابراھیم ھو سمکم المسلمین من قبل و فی ھذا لیکون الرسول شھید آ علی الناس فاقیموا الصلوہ و اتو الزکوہ واعتصموا باللہ 

اس نے تمہیں چن لیا اور تم پردین کے معاملات میں کوئی تنگی نہیں ڈالی ہیں  یہی تمہارے  باپ ابراھیم کا مذہب تھا اس (یعنی اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس سے پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ رسول تم سب پر نگران ہو جائے اور تاکہ تم تمام انسانوں پرنگران ہو جاو۔ پس نماز کو قائم کرواورزکوٰۃ دو اوراللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ 

اس آ یت نے تو لفظ مسلمان پرسے پاکستانی علماء کی اجارداری ہی ختم کردی ہے اسلام کے ظہور سے بہت پہلے اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم اورآپ کی قوم کو مسلم قرار دیااور آج پاکستان کے علما نے کسی شخص کے مسلم ہونے یانہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا ٹھیکہ اپنےہاتھ میں لے لیا ہے آج اگر حضرت ابراھیم ،آپ کے بیٹے(حضرت اسمعیل، حضرت اسحاق ) یا پوتے  (حضرت یعقوب)  یاپڑپوتے(حضرت یوسف) پاکستان آ جائیں اورکہیں کہ ہمارا نام تو خدا نے مسلمان رکھا ہے تو وہاں کا آئین اورعلماء ان کےاس دعوی کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ کیونکہ وہ تو لفظ مسلم کواپنا ذاتی ٹریڈ مارک بنا چکے ہیں کوئی اور شخص انکی مرضی اور آشیرباد کے بغیر یہ لفظ استعمال نہیں کرسکتا

اورپچھلے دنوں توانھوں نےاپناغم وغصہ گوگل پر بھی خوب نکالا،کیونکہ اس گستاخ گوگل نے امام جماعت احمدیہ کانام مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پرلکھا ہوا تھا اور آج کل یہ گستاخی گوگل کوبھگتنی پڑرہی ہے

         

                             Reference picture: revelation, rationality, knowledge and truth                                        

ہماری حکومت تو اس تصویرمیں دکھائے گئے بادشاہ سلامت کی طرح ہے جوعوام اور  آسمانی روشنی کے درمیان حائل ہونے کی جان توڑ کوشش کررہی ہے، کبھی جماعت احمدیہ کے خلاف قوانین بنا کر، کبھی جماعت کی ویب سائٹس اورٹی وی چینل بند کرکے، کبھی کتابوں پر پابندی لگا کر، اورکبھی گوگل اور وکی پیڈیا کونوٹسسزبھیج کر 

جوہوسکے توستاروں کے راستے کاٹو                  

  کوئی تو چارہ کرو کچھ توکار کر دیکھو                  

خدا کی بات ٹلے گی نہیں تم ہو کیا چیز                                       

اٹل چٹان ہے سر مار مار کر دیکھو                                      

(کلام طاہر)                                                                                               

آ خر میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کے الفاظ   میں جماعت احمدیہ کاعقیدہ درج ہے،جس پر جماعت احمدیہ مسلمہ خدا کے فضل  سے پچھلے سوا سو سال سے قائم ہے اور انشاءاللہ ہمیشہ قائم رہے گی  

:آپ علیہ السلام فرماتے ہیں

ہم مسلمان ہیں- خدائے واحد لا شریک پرایمان لاتے ہیں اور کلمہ لاالہ الااللہ کے قائل ہیں اورخدا کی کتاب قرآن اور اس کےرسول محمد صل اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم 

الا نبیاء ہیں مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور دوزخ اور بہشت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں اوراہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیاہے اسکو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا ہے اسکو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سےہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے  ہم اسکو سمجھیں یا اسکے بھیدکوسمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن مُوحد مسلم ہیں-

(نور الحق جزء اول ص5)                                                                                              کوئی بھی ذی ہوش انسان جو تقوی اور انصاف سے کام لے اور قرآن و حدیث کاعلم رکھتا ہو وہ کبھی بھی    ان    عقا ئد پر قائم جماعت کوغیرمسلم قرار نہیں دے سکتا 

