Thursday, March 17, 2022

IslamicVeil


 اسلامی پردہ

آر-ایس۔بھٹی
اگر آپ  ایک خاتون ہیں اور سکارف لیتی ہیں اور کسی مغربی ملک میں رہتی ہیں تو آپ کو کبھی نہ کبھی اپنے سکارف/ نقاب/ حجاب کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑاہوگا۔ پچھلے چند سالوں میں مغربی ممالک میں مسلمان خواتین کے حجاب کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ( یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف مسلمان خواتین کا سر ڈھانپنا ہی زیر بحث آتا ہے کیونکہ اگر مسئلہ صرف سر ڈھانپنا ہو تو سر تو عیسائی راہبائیں بھی ڈھانپتی ہیں لیکن ان کے سرڈھانپنے پر کبھی سوال نہیں اٹھا) اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسلامی پردے سے سیکیورٹی خطرات ہو سکتے ہیں اور دہشتگردی کی ممکنہ روک تھام کے لئے یہ اقدام اٹھایا جانا ضروری ہے
کیا واقعی حجاب  سے سیکیورٹی خطرات ہیں؟ کیا واقعی کبھی کوئی نقاب پوش خاتون کسی مغربی ملک میں اپنے پردے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد کاروائی کا حصہ بنی؟

اگر ہم اس بارے میں تحقیق کریں تو ہمیں مغربی دنیا میں ایسا کوئی واقعہ ماضی قریب میں نہیں ملتا،جن کی وجہ سے ان ممالک میں خاص طور پر حجاب کو نشانہ بنایا گیا۔ ان  ممالک میں فرانس سرفہرست ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں 5 ملین مسلمان آباد ہیں 




یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں کہ چہرے کو  چھپانے  سے سیکیورٹی خطرات ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں نے بھی چہرے چھپا رکھے تھے مگر جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔بہت سے علاقے جو دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے وہاں بھی کافی حد تک سکون رہا اور کسی نے بھی چہرہ چھپانے کا کوئی منفی اثر معاشرے پر ہوتا نہیں دیکھا۔ بلکہ بعض لوگ تو اس نئے تجربے سے بہت محظوظ ہوئے
 
کیمبرج یونیورسٹی نے کووڈ کی وجہ سے جرائم کی شرح پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے دنیا کے تیئس ممالک کے ستائیس شہروں میں ایک ریسرچ کی۔ یہ 23 ممالک یورپ، امریکا، ایشیا اور مشرق وسطی سے ہیں اس تحقیق کے مطابق کووڈ وبا کے دوران جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی رہی۔ اور عمومی طور پر ان تمام شہروں میں 37 فیصد تک پولیس کے ریکارڈ میں آنے والے جرائم میں کمی ہوئی۔ جس میں جسمانی تشدد میں 35 فیصد ، چوری ڈکیتی میں 46 فیصد اور جیب تراشنے کے واقعات میں 47 فیصد تک  کمی ہوئی۔ 

اس تمام تمہید سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلامی پردہ کا جرائم کے ساتھ کبھی بھی براہ راست تعلق نہیں رہا اور ویسے بھی جہاں تک جرائم کی شرح کا تعلق ہے مردوں میں جرائم کرنے کی شرح خواتین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جبکہ مرد تو پردہ کرتے ہی نہیں ہیں۔ 
پھر اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مغربی ممالک میں بسنے والی مسلمان خواتین کی اکثریت محض سر ڈھانپتی ہیں اور چہرہ کھلا رکھتی ہیں اور ایسی صورت میں تو یہ سیکیورٹی خطرات والی بات بالکل بے کار ہو جاتی ہے کیونکہ ان ممالک میں سر کو تو لوگ موسم کی شدت کی وجہ سے بھی ڈھانپتے ہیں 

