Saturday, July 17, 2021

مجھے خوف آتش گل سے ہے۔۔۔۔

                                                        مجھے خوف آتش گل سے ہے۔۔۔

     ( آر- ایس-بھٹی)                                                                                                                   
بھاگتی دوڑتی زندگی کے آگے اچانک کرونا سپیڈ بریکرکے آجانے سے اس کی رفتار کچھ آہستہ ہو گئی۔  کہتے ہیں کہ کرونا کی وبا نے ملکی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب کئے ہیں، اور یہ بات درست بھی ہے کیونکہ بہت بڑی تعداد میں کاروبار زندگی کو تالا پڑ گیا
لیکن کروناکو آئے تو ابھی ایک سال ہوا ہے، کیا اس سے پہلے ہماری معیشت چھلانگیں لگاتی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی؟ ایسا نہیں ہے،  یقینا اور بھی بہت سے کرونا ہیں جو پچھلے چالیس، پچاس سالوں سے پاکستان کی معیشت کو چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ بڑے بڑے شاہانہ اخراجات کرنے والی پاکستان کی ایلیٹ کمیونیٹی کی اولادیں،  جن میں سے ہر کوئی خود کو نواب ابن نواب ثابت کرنے کی سر توڑ کوششیں کر تا رہتا ہے۔ لیکن پاکستان بننے کہ وقت پر جو  اصل نواب پاکستان آئے انھوں نے اپنے سرمائے پاکستان کے لئیے وقف کیے اور کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا،  اور نہ ہی پاکستان کے خزانے کی مدد کے لئیے دی گئی رقوم کی واپسی کے لئیے کوئی شرط رکھی اور نہ ہی  اپنی دولت کو ملک کے مفاد پر فوقیت دی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان، نواب آف بہاولپور،  سرآغا خان۔ ان میں سےچند نام ہیں لیکن اس کے بعد کی نسل نے جونک کی طرح ملک کو چوسنا شروع کیا، اور ملکی دولت کو ملک سے باہر بھیجنااور اس کو ذاتی دولت سمجھنا شروع کردیا 

 پچھلے ماہ پاکستان نے 2021۔22 کا بجٹ آٹھ ہزار چارسو 87 ارب روپے کا پیش کیا ہے، جس میں سے خسارہ چار ہزار ارب روپے ہے، یعنی آمدنی سے قریبا دوگنے اخراجات ہیں-اس میں دفاعی بجٹ ایک ہزار 37 سو ارب روپے کا ہے یعنی کل بجٹ کا آٹھواں حصہ اور گزشتہ سال سے چھ فیصد زیادہ ہے جو کہ یقینا ایک بہت بڑا تناسب ہے


اگر ہم پاکستان کے شروع کے چند سالوں کے بجٹ پر ایک نظر ڈالیں تو انتہائی مشکل حالات کے باوجود بھی اس دور کے بجٹ آج کل کے بجٹوں کی نسبت حوصلہ افزا ہیں-  لیاقت علی خان نے پہلا مالی بجٹ 1948 -49   کا پیش کیا تھا ۔ اگر چہ اس وقت مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان کا  پہلابجٹ(1) 10 کروڑ خسارے کے ساتھ  پیش کیا گیا تھا، مگر اس کے بعد 1953-54 کے بجٹ کے علاوہ مالی سال 1969-70 تک تمام بجٹ خسارے کے نہیں بلکہ بچت کے بجٹ تھے۔

اس کے بعد صدر جنرل یحییٰ خان کے دور میں مالی سال1970-71  اور 1971-72کے لئے خسارے کے بجٹ پیش کئے گئے۔ 16 دسمبر 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو خاصا نقصان پہنچا، لیکن جون 1972 تک مالی سال ختم ہوا تو بھٹو حکومت نے پہلا بجٹ پیش کیا۔ یہ مالی سال 1972-73 کا وفاقی بجٹ اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں تبدیل ہونے کے بعد پہلا بجٹ تھا، (2) لیکن حیرت انگیز طور پر یہ خسارے کا بجٹ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ملکی خزانہ بالکل خالی تھا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی صرف چار مہینوں کی رقم تھی۔