Tuesday, December 15, 2020

punishment for apostasy مرتد کی سزا

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مرتد کی سزا 

قرآن اور اسوہ رسول صہ کی روشنی  




                                                            (آر۔ایس۔بھٹی)

چھ ہجری، حدیبیہ کا مقام کام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ علیھم کے ہمراہ تشریف فرما ہیں اور کفار مکہ کے ساتھ صلح کی شرائط طے پا رہی ہیں۔
شرط نمبر 3-اگر مکہ والوں میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر کر مدینہ آجائے تو آنحضورصلی اسے پناہ نہیں دیں گے اور اسے  واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی شخص مدینہ سے مکہ چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا
 سوال یہ ہے کہ کوئی شخص مکہ چھوڑ کر  مدینہ کیوں جائے گا؟
یہ اس شخص کی بات ہو رہی ہے جو اسلام سے پھر جائے، اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے اور جسے ہمارے ہاں عام محاورے میں مرتد کہا جاتا ہے۔ تو کیا اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ دے، اور کفر کی گود میں میں واپس چلا جائے تو اسے قتل کرنے کی بجائے مکہ جانے کی اجازت ہوگی؟  یہ چھ ہجری  کا زمانہ ہے قرآن  اپنی تکمیل کے قریب ہے اور اسلام کا سورج  پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے کے لیے بے قرار ہے اگر خدا تعالی نے قرآن کریم میں مرتد کی سزا قتل بیان فرما دی گئی تھی تو قرآن کی اس واضح تعلیم کے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح شرائط قبول فرما سکتے تھے ؟

 اس کا مطلب ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا وضع کرنے کے لیے ہمیں قرآن اور حضور صل وسلم کے اسوہ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ہے کیا واقعی سزا قرآن یا حدیث میں بیان فرمائی گئی ہے 

سورۃ آل عمران آیت نمبر 87 تا 90 اللہ تعالی فرماتا ہے
بھلا کیسے اللہ ایک قوم کو ہدایت دے گا جو ایمان لانے کے بعد  کافر ہوگئے ہوں اور وہ گواہی دے چکے ہوں کہ رسول حق ہے  اور ان کے پاس کھلے کھلے دلائل آ چکے ہوں  اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا 
یہی وہ لوگ ہیں جن کی جزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی
 وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے  ہیں ان سے عذاب کو ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ وہ کوئی مہلت دیئے جائیں گے۔
 سوائے ان کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی تو یقین اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے 
اسی طرح سورہ النساء کی آیت نمبر 138 میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
 یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے  پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کردیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے اللہ ایسا نہیں کہ انھیں  معاف کر دے اور انہیں راستے کی ہدایت دے

