دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا کر
آر۔ ایس بھٹی
پچھلے دنوں پی ٹی آئی کےایم پی اے نذیر چوہان کے خلاف وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اکاونٹیبلٹی نے مقدمہ درج کروایا ہے جس میں انھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نذیر چوہان نے مجھے قادیانی کہہ کر میری زندگی داو پر لگا دی ہے ۔
اس مقدمہ کے بعد بھی کیا کسی کے ذہن میں یہ شک رہ جاتا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کی زندگیاں کس قدر خطرے میں ہیں۔ اگر ایک اعلی حکومتی عہدیدار کی زندگی کو محض اس بنا ء پر خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کہ اس پر احمدی ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے، تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں موجود عام احمدی کی زندگی کس قدر خطرے میں ہے لیکن آفرین ہے ان حکومتی وزیروں اور مشیروں پر جو احمدیوں کے خلاف ان تمام خطرات کو محض" پروپیگنڈا" قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں یہ روایت برسوں چلی آ رہی ہے کہ
جب کوئی ایمانداری سے کام کر رہا ہو تو اسے ----> قادیانی کہہ دو
جب کسی کو راستے سے ہٹانا ہو تو اسے ----> قادیانی کہہ دو
جب بھی کسی سے اختلاف رائے ہو تو اسے ----> قادیانی کہہ دو
لیکن ایسا غالبا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی شخص اس الزام کو لے کر عدالت جا پہنچا ہو۔ شہزاد اکبر کے اس مقدمے نے ان تمام حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی کہ پاکستان اقلیتوں کے لئیے ایک محفوظ ملک ہے اور حکومت کے اپنے ہی مشیر نے اسے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ گویا اس گھر کو اس کے اپنے ہی چراغ نے آگ لگا دی۔

اس کے بعد حکومت کے مشیر برائے مذہبی امور کا جو بیان سامنے آیا وہ بھی انتہائی شرمناک ہے جس میں انھوں نے کمال ڈھٹائی سے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب شہزاد اکبر نے یہ وضاحت دے دی ہے کہ وہ قادیانی نہیں ہیں تو ان کی وضاحت کو قبول کرنا چاہیئے اور الزام لگانے والوں کو معذرت کرنی چاہیئے۔ علامہ طاہر اشرفی کے اس بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کو اس بات کی ذرا سی بھی پرواہ نہیں ہے کہ پاکستان میں موجود احمدیوں کی زندگی کو کیا خطرات ہیں ؟ ان کی کل دلچسپی محض اس بات میں ہے کہ کسی طرح شہزاد اکبر کو غیر قادیانی ثابت کیا جا سکے اور ان کی زندگی کو لاحق خطرات دور کئیے جا سکیں۔ یہ علامہ، وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے مذہبی امور ہیں ، لیکن خدا معلوم یہ کون سے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جس میں ایک عام شہری کی زندگی کی کوڑی کی بھی قدر نہیں
پاکستانی معاشرہ بہت سے تضادات کا شکار ہے مثلا لوگ ملاؤں کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ ان کے پیچھے نمازیں پڑھنا اور ان کے پاس اپنے بچوں کو دین کا علم سیکھنے کے لئیے بھیجنا اور ان کے اشاروں پرکسی دوسرے مسلک یا مذہب کے لوگوں پر ظلم کرنا عین عبادت گردانتے ہیں
ہمسایہ ملک کی فلمیں، ڈرامے دیکھنا جائز سمجھتے ہیں لیکن ان کے پیاز، ٹماٹر حرام جانتے ہیں
مغربی معاشرے کو تو کسی صورت برداشت نہیں کرتے مگر مغربی ممالک کے ویزے لگوانے کے لیئے لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا ان کی زندگی کا نصب العین ہے
انھی تضادات کی لمبی فہرست میں ایک اضافہ پچھلے کچھ عرصے میں ہوا ہے کہ متواتر اقلیتوں کا استحصال کرو اور متواتر اقلیتوں کے محفوظ ہونے کا راگ الاپتے رہو۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں رہنے والے سبھی لوگوں کے دل اور دماغ میں درست اور غلط کا موازنہ کرنے کا احساس ختم ہو چکا ہے کیا واقعی ان میں کوئی رجل رشید باقی نہیں رہا۔ ان کے معیار دوسروں کے لئے اور خود کے لئے اس قدر مختلف کیوں ہیں ؟
اور جناب کہاں ہیں شاہ محمود قریشی ؟ جنھوں نے جرمنی میں احمدیوں سے متعلق سوال پر سینہ تان کر کہا تھا کہ یہ سب پراپیگنڈہ ہے۔ انھیں چاہیئے تھا کہ وہ شہزاد اکبر کو بھئ سمجھاتے کہ احمدی پاکستان میں بالکل محفوظ ہیں اور یہ سب پراپیگنڈہ ہے، اور یہ کہ اگر انھیں کسی نے قادیانی کہہ بھی دیا ہے تو اس سے انکی جان کو قطعا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ اپنی پر اثر تقریر شہزاد اکبر کے سامنے بھی کرتے تو یقینا اس مقدمے کی نوبت نہ آتی اور حکومت کی اپنی ہی صفوں میں موجود یہ اختلاف کھل کر یوں سامنے نہ آتا
لیکن اسے آپ قدرت کی ستم ظریفی کہہ لیں کہ حقائق نہ چاہتے ہوئے بھی سامنے آ جاتے ہیں اور وقت کی گردش ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سچائی کو سامنے لے کر آ جاتی ہے اور محفوظ اقلیتوں کے دعووں کی حقیقت خود حکومت کے اپنے ہی وزیروں مشیروں کے بیانات سے کھلتی جاتی ہے اسی لئیے کسی نے کیا خوب کہا ہے
اتنی نہ بڑھا پا کئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا کر
Very nice and very realistic article showing the real and dirty face of Pakistani Politics. Always use religious card in History of Pakistan. From Bhutto to Zia ul Haq, Benazir or Zardari and form Nawaz Sharif to Imran Khan and going on------
ReplyDelete