Friday, May 20, 2022

Freedom of speech

آزادئ اظہار 

یا مادر پدر آزادی

 آزادئ اظہار ان چند بنیادی حقوق میں سے ہے جو انسانوں نے لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد حاصل کیے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات قابل فکر ہے کہ اگر یہ آزادئ اظہار اسلام یا بانئ اسلام  (حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم) یا مسلمانوں کے خلاف ہو تو پھر تو یقینا یہ آزادئ اظہار ہی شمار ہوتا ہے لیکن اگر یہ کسی دنیاوی حکومت کے خلاف ہو تو ایسی نفرت انگیز مواد کو وسیع تر قومی مفاد کےتحت نہ صرف ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کاروائی بھی کی جاسکتی ہے

یہاں ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حکومتوں کے خلاف مواد کوچھاپنے اور ان کی تشہیر کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔ بلکہ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر مذہب کے روحانی پیشواؤں کے احترام کے لئے بھی ایسے ہی اعلی معیار قائم کئے جانے چاہئیں 

اللہ تعالی نے قرآن کریم کو انسان کی ہدایت کا سرچشمہ بنایا ہے اور اس کے ذریعے سے ہمیں روزمرہ کے معاملات میں بھی رہنمائی ملتی ہے ۔ سر عام بری بات کہنے کے بارے میں اللہ تعالی نے ایک اصول قرآن میں بیان فرمایا ہے 

اس آیت میں واضح طور پر کسی دوسرے کے خلاف نا پسندیدہ بات کہنے کی ممانعت کی گئی ہے مگر جس شخص پر ظلم ہوا ہے تو وہ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے 
اسی طرح سورہ الحجرات میں آتا ہے


ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں  (متفق علیہ )

یہی نہیں بلکہ دوسروں کےمذہبی عقائد کے اسقدر احترام کا حکم ہے کہ ان کے بتوں کو برا کہنے سے بھی منع فرمایا ہے تاکہ نہ صرف ان کی دل آزاری نہ ہو بلکہ اس سے معاشرے کا امن بھی قائم رہے

زبان ایک ایسی چیز ہے جس سے دوست دشمن بن سکتا ہے اور دشمن دوست بن سکتا ہے۔ اگر ہم خانگی معاملات میں ہونیوالی ناچاقیوں کو دیکھیں تو اس میں بھی زبان کا بہت عمل دخل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو صرف بات ہی کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف بات ہی گھر بسا بھی سکتی ہے اور گھر برباد بھی کر سکتی ہے

یہی رویہ معاشرے کی بے سکونی کی وجہ بھی بن جاتا ہے اگر ایک مذہب، نسل، رنگ کے لوگ دوسرے کے بارے میں برے بیانات دیں گے تو اس سے لازماً معاشرے کا امن و سکون برباد ہو گا

 اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آزادئ اظہار کے حق کا استعمال اپنے ساتھ بہت اہم ذمہ داریاں رکھتا ہے جن کا تعین کیا جانا چاہئے۔ کسی بھی شخص کے پاس آزادی رائے کا حق کسی بھی دوسرے شخص کو بد نام کرنے کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی مذہبی پیشواؤں اور مذہبی عقائد کی توہین کی اجازت دیتا ہے۔ 

معاشرے کے امن و سکون کے لیے معاشرتی اقدار کو اعتدال میں رکھنا ضروری ہے۔ایک منصف اور غیر جانبدار حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف نفرت انگیز اور شدت پسند تقاریر پر پابندی لگائیں، بلکہ پر امن اختلاف رائے اور آزادئ اظہار کی حوصلہ افزائی کریں لیکن یہ سب کچھ با مقصد ہونا چاہیے۔ بعض ملکوں میں کوئی ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے جہاں جاکر آپ با آواز بلند تقریر کر سکتے ہیں اور کسی بھی دوسرے کے خلاف کچھ بھی کہہ سکتے ہیں 

لیکن کیا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں؟ یا کسی ظالم کے خلاف تقریر کر لینے سے مظلوم کو انصاف مل سکتاہے؟ 

یقینا نہیں! اس لیے انصاف کی فراہمی کے لیے اور آزادئ اظہار کے حق کے مناسب استعمال کے لئے حکومتوں کو ٹھوس اور بامقصد  اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے 












0 comments:

Post a Comment