Thursday, February 11, 2021

بن بیٹھے خدا بندے Transhumanism

بن بیٹھے خدا بندے
ٹرانس ہیومن ازم

شائع شدہ الفضل انٹرنیشل 10 جنوری (2014))    

(آر۔ایس۔بھٹی)      

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا کیا ہے لیکن ج ایک یہ حضرت انسان ہیں کہ پہلے تو خدا کے وجود کے منکر رہے اور اب پوری کوشش کر رہے ہیں خدا بننے کی

 انسان کی سادہ سی تعریف علم حیاتیات کی رو سے سے یوں ہے کہ اگر آپ کا ڈی این اے ہومو سیپی انز ہے تو آپ انسان ہیں۔ اسی طرح سائنس کے دوسرے مضامین نے انسان کو اس کے معاشرتی اور نفسیاتی رویوں میں تقسیم کیا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان ہونا اس سے بہت زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے. اگر ہم ایک انسان کو آغاز سے بنانا چاہیں تو ہمیں بہت سے مقامات پر انسانیت کی حدود کو پار کرنا ہوگا اسی طرح اگر آپ انسان کے  اعضاء اتارنے شروع کریں تو آپ غیر انسانی رویوں کی دہلیز میں داخل ہوجائیں گے۔ ہمیں دوبارہ سے اسی سوال کا سامنا ہوگا کہ ہم انسان کی تعریف کس طرح کریں؟

  کیا رحم کا جذبہ ہمیں انسان بناتا ہے؟ کیا افزائش نسل کے جذبے سے محروم ہو جانا غیر انسانی رویہ ہے؟    اگر میں اپنے دماغ کو اس طرح تبدیل کر لوں کہ وہ عام معیار سے مختلف طرح کام کرئے تو کیا پھر بھی میں انسان ہی رہوں گا۔؟ اگر میں اپنے جسم کے تمام اعضاء اتار دوں اور اپنے دماغ کو ایک روبوٹ کے ساتھ جوڑ دوں تو کیا پھر بھی میں انسان ہی رہوں گا؟

 یہ سوالات پہلی نظر میں جذبات ابھارنے والے اور غیر فطری دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور بائیو میڈیسن کے بڑھتے ہوئے ملاپ کی وجہ سے اگلی دہائی میں ہمیں ان تمام سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

ٹرانس ہیومن ازم کا اچھوتا خیال پہلی مرتبہ 1960 میں فیوچرلوجی کے ایک پروفیسر ایف ایم۔ 2030  کے ذہن میں آیا۔ یہ صاحب  بھی اپنے نام کی طرح ہی اچھوتے تھے۔ ٹرانس ہیومن ازم  ایک عالمی فکری اور تہذیبی تحریک   ہے جو اس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا کر انسانوں کی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس علم کے ماہرین انسان کی محدود صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے فوائد اور خطرات کا جائزہ لے رہے ہیں ہیں اور ساتھ ہی اس سے متعلق اخلاقی اثرات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ ٹرانس ہیومن ازم میں دونوں قسم کی ٹیکنالوجیز کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ یعنی موجود  ٹیکنالوجی جیسا کہ آئی ٹی اور جینیٹک انجینئرنگ اور مستقبل میں آنے والی ٹیکنالوجی جیسا کہ  نینو ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس۔

 ٹرانس ہیومن ازم کے بعض پر کشش تصورات

 ٹرانس ہیومن ازم کا سب سے سے پرکشش تصور  عمر کو بڑھانے کا  ہے جنیٹک انجینرنگ، نینو ٹیکنالوجی کلوننگ اور دوسری جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہت جلد دائمی زندگی کا حصول ممکن  ہوگا

اسی طرح تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری جسمانی  ذہنی اور نفسیاتی صلاحیتوں کو اس معیار سے بہت بڑھایا جا سکتا ہے جو کہ قدرتی طور پر انسانوں میں پائی جاتی ہے

۔۔۔ ٹرانس کرینیل ڈائریکٹ کرنٹ  کے ذریعے بہت ہی کمزور برقی لہر جو ہمارے دماغ سے گزرے گی، جس سے ہمارے سیکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکتا ہے- یہ ٹیکنالوجی یو ایس آرمی میں استعمال کی جا رہی ہے

ادارے اور تنظیمیں

  • اس وقت دنیا بھر میں بہت سے ادارے اور تنظیمیں ٹرانس ہیومن ازم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ٹرانس ہیومن ازم کی ایک عالمی تنظیم ورلڈ ٹرانس ہیومن ازم کے نام سے 1998 میں قائم ہوئی۔ جس نے 2008 میں اپنا نام تبدیل کر کے  ہیومینٹی پلس رکھ لیا اس تنظیم  کا ایک میگزین ایچ پلس کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ اور  ٹرانس ہیومن ازم کے لئے بھی  عام طور پر ایچ+ سمبل ہی استعمال ہوتا ہے اور یہ ایک سہ ماہی میگزین ہے