 اس کے بعد متواتر 13 سال تک خسارے کے بجٹ آئے۔ غالبا اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ پاکستان کے ایک بہت مایا ناز ماہر اقتصادیات  جناب ایم ایم احمد صاحب  پر 1971 میں احمدی ہونے کی وجہ سے قاتلانہ حملہ ہوا ،جس کے کچھ عرصہ کے بعد انھوں نے پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا -ایم ایم احمد صاحب کا نام پاکستان کی معیشت  میں بہت نمایاں نام تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان سے لے کر  ہر مشکل وقت میں  ملک کی رہنمائی کی۔ اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک کہ اسلم قریشی نامی ایک شخص نے  ان پر قاتلانہ حملہ  کیا، یہ حملہ ان کے خلاف  چلائی  گئی ایک منظم نفرت انگیز مہم کاحصہ تھا  ،  اس کے  کچھ عرصہ  کے بعد  انھوں نے پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا 

 اس کے بعد ضیاءالحق کے دور میں جونیجو حکومت  کے لیے  مالی سال 1986-87 کے لئے بجٹ معروف ماہر اقتصادیات   ڈاکٹر محبوب الحق نے بنایا، (3) یہ خسارے کے بجائے 47 کروڑ کی بچت کا بجٹ تھا۔ اور  13 سال کے بعد بغیر خسارے کا بجٹ تھا- جو کہ جونیجو حکومت کا آخری بجٹ ثابت ہوا- اوراب تک کا بغیر خسارے کے  یہ آخری بجٹ ہے۔ اس کے بعد  آج تک اگلے 32سالوں میں خسارے سے پاک کوئی بجٹ نہیں آ سکا(گویا  یہ غلطی  کسی نے نہیں دہرائی 
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کی معیشت کےلئیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں انھیں باقاعدہ منصوبہ کے تحت ان معاملات سے دور رکھا جاتا ہے۔ 

ہمارے موجودہ نظام میں حکومت کے جو تین ستون ہیں ان کے اخراجات کو کم کرنے کی کبھی بات نہیں کی جاتی، صرف دفاعی بجٹ پچھلے سال سے 6 فیصد زیادہ ہے،  اس کے علاوہ وزیراعظم ہاوس کے اخراجات،  پریذیڈنسی کے اخراجات،  مسلح افواج کے افسران کے مراعات ، بیوروکریسی ، اور جناب عدلیہ کا تو ذکر بھی توہین کے زمرے میں آجائے گا
 اس کے علاوہ عوام ہر پانچ سال کے بعد ایم این اے اور ایم پی اے کی ایک فوج منتخب کر کے  اسمبلی میں بھیجتے ہیں تاکہ ان تمام مسائل کو حل کیا جا سکے، لیکن  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مسا ئل کو حل کرنے کی بجائے  یہ لوگ ان مسائل میں اضا فہ کا باعث  بن رہے ہوتے ہیں - کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کا ایک ایم این اے ہمیں سالانہ کتنے میں پڑتا ہے۔

ایک ایم این اے کی ماہانہ  الاونسز 2016ء میں کی گئی ترمیم کے مطابق کم از کم  4،70،000    روپے ہوں گے 
ماہانہ تنخواہ 2،00،000*  
 ٹرانسپورٹ 50،000 *
  حلقے کے لئیے 70،000 روپے   *
100000   مینٹیننس      
3،00،000   سفر کے لئیے سالانہ الاونس 
   آئی ٹی الاونس 300000
، ٹرین کے اے۔سی فرسٹ کلاس میں لامحدود مفت سفر  *
 ،اس کے علاوہ کسی بھی گورنمنٹ ہاسٹل میں مفت رہنے کی سہولت* 
،گھر کے لئیے بجلی  مفت* 
  اس کے ساتھ گاڑی ، پٹرول، ڈرائیور،پی اے، ملازم وغیرہ ،  اسمبلی کے اجلاس کے دوران  الاونس بھی الگ سے ملتے ہیں
اس طرح ایک سال کی  قومی اسمبلی  کے ممبران کی تنخواہ  2 ارب روپے تک جاتی ہے
 یعنی دس ارب  روپے صرف قومی اسمبلی کے ممبران کی مراعات کی نظر ہو جاتاہے ۔ یہ صرف قومی اسمبلی کے ممبران کے اخراجات ہیں  -اس میں ایک سو سینٹرز،  65 بلوچستان اسمبلی، 168 سندھ اسمبلی، 145 کے پی اسمبلی، 371 پنجاب اسمبلی،--- ( کل 749) ایم پی اے یعنی کل 1091 افراد
 یہ وہ ایک ہزار لوگ ہیں جنھیں ہم ملک کے خزانوں کی کنجیاں سونپ دیتے ہیں اس کے بعد اگر یہ ۔۔..۔ چہرے بنا کر ملکی معیشت کی تباہی کی کہانی سنائیں تو اس کے ذمہ دار یہ خود ہیں -جبکہ ان کے اپنے رہن سہن اور جائیدادوں میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی کبھی کسی سیاستدان نے ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لئیے اپنے سرمائے ملکی خزانے میں جمع کروائے ہیں 