 درج بالا آیت میں تو اللہ تعالی نے مرتد کو قتل کرنے کے خلاف واضح تعلیم دی  ہے کیونکہ اگر کسی شخص کو مرتد ہونے کے بعد قتل ہی کر دینا ہے تو اس کے دوبارہ ایمان لانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
 اسی طرح ایک اور بہت مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا خب وحی ہوتی تو حضور اسے بلا کر لکھوا دیا کرتے۔ یہ سورۃ المومنون کی شروع کی آیات کا ذکر ہے جن میں انسان کی روحانی اور جسمانی پیدائش کے مختلف مراحل بیان فرمائے گئے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے 'ثم انشانہ خلقا اخر'  تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا فتبارک اللہ احسن الخالقین حضور صل وسلم نے فرمایا یہی وحی ہے اس کو لکھ لو لو۔ اس بدبخت کو یہ خیال آیا کہ شاید جس طرح میرے منہ سے آیت  نکلی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح بنا لی ہے اور شاید نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح  قرآن بنا لیا کرتے ہیں وہ شخص مرتد ہوگیا اور مکہ چلا گیا (اصابہ جلد 4 صفحہ77 ) 
نہ صرف یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ یہ بھی روایت آتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ شخص مسلمان ہوگیا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام اپنے مکمل صورت میں قائم ہو چکا تھا تو پھر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم نہ دیا  بلکہ دوبارہ اس کی بیعت قبول فرما لی۔
 اب دیکھتے ہیں کہ مرتد کی سزا کا عقیدہ کن لوگوں کا ہے اور کون لوگ اس پر زور دیتے ہیں
 جب بھی کوئی نبی دنیا میں مبعوث ہوتا ہے تو وہ نئی تعلیمات لے کر آتا ہے یا جن تعلیمات کو لوگ بھول چکے ہوتے ہیں ان کا اعادہ کرتا ہے اور وہ لوگ جو پرانے رسم و رواج کو چھوڑ کر اس کی پیروی کر رہے ہوتے انہیں مرتد کہا جارہا ہوتا ہے  اور مرتد کا لفظ عمومی طور پر انبیاء کے مخالفین کی طرف سے عام طور پر زیادہ استعمال کیا جاتا  ہے کیونکہ وہ انبیاء کے پیروکاروں کو عام طریق سے ہٹ کر نیا طریق اختیار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے مخالفین کا ہمیشہ سے یہی عقیدہ رہا ہے کہ مرتد کو یا تو قتل کر دیا جائے یا اس کو ملک سے نکال دیا جائے۔
 جیسا کہ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 14 اور 15 میں اللہ تعالی فرماتا ہے؛ اور ان لوگوں  نے جنہوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے کہا  کہ ہم ضرور تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تم ہماری ملت میں واپس آ جاؤ گے تب ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کر دینگے 
اور ضرور ہم تمہیں ان کے بعد  ملک میں بسا دیں گے یہ اس کے لئے ہے جو میرے مقام سے خوف کھاتا ہے اور میری تنبیہ سے ڈرتا ہے 
ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالی مرتد ہو جانے والوں کے بدلے میں خوشخبری دے رہا ہے کہ میں ان کے بدلے میں  ایک قوم دوں گا چنانچہ سورہ المائدہ آیت نمبر 55 میں اللہ تعالی فرماتا ہے 

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہوجائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ  اس سے محبت کرتے ہوں اور و ہمومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت۔
 ان سب آیات اور اسوہ رسولصل اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کے بعد اگر آج کے مسلمانوں کی دینی تربیت کو دیکھا جائے تو معاملہ بالکل الٹ دکھائی دیتاہے
 نا صرف یہ کہ وہ دوسرے مذہب بلکہ دوسرے فرقے کو برداشت کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں اور آج کل تو ایک بہت ہی مشہور سلوگن انٹرنیٹ پر چلتا ہے کہ بغیر دلیل کے دوسرے کو کافر اور واجب القتل کہا جاتا ہے اور جماعت احمدیہ پر یہ  نوازش خاص طور پر اور باافراط کی جاتی ہے 
 ذیل کی دو ویڈیو قتل و غارت گری کے اس سمندر میں سے صرف نمونے کے طور پر نکالی گئی ہیں 


https://www.youtube.com/watch?v=EMiawYNp628


یہ صرف دو ویڈیو ہیں اس میں قرآن کے اس واضح حکم کے خلاف پاکستان کے علماء فتوی دے رہے ہیں اور یہ ان علماء کی ویڈیو ہیں جنہیں عام طور پر مہذب اور غیر شدت پسند علماء میں شمار کیا جاتا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک صاحب تو نہایت مہذب انداز سے احمدیوں کے قتل کے فتوے دے رہے ہیں اور دوسرے صاحب مرتد کو فتنہ وفساد کا منبع قرار دیتے ہوئے اس کے قتل کے لیے بہانہ تراش ہیں اور ہمیشہ سے یہ کام خدا کے بھیجے ہوئے فرستادہ کے مخالفین کرتے آئے ہیں


                         ہے کام مساوات  محمد  کومٹانا

                            کرتا ہے عرب اور عجم اور طرح سے

Wednesday, December 2, 2020

ڈسٹرکٹ کورٹ میرپور پاکستان میں وکلاء گردی

 

