ALLAH IS THE GREATEST

THERE IS NO GOD BUT ALLAH.

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

ALLAH HO AKBAR الله اکبر

ALLHA IS THE GREATEST.

ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL

LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE

Everthing is created by ALLAH

Nature is always perfect.

ALLAH Knows Everything

No one is powerful then "ALLAH"

LOVE FOR HUMANITY

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

Tuesday, December 20, 2022

Liwa-e-Lajna Imaillah





لوائے لجنہ اماء اللہ

جھنڈا وحدت قومی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر کا مصرعہ ہے کہ

لوائے ما پنہ ہر سعید خواہد بود

یعنی میرے جھنڈے کی پناہ ہر سعید کو حاصل ہوگی

حضرت المصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جب 1939ء میں منصب خلافت پر متمکن ہوئے پچیس سال کا عرصہ مکمل ہونے کو تھا( اورجماعت احمدیہ کو قائم ہوئے بھی پچاس سال ہورہےتھے)، تو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کی تجویز پر جماعت میں اس مبارک موقع کی مناسبت سے خوشی کے اظہار کے لئے مختلف تجاویز پر عملدرآمد کیا گیا۔ ان میں سے ایک لوائے احمدیت بنانے کی تجویز بھی تھی۔ لوائے احمدیت کی تیاری کی تمام تفصیل جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے۔ جلسہ سالانہ 1939ء کےموقع پر پہلی بار جب لوائے احمدیت لہرایا گیا۔ اس کے بعد حضرت المصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لوائے خدام الاحمدیہ ہوا میں بلند کیا۔ اس کے بعد حضور رضی اللہ عنہ لجنہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور دعا کرتے ہوئے لوائے لجنہ اماء اللہ بھی  اپنے دست مبارک سے لہرایا۔ یہ 28/دسمبر 1939ء اور جمعرات کا دن تھا۔

لجنہ اماء اللہ کے جھنڈے کا ایک حصہ تو لوائے احمدیت ہی کا  پرتو  ہے یعنی اس پر ایک  بدر، ایک ہلال، ستارہ، اور بدر اور ہلال کے قریبا درمیان میں مینارہ المسیح ہے(صرف اس فرق کے ساتھ کہ لوائے احمدیت میں بدر پر قرآنی آیت درج ہے جو لوائے لجنہ پر نہیں)۔ اس کے علاوہ جو نقوش لجنہ کے جھنڈے کا حصہ ہیں ان میں دائیں طرف ایک نخلستان ہے جس میں کھجور کے تین درخت موجود ہیں۔ کھجور کے یہ تین درخت تین عظیم خواتین کی نمائندگی کر رہے ہیں یعنی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا،  حضرت  مریم رضی اللہ عنہا اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا ۔ یہ تاریخ عالم کی وہ عظیم خواتین ہیں جن کی گودوں میں عظیم نبیوں نے پرورش پائی۔ 

 جماعت کے لٹریچر میں جھنڈے پر موجود نقوش میں صرف انھی کی تفصیل مل سکی  ہے۔ البتہ قرآن اور اسلامی روایات کے حوالے سے ہم ان نقوش کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جیسے کہ قرآن کریم میں چاند کا بہت سے موقعوں پر ذکر ملتا ہے۔ ایک مقام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں 

اس کے بعد  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ایک سورج سے دی گئی  ہے جس کی روشنی سے دنیا میں زندگی کا نظام فیض اٹھا رہا ہے  اور اس کے فیض سے ایک بدر کامل نے پیدا ہونا  ہے جو رات کے اندھیروں میں بھی اس نور کا فیض زمین تک پہنچاتا رہے گا 

331ترجمہ القرآن  حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ صفحہ 

ہلال غالبا موجودہ روحانی اعتبار سے اس تاریک زمانے میں نئے دور کے آغاز کی نمائندگی کر رہا ہے اور چھ کونوں کا ستارہ اسلام کے چھ ارکان ( اللہ پر ایمان، اس کے فرشتوں پر ایمان، اس کی کتابوں پر ایمان، اس کے رسولوں پر ایمان، یوم آخرت پر ایمان اور تقدیر خیر و شر پر ایمان ) کاعکاس ہے۔ہلال اور ستارہ تاریخی اعتبار سے اسلام کی نمائندگی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ مینارہ المسیح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے متعلق پیشگوئی کے پورا ہونے کی تصویر کشی کررہا ہے۔ 

