عمران خان
کچھ ماضی کے جھروکوں سے
آر۔ایس۔بھٹی
کچھ دن پہلے ایک تھریڈ نظر سے گزرا جس میں راجہ شہریار صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان صاحب کی تمام زندگی ہمارے سامنے ہے وہ ہمارے سامنے لیجنڈ بنے ہیں اس پر خیال آیا کہ
بات تو سچ ہے مگر ۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب کی کچھ یادیں ماضی کے جھروکوں سے ہمارے پاس بھی ہیں ۔ سوچا سب کے ساتھ شیئر کرنی چاہیئں۔ یہ یادیں ان احمدی بھائیوں کے لیے بھی تسلی کا باعث ہوں گی جو عمران خان کی گزشتہ تقریر پر بہت حیران ہیں جو انہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی، بھٹو کی آئینی ترمیم کے حق میں کی ہے ۔
عمران خان کی شخصیت، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہونا اور مغربی حسیناوں کے ساتھ ان کے گزشتہ افسانوں کی وجہ سے عام طور ہر لوگ انھیں لبرل سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہےکہ سیاست میں ان کا تمام کیریئر آغاز سے ہی پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور سیاست انھوں نے ہمیشہ مذہبی جماعتوں کی گود میں بیٹھ کر ہی ہے۔اور ہمیشہ ہی مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
آغاز ہی سے وہ قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کے ساتھ اجتماعات، تقاریر اور پریس کانفرنس کیا کرتے تھے۔ اس وقت 2014ء کی عمران خان اور سراج الحق صاحب کی ایک خبر، تصویر کے ساتھ میرے سامنے ہے جس کا عنوان ہے "خان کی حق سے ملاقات، کہا پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی قدرتی حلیف ہیں"۔ ہمیں اس میں کچھ اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اور یہ بہت دلچسپ یاد، تصویر کی صورت میں۔۔۔ جس میں وہ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کے ساتھ ہاتھ ہوا میں بلند کر کے اتحاد کا نشان بنا رہے ہیں یہ 23 مارچ 2005ء کی تصویر ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے "گوگل" سے حافظہ اس کا
یہ سیاست بھی عجیب چیز ہے آج کے دشمن کل کے دوست اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔
پھر 2013ء کی عمران خان کی انتخابی مہم کسے یاد نہیں، جب عمران خان سٹیج پر پہنچنے کے لئے لفٹر سے گر کر زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے دو دن پہلے انہوں نے جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے بارے میں کچھ نازیبا باتیں کی تھیں۔
اس کے بعد عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا جو 2014 ء میں ہوا اس کے لئیے قادری صاحب خاص طور پر کینیڈا سے تشریف لائے تھے اور یہ دھرنا دو ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہا
اور یہ آخری تصویر تو بلا عنوان ہے
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا
جی ہاں! بالکل عمران خان ہمارے سامنے ہی لیڈر بنے اور ان کا ماضی ہمارے سامنے ہے بعض لطیفے ایسے ہی یاد آجاتے ہیں
ایک مرتبہ گاؤں کے چوہدری کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں ایک شخص پر الزام تھا کہ سید نہیں ہے بلکہ بنا ہوا ہے۔ چوہدری صاحب نے گاؤں کے ایک پرانے بوڑھے شخص کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس شخص کے بارے میں تم کیا جانتے ہو کیا یہ واقعی سید ہے یا بنا ہوا ہے؟ اس بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ کسی اور کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن اس کے بارے میں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ واقعی سید ہے کیونکہ یہ میرے سامنے سید بنا ہے، اس کو سید بنتے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔
0 comments:
Post a Comment