زبان کی ابتداء
(شائع شدہ الفضل انٹرنیشل 20/ستمبر 2013)
بچہ کی غوں غاں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ زبان کس طرح وجود میں آئی- بچہ عام طور پر جو پہلا لفظ بولتا ہے وہ چار لفظوں کے اس پیٹرن سے بنتا ہے جو کہ تمام دنیا کے بچوں میں مشترک ہے وہ چار لفظ یہ ہیں: ما-ما، با-با، دا-دا، نا-نا
سائنسدان لمبے عرصہ سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ آخر انسان نے زبان کیسے سیکھی- چندسال پہلے 2001-2000 میں سائنسدانوں نے ایک جین دریافت کیا جو کہ بولنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتا ہے (FOXP2) اسے کا نام دیا گیا ان انکاخیال ہے کہ یہ ان بہت سے جینز میں سے ایک جو انسان میں بولنے کی صلاحیت کے ذمہ دار ہیں-اس جینزمیں تبدیلی ہونے کی صورت میں انسان کی بولنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زبان انسانوں اور جانوروں میں ایک واضح تمیز ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ تمام معاشرتی تعلقات جو انسانوں کے درمیان قائم ہیں وہ غیر یقینی ہو جاتے۔
انسانوں کے جینز یہ تبدیلی قریبا دو لاکھ سال پہلے آنی شروع ہوئی جو کہ ارتقاء کے مراحل میں آگے کی طرف ایک چھلانگ تھی- سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دس سے ایک ہزار تک جینز ہوں گے جو بولنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بعض دوسرے سائنسدانوں کو اس سے اختلاف ہے ان کا خیال ہے کہ یہ جینز بولنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جینز میں ہونیوالی کوئی بھی تبدیلی انسان کے بولنے کی صلاحیت کو مکمل طورپر ختم نہیں کرتی
انسانوں اور بن مانسوں میں فرق
ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسان اپنے کزن بن مانس سے کس طرح مختلف ہے؟ انسان اور بن مانس میں میں 96 فیصد ڈی این اے ایک جیسے ہیں۔ لیکن سوچنے کی خداداد صلاحیت جو انسانوں میں ہے وہ کسی اور جاندار میں نہیں۔ ارتقاء کے مراحل کے دوران یہ ایک واضح ترقی تھی جو انسانوں نے کی۔ اگست 2006ء کی ایک رپورٹ کےمطابق سائنسدانوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے ڈی این اے کا وہ حصہ دریافت کر لیا ہے جو ہمیں بن مانسوں سے جدا کرتا ہے موجود تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انسان اور بن مانس کے ارتقائی درخت ایک دوسرے سے سات ملین سال پہلے جدا ہو گئے
ڈی این اے کا ایک حصہ ایسا ہے جس پر تحقیق کرنے سے سے ہم اس راز کو پا سکتے ہیں کہ بولنے اور سوچنے کی صلاحیت اس عرصے میں کس طرح وجود میں آئی۔ لیکن کیوں وجود میں آئی؟ اس کا جواب بہرحال کسی کے پاس نہیں۔ ڈی این اے کے اس حصے میں تبدیلی کی رفتار ر دوسرے حصوں کے مقابلے میں ستر گناہ زیادہ تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ ارتقاء انسان کے پیچیدہ ذہن کو وجود میں لانے کے لئے ضروری تھا ان جینز کی تلاش کرنا جو انسانی ذہن کو دوسرے جانداروں کےذہن سے ممتاز بناتے ہیں حیاتیات میں ہونے والی جدید تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں جینز کی تلاش ہی مسئلہ کا حل ہے کیونکہ جینز کسی جاندار کا بلیو پرنٹ ہوتے ہیں۔انہوں نے انسانوں، بن مانسوں جو اور چوہوں کے 3 ملین جینز کا موازنہ کیا ہے ہے اور اس کے لیے انہوں پچاس جگہوں کی نشاندہی کی ہے زبان کا الہام ہونا
اللہ تعالی سورۃ الرحمن آیت5 میں فرماتا ہے علمہ البیان ترجمہ اس نے اسے بیان سکھایا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "بعض لوگ اس دھوکے میں پڑے ہیں کہ بولی انسان کی ایجاد ہے۔۔۔ ماسوا اس کے یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ہر یک بولی انسان کی ہی ایجاد ہے بلکہ باکمال تحقیق ثابت ہے کہ موجد اور خالق انسان کی بولیوں کا وہی خدائے قادر مطلق ہے جس نے اپنی قدرت کاملہ سے انسان کو پیدا کیا اور اس کو اسی غرض سے زبان عطا فرمائی کہ تاوہ کلام کرنے پر قادر ہو سکے اگر بولی انسان کی ایجاد ہوتی تو اس صورت میں کسی بچہ نوزائیدہ کو تعلیم کی کچھ بھی حاجت نہ ہوتی بلکہ بالغ ہو کر آپ ہی کوئی بولی ایجاد کر لیتا۔ لیکن بہ بداہت عقل ظاہر ہے کہ اگر کسی بچے کو بولی نہ سکھائی جائے تو وہ کچھ بول نہیں سکتا اور خواہ تم اس بچے کو یونان کے کسی جنگل میں پرورش کرو۔ یا انگلینڈ کے جزیرہ میں چھوڑ دو خواہ تم اس کو خط استوا کے نیچے لے جاؤ تب بھی وہ بولی سیکھنے کا محتاج ہوگا ااور بغیر سکھائے کے بے زبان رہےگا
براہین احمدیہ جلد چہارم ص (344))
حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سورہ الرحمن آیت 4 اور 5 خلقہ الانسان، علمہ البیان یعنی اس نے انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا کے تحت فرماتے ہیں
بولنے کی قوت کے بارےمیں واضح طور پر دعوی کیا گیا ہے کہ یہ خدا نے انسان پر نازل کی جس سے ایک ناگزیر نتیجہ نکلتاہے کہ پہلی زبان جو انسان نے سیکھی وہ خدا نے خود سکھائی۔ اس کی روشنی میں انسان کی قوت گویائی آئی کا معمہ نا قابل فہم نہیں رہتا جیسا کہ دوسری صورت میں نظر آتا ہے۔ قوت گویائی انسانوں اور دوسرے جانوروں کے درمیان اتنا واضح فرق ڈالتی ہے جو کہ صرف ارتقاء کے اصولوں سے واضح نہیں کیا جا سکتا تاہم ان میں (ارتقاء کے اصولوں) سے بہت سے واضح مزید بہت سے مزید واضح کیے جا سکتے ہیں لہذا قوت گویائی خدائی الہام کے ذریعے اتارا گیا ایک تحفہ ہے
(Revelation, Rationality, Knowledge and Truth- page 295, 296)
*-------------------------------------------*
0 comments:
Post a Comment