تقسیم ہند کے وقت لجنہ کا یہ جھنڈا مکمل حفاظت کے ساتھ پاکستان لایا گیا۔ اپریل 1949ء میں ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر یہ جھنڈا  لاہور سے ربوہ لے جاتے ہوئے حادثاتی طور پر ریل گاڑی کے ڈبے ہی میں رہ گیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی یہ جھنڈا نہیں مل سکا ۔ 24 دسمبر ء1998 کو  صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ چونکہ تمام کوششوں کے باوجود بھی یہ جھنڈا دستیاب نہیں ہو سکا  اس  لیے اسے دوبارہ تیار کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے ۔ حضور رحمہ اللہ تعالی کی منظوری کے بعد لجنہ کے جھنڈے کو دوبارہ تیار کیا گیا۔ اور 1999ء  میں لجنہ پاکستان کی سالانہ کھیلوں کے موقع پر اسے پہلی  بار لہرایا گیا۔

R.S.Bhatti


:حوالہ جات 

تاریخ احمدیت جلد۔7

https://www.ahmadipedia.org/content/admin/49/liwa-e-lajna-imaillah





















Saturday, November 26, 2022

اکثر شبِ تنہائی میں

 اکثر شبِ تنہائی میں           نادر کاکوروی                       


 اکثر شبِ تنہائی میں

کچھ دیر پہلے نیند سے

گزری ہوئی دلچسپیاں

بیتے ہوئے دن عیش کے

بنتے ہیں شمعِ ذندگی

اور ڈالتے ہیں روشنی

میرے دلِ صد چاک پر


وہ بچپن اوروہ سادگی

وہ رونا وہ ہنسنا کبھی

پھر وہ جوانی کے مزے

وہ دل لگی وہ قہقہے

وہ عشق وہ عہدِ و فا

وہ وعدہ اور وہ شکریہ

وہ لذتِ بزمِ طرب

یاد آتے ہیں ایک ایک سب


دل کا کنول جو روز و شب

رہتا شگفتہ تھا سو اب

اسکا یہ ابتر حال ہے

اک سبزۂ پا مال ہے

اک پھو ل کُملایا ہوا

ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا

روندا پڑا ہے خاک پر


یوں ہی شبِ تنہائی میں

کچھ دیر پہلے نیند سے

گزری ہوئی ناکامیاں

بیتے ہوئے دن رنج کے

بنتے ہیں شمعِ بےکسی

اور ڈالتے ہیں روشنی

ان حسرتوں کی قبر پر


جوآرزوئیں پہلے تھیں

پھر غم سے حسرت بن گئیں

غم دو ستو ں کی فوت کا

ان کی جواناں موت کا


لے دیکھ شیشسے میں مرے

ان حسرتوں کا خون ہے

جو گرد شِ ایام سے

جو قسمتِ ناکام سے

یا عیشِ غمِ انجام سے

مرگِ بتِ گلفام سے

خود میرے غم میں مر گئیں

کس طرح پاؤں میں حزیں

قابو دلِ بےصبر پر


جب آہ ان احباب کو

میں یاد کر اٹھتا ہوں جو

یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے

جس طرح طائر باغ کے

یا جیسے پھول اور پتیاں

گر جائیں سب قبل از خزاں

اور خشک رہ جائے شجر


اس وقت تنہائی مری

بن کر مجسم بےکسی

کر دیتی ہے پیشِ نظر

ہو حق سااک ویران گھر

ویراں جس کو چھوڑ کے

سب رہنے والے چل بسے

ٹو ٹے کواڑ اور کھڑ کیاں

چھت کے ٹپکنے کے نشاں

پرنالے ہیں روزن نہیں

یہ ہال ہے، آ نگن نہیں

پردے نہیں، چلمن نہیں

اک شمع تک روشن نہیں

میرے سوا جس میں کوئی

جھا نکے نہ بھولے سے کبھی

وہ خانۂ خالی ہے دل

پو چھے نہ جس کو دیو بھی

اجڑا ہوا ویران گھر


یوں ہی شب تنہائی میں

کچھ دیر پہلے نیند سے

گزری ہوئی دلچسپیاں

بیتے ہوئے دن عیش کے

بنتے ہیں شمعِ زندگی

اور ڈالتے ہیں روشنی


میرے دل صد چاک پر







Sunday, October 30, 2022

محاصرہ

محاصرہ         احمد فراز                        

 مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے 

کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے 

فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر 

کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے 

وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش 

وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی 

بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں 

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی 

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے 

سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے 

تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام 

امید لطف پہ ایوان کج کلاہ میں ہیں 

معززین عدالت بھی حلف اٹھانے کو 

مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں 

سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں 

تم اہل حرف کہ پندار کے ثناگر تھے 

وہ آسمان ہنر کے نجوم سامنے ہیں 

بس اک مصاحب دربار کے اشارے پر 

گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں 

قلندران وفا کی اساس تو دیکھو 

تمہارے ساتھ ہے کون آس پاس تو دیکھو 

سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو 

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو 

وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا 

بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو 

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا 

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے 

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے 

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے 

سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے 

کہ مجھ کو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ 

اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت 

اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ 

مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا 

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے 

مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا 

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے 

مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا 

جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے 

مرا قلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق 

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے 

مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی 

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے 

مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی 

جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے 

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی 

مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے 

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا 

جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے 

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے 

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا 

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم 

مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا 

سرشت عشق نے افتادگی نہیں پائ

تو قد سرو نہ بینی و سایہ پیمائی














Friday, May 20, 2022

Freedom of speech

آزادئ اظہار 

یا مادر پدر آزادی

 آزادئ اظہار ان چند بنیادی حقوق میں سے ہے جو انسانوں نے لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد حاصل کیے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات قابل فکر ہے کہ اگر یہ آزادئ اظہار اسلام یا بانئ اسلام  (حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم) یا مسلمانوں کے خلاف ہو تو پھر تو یقینا یہ آزادئ اظہار ہی شمار ہوتا ہے لیکن اگر یہ کسی دنیاوی حکومت کے خلاف ہو تو ایسی نفرت انگیز مواد کو وسیع تر قومی مفاد کےتحت نہ صرف ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کاروائی بھی کی جاسکتی ہے

یہاں ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حکومتوں کے خلاف مواد کوچھاپنے اور ان کی تشہیر کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔ بلکہ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر مذہب کے روحانی پیشواؤں کے احترام کے لئے بھی ایسے ہی اعلی معیار قائم کئے جانے چاہئیں 

اللہ تعالی نے قرآن کریم کو انسان کی ہدایت کا سرچشمہ بنایا ہے اور اس کے ذریعے سے ہمیں روزمرہ کے معاملات میں بھی رہنمائی ملتی ہے ۔ سر عام بری بات کہنے کے بارے میں اللہ تعالی نے ایک اصول قرآن میں بیان فرمایا ہے 

اس آیت میں واضح طور پر کسی دوسرے کے خلاف نا پسندیدہ بات کہنے کی ممانعت کی گئی ہے مگر جس شخص پر ظلم ہوا ہے تو وہ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے 
اسی طرح سورہ الحجرات میں آتا ہے


ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں  (متفق علیہ )

یہی نہیں بلکہ دوسروں کےمذہبی عقائد کے اسقدر احترام کا حکم ہے کہ ان کے بتوں کو برا کہنے سے بھی منع فرمایا ہے تاکہ نہ صرف ان کی دل آزاری نہ ہو بلکہ اس سے معاشرے کا امن بھی قائم رہے