 پھر حکومت کا  دوسرا ستون؛ جو کہ دوسرا بھی ہے اور پہلا بھی کیونکہ افواج پاکستان نے نہ  صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائی بلکہ بوقت ضرورت ملک کی باگ دوڑ بھی سنبھالی ۔ اس لئیے یہ نہ صرف ملکی خزانے میں سے اپنا وافر حصہ وصولتے رہے ہیں بلکہ قریبا تیس سال سے زائد ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بھی رہے ہیں اور ملکی معیشت کی تباہی میں سیاستدانوں کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں -ان دونوں شعبوں کو کبھی بھی پاکستان کی معیشت کی موجودہ حالت سے بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم حیران ہوتے ہیں ان لوگوں پر جو سیاستدانوں کی خاطر فوج کو برا بھلا کہتے ہیں اور فوج کی طرف داری کرتے ہوئے سیاستدانوں کو برا کہتے ہیں۔۔۔۔ 
 ان تمام اعداد و شمار میں عدلیہ کو دی گئی مراعات، بیورو کریسی کے ٹھاٹھ باٹھ کے اخراجات، اعلی عہدوں پر فائز حکومتی افسران، مشیران اور  وزرائےمملکت  کو دی گئی آسائشیں شامل نہیں ہیں- یہاں یہ بتانا مقصود ہر گز نہیں ہے کہ ایک  ایم این اے ، سیکرٹری ، جج، فوج کے افسر کو کیاکیا مراعات ملتی ہیں اصل چیز یہ ہے کہ اسکے بعد بھی یہ تمام لوگ کرپشن کرتے ہیں اور ملک کی دولت لوٹتے ہیں  یہ تو وہ تمام مراعات ہیں جو قانونی طور پر ان لوگوں کوحاصل ہیں.
کسی ملک کی بہتر معاشی صورتحال اور اقتصادی استحکام کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے پاسپورٹ کی دوسرے ممالک کے پاسپورٹ کے مقابلے میں کونسا نمبر ہے اور پاکستانی پاسپورٹ اس فہرست میں نیچے سے چوتھے نمبر پر ہے۔ یہاں کسی بھی صاحب اقتدار اور صاحب اختیار کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کوئی بڑی بات نہیں- اسلئے ان تمام اعدادوشمار اور شاہانہ اخراجات کے بعد  ملک کی خراب معاشی صورتحال کا   بوجھ  محض کرونا وائرس پر نہیں ڈالا جاسکتا
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں 
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے 
       
سوال:       اگر آپ کے گھر کے اخراجات آپ کی آمدنی سے دوگنا ہو جائیں تو آپ کیا کریں گے؟ 
        ----------------------------------------------------              

1-لیاقت علی خان نے پہلا مالی    بجٹ 1948 -49    کا پیش کیا تھا ۔ اس وقت مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان کے بجٹ کا حجم 89 کروڑ 57 لاکھ تھا جبکہ آمدنی 79 کروڑ 57 لاکھ    

 
2 -اس کا حجم 8 ارب 96 کروڑ64 لاکھ تھا

3-جس کا حجم 1 کھرب 52 ارب21 کروڑ تھا۔ اس بجٹ میں آمدنی1 کھرب52 ارب89 کروڑ تھی 


https://www.passportindex.org/byRank.php







0 comments:

Post a Comment