 ڈسٹرکٹ کورٹ میرپور میں پاکستانی وکلا ء

 کی جانب آئین کی پاسداری

     R-S-Bhatti

 آئیں اب آئین و قانون کی پاسداری کا اعلی معیاردیکھتے ہیں جو پاکستان میں قائم ہے- ابھی دو دن پہلے کی بات ہے  ڈسٹرکٹ کورٹ میر پور کے جج کی طرف سے گستاخ صحابی واجد علی شاہ کی صرف ضمانت منظور ہونے پر مشتعل وکلا نےجج کے کمرے کا دروازہ توڑ دیا اور ضمانت منظور کرنے والے جج کے خلاف شدید نعرے بازی کی ابھی تو مقدمہ کی کاروائی باقی تھی ؛ نہ کہ ملزم کو بری کیا گیا تھا –صرف ضمانت منظور ہونے پر ہی جج کے خلاف اس قدر طوفان بدتمیزی برپا کرنا اور وہ بھی وکلاء کی جانب سے ،جو کہ خود" قانون کے رکھوالے" کہلاتے ہیں- کیا اس کو آئین اور قانون کی پاسداری کہا جاتا ہے؟؟ کیا ضمانت منظور کرنا خلاف قانون ہے؟  جس کے اوپر اس قدر ہنگامہ برپا کیا گیا-اور جج کے کمرے کا دروازہ توڑ دیا گیا - جیسے کہ جج نے کوئی خلاف آئین ، خلاف قانون کام کردیا ہو- 

طاہراشرفی صاحب! آپ تو اپنے منصفوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں- کیا اس طرح کے آئین اور قانون کی پاسداری کی آپ احمدیوں سے توقع رکھتے ہیں اس قسم کی آئین و قانون کی پاسداری کرنا یا اس کی توقع رکھنے پر تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں- 

                                               اناللہ واناالیہ راجعون --------



Tuesday, December 1, 2020

علامہ طاہر اشرفی، کا وائس آف امریکہ کودیا گیا انٹرویو

  علامہ طاہر اشرفی، کا وائس آف امریکہ کودیاگیا حالیہ انٹرویو 
آر-ایس-بھٹی                                                                                                               

ابھی کچھ دن پہلے علامہ طاہراشرفی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو دیا- جس میں سوال کرتے ہوئے علی فرقان نے یہ پوچھا کہ اسلام میں یہ کہا جاتا ہے کہ سب کے حقوق برابر ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ کوئی  اقلیتی رکن اگر کسی حکومتی اعلی عہدے پر آجاتا ہے تو عوامی سطح  پر اس کے اوپر ردعمل جو ہے وہ آنا شروع ہو جاتا ہے

جواب علامہ طاہر اشرفی:   

اعتراض یہ نہیں ہے کہ کوئی اقلیتی رکن اوپر کیوں آ رہا ہے اعتراض جو ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ آپ آئین اور قانون کو تسلیم بھی نہیں کرتے اور آپ کہتے  ہیں کہ ہمیں پوزیشن بھی دیں توبھئ جو پوزیشن جس آئین اور قانون کے تحت آپ نے لینی ہے اسے تو آپ تسلیم کریں نا- تو جب یہ ایک چیز مسلمہ ہے اور آپ کی پارلیمنٹ نے طے کر دیا ہے اور آئین نے طے کر دیا ہے- اب یہ دو چیزیں ہیں میں چاہوں گا کہ آپ اس کو کلیئر بالکل کردیں -ایک ہے ان کا غیرمسلم ہونا ایک ان کا پاکستانی  بطور ان کا حق ہم اس بات کے بالکل قائل ہیں کہ ان کو پرٹیکشن ملنی اہئے ان کی جان و مال سے کسی کو 

نہیں کھیلنا چاہیے اور یہ علماء اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان کے ساتھ ریاست کو

معاملہ کرنا ہے اگر کوئی توہین بھی کرتا ہے گستاخی بھی کرتا ہے تو 298 

سی کا قانون اسی لیے ھے اگر اس قانون کی موجودگی میں کوئی قانون کوہاتھ میں لیتا ہے تو قطعا درست نہیں ہے-   (انٹرویو دیکھنے کے لیےلنک پر کلک کریں)

https://www.urduvoa.com/a/special-representative-of-pm-on-religious-harmony-Tahir-Mehmood-Ashrafi-interview-27nov2020/5678578.html