زبان ایک ایسی چیز ہے جس سے دوست دشمن بن سکتا ہے اور دشمن دوست بن سکتا ہے۔ اگر ہم خانگی معاملات میں ہونیوالی ناچاقیوں کو دیکھیں تو اس میں بھی زبان کا بہت عمل دخل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو صرف بات ہی کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف بات ہی گھر بسا بھی سکتی ہے اور گھر برباد بھی کر سکتی ہے

یہی رویہ معاشرے کی بے سکونی کی وجہ بھی بن جاتا ہے اگر ایک مذہب، نسل، رنگ کے لوگ دوسرے کے بارے میں برے بیانات دیں گے تو اس سے لازماً معاشرے کا امن و سکون برباد ہو گا

 اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آزادئ اظہار کے حق کا استعمال اپنے ساتھ بہت اہم ذمہ داریاں رکھتا ہے جن کا تعین کیا جانا چاہئے۔ کسی بھی شخص کے پاس آزادی رائے کا حق کسی بھی دوسرے شخص کو بد نام کرنے کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی مذہبی پیشواؤں اور مذہبی عقائد کی توہین کی اجازت دیتا ہے۔ 

معاشرے کے امن و سکون کے لیے معاشرتی اقدار کو اعتدال میں رکھنا ضروری ہے۔ایک منصف اور غیر جانبدار حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف نفرت انگیز اور شدت پسند تقاریر پر پابندی لگائیں، بلکہ پر امن اختلاف رائے اور آزادئ اظہار کی حوصلہ افزائی کریں لیکن یہ سب کچھ با مقصد ہونا چاہیے۔ بعض ملکوں میں کوئی ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے جہاں جاکر آپ با آواز بلند تقریر کر سکتے ہیں اور کسی بھی دوسرے کے خلاف کچھ بھی کہہ سکتے ہیں 

لیکن کیا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں؟ یا کسی ظالم کے خلاف تقریر کر لینے سے مظلوم کو انصاف مل سکتاہے؟ 

یقینا نہیں! اس لیے انصاف کی فراہمی کے لیے اور آزادئ اظہار کے حق کے مناسب استعمال کے لئے حکومتوں کو ٹھوس اور بامقصد  اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے 












Sunday, March 27, 2022

ImranKhan

عمران خان

کچھ ماضی کے جھروکوں سے

آر۔ایس۔بھٹی    

کچھ دن پہلے ایک تھریڈ نظر سے گزرا جس میں راجہ شہریار صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان صاحب کی تمام زندگی ہمارے سامنے ہے وہ ہمارے سامنے لیجنڈ بنے ہیں اس پر خیال آیا کہ 

بات تو سچ ہے مگر ۔۔۔۔۔

 عمران خان صاحب کی کچھ یادیں ماضی کے جھروکوں سے ہمارے پاس بھی ہیں ۔ سوچا سب کے ساتھ شیئر کرنی چاہیئں۔  یہ یادیں ان احمدی بھائیوں کے لیے بھی تسلی کا باعث ہوں گی جو عمران خان کی گزشتہ تقریر پر بہت حیران ہیں جو انہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی، بھٹو کی آئینی ترمیم کے حق میں کی ہے ۔ 

عمران خان کی شخصیت، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہونا اور مغربی حسیناوں کے ساتھ ان کے گزشتہ افسانوں کی وجہ سے عام طور ہر  لوگ انھیں لبرل سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہےکہ سیاست میں ان کا تمام کیریئر آغاز سے ہی پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور سیاست انھوں نے ہمیشہ مذہبی جماعتوں کی گود میں بیٹھ کر ہی ہے۔اور ہمیشہ ہی مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔

 آغاز ہی سے وہ قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کے ساتھ اجتماعات، تقاریر اور پریس کانفرنس کیا کرتے تھے۔ اس وقت 2014ء کی عمران خان اور سراج الحق صاحب کی ایک خبر، تصویر کے ساتھ  میرے سامنے ہے جس کا عنوان ہے  "خان کی حق سے ملاقات، کہا پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی قدرتی حلیف ہیں"۔ ہمیں اس میں کچھ اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ 




