آئین پاکستا ن میں مسلمان کی تعریف
اورعقیدہ ختم نبوت
آئین پا کستان 1974 میں مسلما ن کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی
مسلم'' سے مراد کوئی ایسا شخص ہے جو وحدت و توحید قادرمطلق اللہ تبارک وتعالی، خاتم النبیین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط طور پرایمان رکھتا ہواور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔
اس تعریف کو پڑھ کرتعصب سے بغیرایک عام فہم کا انسان بھی یہ جان سکتا ہے کہ یہ تعریف نہ تو قرآن میں بیان ہوئی ہے اورنہ ہی مستند احا دیث کی کسی کتاب میں کیونکہ ختم نبوت کا لفظ نہ تو قرآن کا بیان کردہ ہے اور نہ ہی مستند احادیث میں اس کا کچھ ذکر ہے۔ پھر آخر پاکستان کے آئین میں خود سے ایک نئی تعریف بنا کر ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اوراحادیث میں بیان کردہ کسی بھی تعریف کی رو سے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار نہیں دیا جا سکتا تھا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعریف باقاعدہ ایک خاص مقصد کے تحت تراشی گئی تھی۔
لہذا علماء اور ماہرین قانون نے سخت عرق ریزی کے بعد یہ تعریف بنائی تاکہ جماعت احمدیہ کو کسی طرح اسلام سے خارج قرار دیا جا سکے یہ دوسری بات کہ اس طرح وہ خود بھی دائرہ اسلام سے باہر نکل گئے؛ لیکن پرواہ نہیں۔
اس سے قبل 1953 میں بھی علماء یہ کوشش کر چکے تھے لیکن تب ابھی پاکستان بنے کو چند سال ہی ہوئے تھے اور ان لوگوں کی اکثریت ابھی زندہ تھی جو یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ تحریک پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والی اور قائداعظم کا ساتھ دینے والی جماعت احمدیہ واحد مذہبی جماعت تھی اور وہ علماء جو جماعت احمدیہ کے درپئے ہیں اور ملک کو فسادات میں دھکیل رہے ہیں وہ تو باآواز بلند اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے
اور شائید ایک وجہ یہ بھی ہوکہ تب تک پا کستانی علماء کا عقیدہ ختم نبوت اتنا پختہ نہیں ہوا تھا اس لئے جب منیرانکوائری کمیشن کے دوران مختلف علماء سے مسلمان کی تعریف پوچھی گئ تو سوائے ایک مولوی صاحب (مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صدر جمیتہ العلماء پاکستان )کے علاوہ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب سمیت کسی نے بھی مسلمان بننے کوعقیدہ ختم نبوت کے ساتھ مشروط نہ کیا۔ اس کےعلاوہ ایک اور مولوی صاحب(امین احسن اصلاحی) نے مسلمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے لفظ خاتم النبیین کا ذکر کیا لیکن اس کے ساتھ ہی لفظ خاتم النبیین کی تشریح بھی کی۔ لیکن لفظ ''ختم نبوت'' کسی بھی مولوی صاحب نے استعمال نہیں کیا
چنانچہ مولاناابو الحسنات صاحب نے مسلمان کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی
اول ۔ وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو
دوم ۔ وہ پیغمبر اسلام کو اور تمام انبیائے سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو
سوم۔ اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام صلعم انبیاء میں آخری نبی ہیں (خاتم النبیین) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مولوی امین احسن اصلاحی نے مسلمان کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی
مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک سیاسی مسلمان دوسرے حقیقی مسلمان۔ سیاسی مسلمان کہلانے کے لئے ایک شخص کے لیے ضروری ہے کہ
وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو
ہمارے رسول پاک کو خاتم النبیین مانتا ہو یعنی اپنی زندگی کے متعلق تمام معاملات میں ان کو آ خری سند تسلیم کرتا ہو
-------
ان تمام سوال وجواب کے بعد جسٹس منیرکمیشن کے ریمارکس بہت اہم اور تاریخی ہیں لکھتے ہیں کہ کوئی سے بھی دو عالم، مسلمان کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں اور اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہمیں متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے گا۔ اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن تمام علماء کی تعریف کے رو سے کافر ہو جائیں گے