----------------

-                                                                                      یہاں علامہ طاہر اشرفی کون سی اقلیت کی بات کر رہےہیں۔ کیا پاکستان میں کبھی کسی  ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی  کے ماننے والے کو حکومتی عہدے پر فائز ہونےپر کبھی عوام کی طرف سے ردعمل آیا ہے؟ جی نہیں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے کہ اگر کبھی کسی احمدی  کے بارے میں یہ خبر آ جائے کہ اسے کوئی عہدہ ملکی سطح پر ملنے والا ہے تو ملک میں ایک فساد  کی سی کیفیت مذہبی طبقے کی طرف سے پیدا کردی جاتی ہے- اور جس 298 سی کا علامہ طاہر اشرفی حوالہ دے رہے ہیں وہ تو خاص طور پر احمدیوں کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور یہ الزام تو صرف احمدیوں پر ہی لگایا جاتا ہے کہ وہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے کسی بھی اور مذہب کے لوگوں کو آپ یہ الزام نہیں لگاتے
تو جناب طاہر اشرفی صاحب پہلی بات تو یہ کہ کیا آپ سے کسی احمدی نے کوئی عہدہ یا پوزیشن مانگی ہے ؟؟

خدا کے فضل سے احمدی اپنے ایمان کو دنیاوی عزتوں اور عہدوں  پر نہ صرف فوقیت  دیتے ہیں بلکہ اپنی جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتےاور اس پر پچھلے ستر سال کی پاکستان کی تاریخ گواہ ہے پاکستان بننے کے لئے قائداعظم کا ساتھ دینے والی واحد مذہبی جماعت؛ جماعت احمدیہ ہی تھی اور اس کے چند سالوں کے بعد ہی  1953ء میں احمدیوں کے خلاف پاکستان میں تحریک چلی جس میں احمدیوں نے جان اور مال کا نذرانہ محض اپنے ایمان کی خاطر دیا ۔ 1974ء میں آپ کے بڑوں نے دوبارہ احمدیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے  ان کے گھر جلائے گئے کاروبار اور اموال کو نقصان پہنچایا ۔

 اور اس کے بعد سے آج تک آپ نے احمدیوں کی جان اور مال کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اور یہ سب قربانیاں احمدیوں نے اپنے ایمان کی خاطر دیں ۔
 آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ احمدی خدانخواستہ آپ سے کسی دنیاوی عہدے کے طلبگار ہیں۔ (یہ کشکول تو خدا بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں پکڑا نے جا رہا ہے)

                تمہاری نبضیں ہمارے دم سے جواز ڈھونڈیں گی زندگی کا           

                کہ لکھنے والے نے لکھ دیا ہے مریض تم ہو طبیب ہم ہیں              

 جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ احمدی  قانون کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

 درج بالا تمام واقعات میں جب جب اور جہاں جہاں احمدیوں کو تختہ مشق کا نشانہ بنایا گیا تو کوئی ایک بھی واقعہ بتایا جائے  جہاں احمدیوں نے مظلوم ہونے کے باوجود کبھی قانون  اپنے ہاتھ میں لیا ہو احمدیوں نے اس ملک کو بنانے کی خاطر قربانیاں دیں لیکن  اس کے بعد اسی ملک میں ستائے بھی گئے ۔ جان اور مال سے محروم کیے گئے لیکن ایک بھی مثال آپ کے پاس نہیں کہ آپ یہ کہہ سکیں۔  کہ احمدیوں نے قانون شکنی کی ہو- 

  دور کیا جانا ابھی 2010 میں احمدیوں کی دو  مساجد پر لاہور میں خودکش حملہ ہوا جس میں  احمدیوں  نے ایک خود کش حملہ آور کو زندہ پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ خودکش حملہ آور کو زندہ پکڑا گیا۔ لیکن احمدیوں نے اس سے اپنے پیاروں  کا بدلہ خود لینے کی بجائے، اس کو زدوکوب کرنے کی بجائے ایک ذمہ دار شہری کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اسے پولیس کے حوالے  کر دیا۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کے بعد وہ خودکش حملہ آور کہاں گیا؟آج وہ کہاں ہے؟؟