اور یہ بہت دلچسپ یاد، تصویر کی صورت میں۔۔۔ جس میں وہ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کے ساتھ ہاتھ ہوا میں بلند کر کے اتحاد کا نشان بنا رہے ہیں یہ 23 مارچ 2005ء  کی تصویر ہے۔ 



یاد ماضی عذاب ہے یارب 

چھین لے "گوگل" سے حافظہ اس کا

 یہ سیاست بھی عجیب چیز ہے آج کے دشمن کل کے دوست اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔


  پھر 2013ء کی عمران خان کی انتخابی مہم کسے یاد نہیں، جب عمران خان سٹیج پر پہنچنے کے لئے لفٹر سے گر کر زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے دو دن پہلے انہوں نے جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے بارے میں کچھ نازیبا باتیں کی تھیں۔



اس کے بعد عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا جو 2014 ء میں ہوا اس کے لئیے قادری صاحب خاص طور پر کینیڈا سے تشریف لائے تھے اور یہ دھرنا دو ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہا 



اور یہ آخری تصویر تو بلا عنوان ہے

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا

 جی ہاں! بالکل عمران خان ہمارے سامنے ہی لیڈر بنے اور ان کا ماضی ہمارے سامنے ہے بعض لطیفے ایسے ہی یاد آجاتے ہیں  

ایک مرتبہ گاؤں کے چوہدری کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں ایک شخص پر الزام تھا کہ سید نہیں ہے بلکہ بنا ہوا ہے۔ چوہدری صاحب نے گاؤں کے ایک پرانے بوڑھے شخص کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس شخص کے بارے میں تم کیا جانتے ہو کیا یہ واقعی سید ہے یا بنا ہوا ہے؟ اس بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ کسی اور کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن اس کے بارے میں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ واقعی سید ہے کیونکہ یہ میرے سامنے سید بنا ہے، اس کو سید بنتے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ 











 

Thursday, March 17, 2022

IslamicVeil


 اسلامی پردہ

آر-ایس۔بھٹی
اگر آپ  ایک خاتون ہیں اور سکارف لیتی ہیں اور کسی مغربی ملک میں رہتی ہیں تو آپ کو کبھی نہ کبھی اپنے سکارف/ نقاب/ حجاب کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑاہوگا۔ پچھلے چند سالوں میں مغربی ممالک میں مسلمان خواتین کے حجاب کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ( یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف مسلمان خواتین کا سر ڈھانپنا ہی زیر بحث آتا ہے کیونکہ اگر مسئلہ صرف سر ڈھانپنا ہو تو سر تو عیسائی راہبائیں بھی ڈھانپتی ہیں لیکن ان کے سرڈھانپنے پر کبھی سوال نہیں اٹھا) اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسلامی پردے سے سیکیورٹی خطرات ہو سکتے ہیں اور دہشتگردی کی ممکنہ روک تھام کے لئے یہ اقدام اٹھایا جانا ضروری ہے
کیا واقعی حجاب  سے سیکیورٹی خطرات ہیں؟ کیا واقعی کبھی کوئی نقاب پوش خاتون کسی مغربی ملک میں اپنے پردے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد کاروائی کا حصہ بنی؟

اگر ہم اس بارے میں تحقیق کریں تو ہمیں مغربی دنیا میں ایسا کوئی واقعہ ماضی قریب میں نہیں ملتا،جن کی وجہ سے ان ممالک میں خاص طور پر حجاب کو نشانہ بنایا گیا۔ ان  ممالک میں فرانس سرفہرست ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں 5 ملین مسلمان آباد ہیں 




یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں کہ چہرے کو  چھپانے  سے سیکیورٹی خطرات ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں نے بھی چہرے چھپا رکھے تھے مگر جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔بہت سے علاقے جو دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے وہاں بھی کافی حد تک سکون رہا اور کسی نے بھی چہرہ چھپانے کا کوئی منفی اثر معاشرے پر ہوتا نہیں دیکھا۔ بلکہ بعض لوگ تو اس نئے تجربے سے بہت محظوظ ہوئے
 