( منیر انکوائری رپورٹ ص335 تا 340 ) اوپربیان کردہ تفصیل سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ آج جو ہرطرف یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ احمدیوں نے چودہ سو سال سے قائم عقیدہ "ختم نبوت" پرڈاکہ ڈالا ہے توجناب چودہ سوسال تو کیا؛ابھی ساٹھ سال پہلے تک لفظ "ختم نبوت" آپکے اپنے علماء کی لغت میں نہیں تھا آپکے علماء تو زمانے کے بدلنے کےساتھ اپنا رنگ اورعقیدہ بدلنے کے ماہرہیں اور پچھلے چند سالوں میں انھوں نے اسےدوبارہ سے جدت بخشی ہے تاکہ کسی طرح وقت کے امام کو نہ ماننے کا بہانا تراشا جاسکے اورعوام تک اس روشنی کوپہنچنے سے روکاجاسکا
اب اگر احادیث کو دیکھیں تو احادیث میں مختلف موقعوں پر مسلمان کی تعریف مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے جیسا کہ ایک موقع پرفرمایا گیا کہ مسلمان وہ ہے کہ جسکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں- ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جس شخص نے وہ نمازادا کی جوہم کرتے ہیں اس قبلہ کی طرف رخ کیا جسکی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے
(بخاری کتاب الصلوہ باب فضل استقبال القبلہ)
آئیے اب ایک اور حدیث دیکھتے ہیں جوبخاری کتاب الجہادوالسیر میں کتابہ الامام الناس میں درج ہے جوکہ غالبا مردم شماری کے موقع کی ہے اور جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غالبا کسی جہاد کی تیاری کےلئے حضورصل اللہ علیہ وسلم کو مجاہدین کی تعدادکا اندازہ لگانا مقصود ہوگا-جب آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا
جن لوگوں نے اسلام کا زبان سے اقرار کیا ہے ان کےنام مجھےلکھ دو اور ہم نے ڈیڑھ ہزارمردوں کے نام لکھ کرآپکودیئے اور ہم کہنےلگے کیا اب بھی ہمیں ڈر ہے جب ہم ڈیڑھ ہزار ہیں ہم نے اپنے آپکو آزمائش کےاس زمانے میں بھی دیکھاہے جب ایک شخص ا کیلا نماز پڑھتا تھا اوروہ خوفزدہ ہوتا
اللہ تعالی نے حضورصل اللہ علیہ وسلم کو دینی اوردنیاوی دونوں بادشاہتیں عطا فرمائی تھیں،علم غیب سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا لیکن جب مردم شماری کی ضرورت پیش آئی تونہ تو تفصیلی سوال وجواب کئے(نماز، روزہ، زکوہ کاپوچھا) نہ ہی اپنے رسول ہونے کاکوئی زعم کیا( خدا چاہےتو رسول کو دلوں کے حال پر آگاہ کردے)،صرف یہ پوچھنے پر اکتفا کیا کہ جوخود کو مسلما ن بتائے اسے مسلما ن لکھ لو-اور ایک حکومت کااپنے شہریوں کے مذہب سےبس یہی تعلق ہونا چاہیے کہ ان سے پوچھ لے کہ ان کا کیا مذہب ہے نہ یہ کہ خودان کو بتائے کہ ان کامذہب کیا ہے
اب ذرا غورکرتے ہیں کہ قرآن میں لفظ مسلمان کہاں کہاں اور کیسےاستعمال ہوا ہے
مسلمان کا لفظی ترجمہ فرمانبردار کے ہوتے ہیں اورعام طور پر ان آ یات کے ترجمہ میں یہی مطلب استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے مسلمان کا لفظ ہی لکھا گیا ہے اس طرح ان آیات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان کا لفظ خدا تعالیٰ نے پرانے انبیاءکے لئے بھی استعمال کیا ہے۔
سورہ البقرہ آیت ١٢٩ میں حضرت ابراہیم کی ایک دعا درج ہے جوانھوں نے حضرت اسمعیل کےساتھ خانہ کعبہ کی بنیادیں استوار کرتے ہوئے مانگی
ربناواجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امتہ مسلمتہ لک
اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دو "مسلمان" بندےبنادے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک "مسلمان" امت بنادے
اسی طرح سورج البقرہ آیت 133میں ہے
ووصی بھآ ابراھیم بنیہ و یعقوب یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلاتموتن آلا و انتم مسلمون