ایک اور وجہ جو حجاب پر پابندی لگانے کی بتائی جاتی ہے وہ یہ کہ مرد و خواتین کو ایک ہی طرح کا نظر آنا چاہیئے اس سے معاشرے میں مساوات اور مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ تو ایسی خواہش ہے کہ کوئی بھی عقلمند انسان اس خواہش پر اپنا سر پکڑ کے بیٹھ جائے۔ کیا اگر مسلمان خواتین حجاب اتار دیں تو مرد اور خواتین ایک ہی طرح کے دکھائی دینے لگیں گے؟ کیا مرد سکرٹ پہننا اور میک اپ کرنا شروع کردیں گے؟ اور کیا کوئی خاتون یہ پسند کرئے گی کہ وہ مردوں کی طرح دکھائی دے؟ 
یقینا نہیں۔ 
اس لئیے یہ تمام جواز حجاب کے خلاف محض ایک پروپیگنڈا کے سوا اور کچھ نہیں۔ جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حجاب یا پردہ ہمیشہ سے انسانوں کے مہذب معاشروں کا حصہ رہا ہے اور عزت اور تکریم کی خاطر استعمال ہوا ہے آج تک شاہی خاندان میں بھی شادی بیاہ کے موقع پر دلہن اپنے چہرے پر  ایک جالی ڈالتی ہے جو کہ پردے کی ہی تبدیل شدہ شکل ہے 

 مذاہب کی تاریخ میں پردے کا تصور ہمیشہ ہی سے موجود رہا ہے اور اسلام نے یہ تصور پہلی مرتبہ پیش نہیں کیا ۔حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابتدائی مذہبی تعلیم  ہے ان کی تعلیمات کے چند نکات جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں 

( 119- طہ)     

گویا کہ خداتعالی کی طرف سے جو پہلی تعلیم انسان کو دی گئی اس میں جسم کو ڈھانپنے کی ہدایت تھی۔ اس سے پہلے انسانوں میں لباس کا تصور بھی غالبا نہیں تھا اور جیسا کہ انسانی دستور ہے کہ جب بھی کوئی نبی تعلیم لے کر آیا آغاز میں لوگوں کی اکثریت کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی رہی۔ اور پھر رفتہ رفتہ انسان اسی تعلیم کی خوبصورتی اور ضرورت کا قائل ہوتا گیا۔ موجودہ دور میں انسانوں نے بڑی تیزی کے ساتھ انبیاء کی مخالفت اور مذہب کی ضرورت سے انکار کا رویہ اختیار کیا ہے اور ان کی تعلیمات کو فرسودہ قرار دے کر جدت پسندی کے نام پر نئے اصول و ضوابط وضع کیے اور اخلاقیات کے بھی نئے پیمانے متعارف کروانے شروع کر دیئے ہیں اور شاید اسی لئے اس پہلی شرعی تعلیم کے غیر ضروری ہونا ثابت کرنے کے لیے لباس کی ضرورت کے بھی انکاری ہیں 

لیکن مسئلہ اس وقت شدید صورت اختیار کرجاتا ہے جب ایک انسان اپنی سوچ کو دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش کرئے۔ کوئی شخص اگر لباس یا مناسب لباس کو غیر ضروری سمجھے، تو سمجھ سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں دوسروں کو بھی مجبور کرئے کہ وہ بھی اس کی سوچ کے مطابق عمل کریں اس سے معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے 

درحقیقت پردے کے خلاف پروپیگنڈا نہ ہی حفاظتی اقدامات کا حصہ ہے اور نہ ہی اس سے معاشرے میں مساوات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ یہ محض ایک مہذب معاشرے کے سنہری اصولوں کو بے آبرو کرنے کی کوشش ہے

ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر چہرےکا چھپانا خطرے کی علامت ہے تو پھر ان سب پلاسٹک سرجریز کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو آجکل عام ہیں اور جس سے لوگ مکمل طور پر اپنے چہرے کے نقوش تبدیل کر لیتے ہیں کیا یہ بات معاشرے میں سیکیورٹی خطرات کا باعث نہیں۔ 

______________________


https://www.cam.ac.uk/stories/COVIDcrime







0 comments:

Post a Comment