 آن لائن ٹرانس ہیومن ازم کی کمیونٹی پہلی مرتبہ 2003 میں وجود میں آئی۔ اس کے علاوہ بہت سے ادارے بھی اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں  ٹرانس ہیومن ازم کی تنظیموں میں آج ہر طرح کے لوگ شامل ہیں جیسے کہ سائنسدان، طلباء، کاروباری حضرات،فنکار، گلوکار، ادیب، موسیقار فلاسفر اور سرکاری ملازمین۔

عیسائیت کا ایک فرقہ مورمن ازم کا نام بھی اس سلسلے میں بہت نمایاں ہے ۔ان کی اپنی ٹرانس ہیومنسٹ کی ایسوسی ایشن پائی جاتی ہے اور ایک ادارے کا قیام بھی زیر غور ہے جو کہ ٹرانس ہیومنسٹ کو تحقیق کی سہولیات فراہم کرے گا

اس ٹیکنالوجی کے بعض اخلاقی معاشرتی اور معاشی پہلو

 کیا موت اور پیدائش کے بغیر معاشرہ اور انسان ترقی اور ارتقا کا عمل جاری رکھ سکیں گے یا یہ سب کچھ انحطاط کا شکار ہوجائے گا؟اسی طرح اگر صرف امراء ہی کو ذہانت، طاقت، ڈرگز اور ٹیکنالوجی پر رسائی ہوگی تو معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کیا ہر شخص کو ذہانت بڑھانے کی دوائیاں میسر ہوں گی؟ 

 ٹرانس ہیومن ازم کا زیادہ مشکل مقصد دماغ کے خیالات پر جو ایک کمپیوٹر پر منتقل ہوں گے، تحقیق کرنا ہے۔ جب ہم کمپیوٹر کے ساتھ زیادہ ذہانت کے ساتھ رابطہ کریں گے تو کیا ہوگا؟ 

اگر ہر شخص 300  آئی کیو اور ڈاکٹریٹ ڈگری ہولڈر ہوگا تو  اس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

 کھیلوں کی دنیا میں ٹرانس ہیومن ازم کا بہت بڑا ہاتھ ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے جسم کا کوئی صحت مند عضو(ہاتھ، بازو، ٹانگ وغیرہ) اتار کر زیاد طاقتور عضاء لگوا لے جو کھیل میں اس کے لئے معاون ثابت ہوں

 آج کے انسان کا حق ہے کہ اسے ٹرانس ہیومن ازم کے بارے میں معلومات ہوں آج کی بہت سی دوسری ٹیکنالوجی کی طرح یہ بھی بہت عجیب علم ہے۔ یہ ایسے بڑے عظیم مشینی حیوان ہوں گے جو کہ سینکڑوں ٹن وزن کھینچ سکیں گے اور انسانوں سے بہت تیز بھاگنے کی صلاحیت رکھیں گے

قوانین

اگر سائنسدان انسانوں کو جانوروں کے ساتھ ملا کر یا ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر ایک نئی نسل سپر ہیومن، ٹرانس ہیومن، پوسٹ ہیومن یا ٹیکنو ہیو من بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ان" انسانوں " کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا مخلوق کی اس جدید قسم کو بھی اسی عدالتی نظام کا سامنا کرنا ہوگا جو انسانوں کے لیے ہے۔  یا ان کے لئے ایک الگ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہوگی؟ کیا ان کا قتل یا ان کو غلام بنانا بھی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ کسی انسان کو؟ یا اس کا جرائم میں شمار نہیں ہوگا۔  مزید یہ کہ اس نئی برینڈڈ نسل سے سرزد ہونے والے جرائم کے لیے کیا قوانین ہوں گے ؟

برطانوی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس امکان کا اظہار کیا گیا ہے کہ شاید 2056 ء   تک روبوٹس کو انسانوں کے برابر حقوق مل جائیں گے۔ یہاں تک کہ ووٹ ڈالنے کا اختیار بھی مل جائے گا اور شاید ان سے ٹیکس بھی وصول کیا جانے لگے۔

  ان تمام سوالات پر سائنس کی دنیا میں بحث و تحقیق جاری ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے ہم ٹرانس ہیومن کو زیر بحث لا رہے ہیں یہ بحث پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جا رہی ہے اور دائمی زندگی کا تصور  ذہانت کی بڑھوتری اور طاقت کا حصول محض آئس برگ کی چوٹی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ فلسفیانہ اور اخلاقی پیچیدگی اس حقیقت کی بنیاد ہے کہ ٹرانس ہیومن ازم محض انسان کا ٹیکنالوجی کے ساتھ ملاپ ہے۔  ٹیکنالوجی جو کہ روزانہ بہت تیزی کے  ساتھ ترقی کر رہی ہے اور نئی زمینیں فتح کر رہی ہے انسان ہمیشہ سے ٹیکنالوجی استعمال کرتا آرہا ہے۔ اوزاروں کو استعمال کرنا اور خیالات کو پیش کرنے کی صلاحیت ہی ہمیں دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے -لیکن معاشرہ کبھی بھی بنیادی طور پر ان اشیاء سے اس قدر متعلق نہیں رہا جیسا کہ اب ہے  مثال کے طور پر ہم نے پچھلے چند سالوں میں دیکھا کہ ہائی سپیڈ موبائل نیٹ ورکس اور صرف چند ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہماری دوسروں کے ساتھ رابطہ کرنے کی صلاحیت بہت بدل گئی ہے۔