اور اسی بات کی تاکیدی نصیحت ابراھیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے پیارے بچو! یقینا اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چن لیا ہے پس ہر گز مرنا نہیں مگر اس حالت میں کہ تم "مسلمان" ہو۔
آئیے اب سورہ الحج آ یت 79 کو دیکھتے ہیں جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے
ھو اجتبکم و ما جعل علیکم فی الدین من حرج ملتی ابراھیم ھو سمکم المسلمین من قبل و فی ھذا لیکون الرسول شھید آ علی الناس فاقیموا الصلوہ و اتو الزکوہ واعتصموا باللہ
اس نے تمہیں چن لیا اور تم پردین کے معاملات میں کوئی تنگی نہیں ڈالی ہیں یہی تمہارے باپ ابراھیم کا مذہب تھا اس (یعنی اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس سے پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ رسول تم سب پر نگران ہو جائے اور تاکہ تم تمام انسانوں پرنگران ہو جاو۔ پس نماز کو قائم کرواورزکوٰۃ دو اوراللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو۔
اس آ یت نے تو لفظ مسلمان پرسے پاکستانی علماء کی اجارداری ہی ختم کردی ہے اسلام کے ظہور سے بہت پہلے اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم اورآپ کی قوم کو مسلم قرار دیااور آج پاکستان کے علما نے کسی شخص کے مسلم ہونے یانہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا ٹھیکہ اپنےہاتھ میں لے لیا ہے آج اگر حضرت ابراھیم ،آپ کے بیٹے(حضرت اسمعیل، حضرت اسحاق ) یا پوتے (حضرت یعقوب) یاپڑپوتے(حضرت یوسف) پاکستان آ جائیں اورکہیں کہ ہمارا نام تو خدا نے مسلمان رکھا ہے تو وہاں کا آئین اورعلماء ان کےاس دعوی کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ کیونکہ وہ تو لفظ مسلم کواپنا ذاتی ٹریڈ مارک بنا چکے ہیں کوئی اور شخص انکی مرضی اور آشیرباد کے بغیر یہ لفظ استعمال نہیں کرسکتا
اورپچھلے دنوں توانھوں نےاپناغم وغصہ گوگل پر بھی خوب نکالا،کیونکہ اس گستاخ گوگل نے امام جماعت احمدیہ کانام مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پرلکھا ہوا تھا اور آج کل یہ گستاخی گوگل کوبھگتنی پڑرہی ہے
Reference picture: revelation, rationality, knowledge and truth
ہماری حکومت تو اس تصویرمیں دکھائے گئے بادشاہ سلامت کی طرح ہے جوعوام اور آسمانی روشنی کے درمیان حائل ہونے کی جان توڑ کوشش کررہی ہے، کبھی جماعت احمدیہ کے خلاف قوانین بنا کر، کبھی جماعت کی ویب سائٹس اورٹی وی چینل بند کرکے، کبھی کتابوں پر پابندی لگا کر، اورکبھی گوگل اور وکی پیڈیا کونوٹسسزبھیج کر
جوہوسکے توستاروں کے راستے کاٹو
کوئی تو چارہ کرو کچھ توکار کر دیکھو
خدا کی بات ٹلے گی نہیں تم ہو کیا چیز
اٹل چٹان ہے سر مار مار کر دیکھو
(کلام طاہر)
آ خر میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کے الفاظ میں جماعت احمدیہ کاعقیدہ درج ہے،جس پر جماعت احمدیہ مسلمہ خدا کے فضل سے پچھلے سوا سو سال سے قائم ہے اور انشاءاللہ ہمیشہ قائم رہے گی
:آپ علیہ السلام فرماتے ہیں
ہم مسلمان ہیں- خدائے واحد لا شریک پرایمان لاتے ہیں اور کلمہ لاالہ الااللہ کے قائل ہیں اورخدا کی کتاب قرآن اور اس کےرسول محمد صل اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم
الا نبیاء ہیں مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور دوزخ اور بہشت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں اوراہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیاہے اسکو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا ہے اسکو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سےہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے ہم اسکو سمجھیں یا اسکے بھیدکوسمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن مُوحد مسلم ہیں-
(نور الحق جزء اول ص5) کوئی بھی ذی ہوش انسان جو تقوی اور انصاف سے کام لے اور قرآن و حدیث کاعلم رکھتا ہو وہ کبھی بھی ان عقا ئد پر قائم جماعت کوغیرمسلم قرار نہیں دے سکتا
0 comments:
Post a Comment