  احمدیوں نے اس  کو پکڑا وہ اگر چاہتے تو اس کے جسم کو 85 ٹکڑوں میں  تقسیم کر کے اس سے اپنے 85 شہداء کا بدلہ بھی لے سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ احمدیوں نے کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ۔

 

جس ائین کی آپ بات کرتے ہیں  تو اس آئین میں درج مسلمان کی تعریف کو کبھی خود بھی غور سے پڑھ لیں  اس کی رو سے تو آپ بھی مسلمان نہیں ہیں کیونکہ آپ بھی تو پچھلے تیرہ سو  سال میں آنیوالے  محدثین، صالحین، مجددین، اور خلفائے راشدین  پر ایمان رکھتے ہیں اور آئندہ کے لئے حضرت عیسی کے دوبارہ آنے کے بھی قائل ہیں اور اس کے  باوجود خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں-  بلکہ احمدی تومسلمان کی اس کی خود ساختہ تعریف پر دستخط نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی سے بچ  جاتے ہیں آپ تو اس پر دستخط کر کے مسلمان بھی بنتے ہیں حکومت سے عہدے بھی لیتے ہیں اور پھر بیٹھ کر حضرت عیسی کا انتظار بھی کرتے ہیں۔  احمدی توآئین کی اس خلاف ورزی سے بچ جاتے ہیں کیونکہ  احمدیوں کو خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے اس خود تراشیدہ تعریف پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں ہے

طاہراشرفی صاحب آپ کا یہ رویہ اور اس طرح کے بیانات کسی بھی  طرح غیر جانبدار نہیں اس طرح کی جانبدارانہ رویہ کے  مالک سے ہم کس طرح یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ حال ہی میں احمدیوں کی ہونے والی شہادتوں کی غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تحقیقات کر سکیں گے- کیا یہ ویسی ہی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونے جارہی ہیں جو 2010ء میں گرفتار ہونے والے خودکش حملہ آورسے کی گئیں؟ اور کیاآپ بتا سکتے  ہیں کہ دس سال گزر جانے کے بعد اس خود کش حملہ آور کو کیاسزاسنائی گئی ہے؟

اب بات کر لیتے ہیں آئین وقانون کی پاسداری کے اس اعلی معیار کی جو پاکستان میں قائم ہے




ابھی دو دن پہلے کی بات ہے  ڈسٹرکٹ کورٹ میر پور کے جج کی طرف سے گستاخ صحابہ واجد علی شاہ کی صرف ضمانت منظور ہونے پر مشتعل وکلا نےجج کے کمرے کا دروازہ توڑ دیا اور ضمانت منظور کرنے والے جج کے خلاف شدید نعرے بازی کی- ابھی تو مقدمہ کی کاروائی باقی تھی ؛ نہ کہ ملزم کو بری کیا گیا تھا - صرف ضمانت منظور ہونے پر ہی جج کے خلاف اس قدر طوفان بدتمیزی برپا کرنا اوروہ بھی وکلاء کی جانب سے ،جو کہ" قانون کے رکھوالے" کہلاتے ہیں- کیا اس کو آئین اور قانون کی پاسداری کہا جاتا ہے؟ کیا ضمانت منظور کرنا خلاف قانون ہے؟  جس کے اوپر اس قدر ہنگامہ برپا کیا گیا-اور جج کے کمرے کا دروازہ توڑ دیا گیا - جیسے کہ جج نے کوئی خلاف آئین ، خلاف قانون کام کردیا ہو- آپ تو اپنے منصفوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں- کیا اس طرح کے آئین اور قانون کی پاسداری کی آپ احمدیوں سے توقع رکھتے ہیں اس قسم کی آئین و قانون کی پاسداری کرنا یا اس کی توقع رکھنے پر تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں  


                                 اناللہ واناالیہ راجعون --------