 آج جس مقام پر انسان اور معاشرہ موجود ہے یہ بہت آہستگی سے  ترقی کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ جیسا کہ زبان کو ترقی کرنے میں لاکھوں سال لگے اور ہزاروں سال سے لے کر پچھلی صدی تک ہم نے انسان کی عمر کے دورانیے کو دوگنا کیا اور صرف پچھلے ایک سو سال کے دوران اس دورانیے کو ہو اس کو دوبارہ سے منع کیا کیا اور دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو دوبارہ سے دوگنا کیا ۔ اور دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو تواب آ کر ہم نے سمجھنا شروع کیا ہے۔ اور انسان کی جسمانی اور دماغی صلاحیت میں اضافہ ہوتے دیکھا ہے۔ جیسا کہ کھلاڑی اپنی طاقت بڑھا لیتے ہیں۔

اوپر کی بیان کردہ معلومات ٹرانس ہیومن ازم کا صرف ایک مختصر تعارف ہے۔ لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بہت ہی ناخوشگوار چیز  ہے۔ یہ دراصل انسان کو "غیر قدرتی" کرنے کا دوسرا نام ہے کمپیوٹر کے آنے کے بعد  انڈسٹری میں اس قدر ملازمتوں کی کمی واقع ہوئی لیکن مادیت پرستی میں بڑھتی ہوئی اس دنیا میں ہر شخص طاقت ا ور ہمیشگی کا خواہشمند ہے اور شاید اسی لیے ٹرانس ہیومن ازم کے خلاف اٹھنے والی  آوازیں بہت کمزور دکھائی دے رہی ہیں۔ 

دائمی زندگی کے فوائد اور غیرمعمولی انسانی طاقتوں کے علاوہ ٹرانس ٹرا ہیومن ازم میں اس انسانی زندگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات اور اخلاقی انحطاط پر بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ اگر زمین پر رہنے والے انسان اچانک مرنا بند ہو جائیں  تو آبادی کی زیادتی کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی بحران کا سامنا ہوگا۔ یہاں تک کہ مزید افزائش نسل کو بند کر دیا جائے جو کہ بہت سے دوسرے مسائل کا پیش خیمہ ہو سکتا 

لیبارٹری میں تیار ہونے والی اس نسل کے بارے میں یہ چند سوالات اور مسائل ہیں جو اس مضمون میں اکٹھے کیے گئے ہیں تفصیلات میں جانے کا نہ موقع ہے اور نہ ہی تفصیلات ہمارا مقصد اور شاید تفصیلات تک رسائی بھی ہمارے لیے آسان نہ ہو لیکن  خدا تعالی نے تو اس بارے میں اپنا فیصلہ صدیوں پہلے سنا دیا تھا اللہ تعالی سورۃ ا لنساء آیت 120 میں فرماتا ہے

ترجمہ :   اور    میں ضرور ان کو گمراہ کروں گا اور ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور مویشیوں کے      کانوں پر زخم لگائیں گے اور میں ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی تخلیق میں تغیر کردیں گے اور جس نے بھی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا تو یقینا اس نے کھلا کھلا نقصان اٹھایا

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں

 اس آیت کریمہ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے کہ ایک زمانے میں جنیٹک انجینئرنگ ایجاد ہوگی یعنی سائنسدان اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ کہ آج کل ہو رہا ہے چونکہ یہ شیطانی حکم سے ہوگا اس لئے ان کو بہت کھلا کھلا گھاٹا پانے والا بیان کیا گیا ہے اور ان کی سزا جہنم بیان فرمائی گئی ہے مختلف ایجادات کے تعلق میں صرف یہی ایک پیش گوئی ہے جو اپنے ساتھ انزار رکھتی ہے اس کے علاوہ قرآن کریم بکثرت پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے اور کسی پیشگوئی میں انزات نہیں آیا۔ پس جنیٹک انجینئرنگ اسی حد تک جائز ہے  جس حد تک اللہ تعالی کی تخلیق کی حفاظت کے لئے استعمال کی جائے اگر تخلیق تبدیل کرنے کے لئے استعمال کی جائے تو اس سے بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے فی زمانہ سائنسدانوں کا بھی ایک بڑا گروہ جنیٹک انجینئرنگ سے خلق تبدیل کرنے کی مخالفت کرتا ہے

  (قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی)


جہاں تک دائمی زندگی کا تعلق ہے تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا  کل نفس ذائقۃ الموت (الانبیاء، 36 )ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے

مزید فرماتا ہے اینما تکونو یدریککم الموت و لو کنتم فی بروج مشیدہ (النساء، 79ہ) ترجمہ: تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں آ لے گی خواہ تم سخت مضبوط  بنائے ہوئے برجوں میں ہی ہو۔  

 شاید انسان اپنی دانست میں ایسا ہی کوئی مضبوط قلعہ بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے خدا نسل انسانی کی حفاظت فرمائے۔ آمین


☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆






0 comments:

Post a Comment