کیمبرج یونیورسٹی نے کووڈ کی وجہ سے جرائم کی شرح پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے دنیا کے تیئس ممالک کے ستائیس شہروں میں ایک ریسرچ کی۔ یہ 23 ممالک یورپ، امریکا، ایشیا اور مشرق وسطی سے ہیں اس تحقیق کے مطابق کووڈ وبا کے دوران جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی رہی۔ اور عمومی طور پر ان تمام شہروں میں 37 فیصد تک پولیس کے ریکارڈ میں آنے والے جرائم میں کمی ہوئی۔ جس میں جسمانی تشدد میں 35 فیصد ، چوری ڈکیتی میں 46 فیصد اور جیب تراشنے کے واقعات میں 47 فیصد تک  کمی ہوئی۔ 

اس تمام تمہید سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلامی پردہ کا جرائم کے ساتھ کبھی بھی براہ راست تعلق نہیں رہا اور ویسے بھی جہاں تک جرائم کی شرح کا تعلق ہے مردوں میں جرائم کرنے کی شرح خواتین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جبکہ مرد تو پردہ کرتے ہی نہیں ہیں۔ 
پھر اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مغربی ممالک میں بسنے والی مسلمان خواتین کی اکثریت محض سر ڈھانپتی ہیں اور چہرہ کھلا رکھتی ہیں اور ایسی صورت میں تو یہ سیکیورٹی خطرات والی بات بالکل بے کار ہو جاتی ہے کیونکہ ان ممالک میں سر کو تو لوگ موسم کی شدت کی وجہ سے بھی ڈھانپتے ہیں 

ایک اور وجہ جو حجاب پر پابندی لگانے کی بتائی جاتی ہے وہ یہ کہ مرد و خواتین کو ایک ہی طرح کا نظر آنا چاہیئے اس سے معاشرے میں مساوات اور مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ تو ایسی خواہش ہے کہ کوئی بھی عقلمند انسان اس خواہش پر اپنا سر پکڑ کے بیٹھ جائے۔ کیا اگر مسلمان خواتین حجاب اتار دیں تو مرد اور خواتین ایک ہی طرح کے دکھائی دینے لگیں گے؟ کیا مرد سکرٹ پہننا اور میک اپ کرنا شروع کردیں گے؟ اور کیا کوئی خاتون یہ پسند کرئے گی کہ وہ مردوں کی طرح دکھائی دے؟ 
یقینا نہیں۔ 
اس لئیے یہ تمام جواز حجاب کے خلاف محض ایک پروپیگنڈا کے سوا اور کچھ نہیں۔ جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حجاب یا پردہ ہمیشہ سے انسانوں کے مہذب معاشروں کا حصہ رہا ہے اور عزت اور تکریم کی خاطر استعمال ہوا ہے آج تک شاہی خاندان میں بھی شادی بیاہ کے موقع پر دلہن اپنے چہرے پر  ایک جالی ڈالتی ہے جو کہ پردے کی ہی تبدیل شدہ شکل ہے 

 مذاہب کی تاریخ میں پردے کا تصور ہمیشہ ہی سے موجود رہا ہے اور اسلام نے یہ تصور پہلی مرتبہ پیش نہیں کیا ۔حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابتدائی مذہبی تعلیم  ہے ان کی تعلیمات کے چند نکات جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں 

( 119- طہ)     

گویا کہ خداتعالی کی طرف سے جو پہلی تعلیم انسان کو دی گئی اس میں جسم کو ڈھانپنے کی ہدایت تھی۔ اس سے پہلے انسانوں میں لباس کا تصور بھی غالبا نہیں تھا اور جیسا کہ انسانی دستور ہے کہ جب بھی کوئی نبی تعلیم لے کر آیا آغاز میں لوگوں کی اکثریت کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی رہی۔ اور پھر رفتہ رفتہ انسان اسی تعلیم کی خوبصورتی اور ضرورت کا قائل ہوتا گیا۔ موجودہ دور میں انسانوں نے بڑی تیزی کے ساتھ انبیاء کی مخالفت اور مذہب کی ضرورت سے انکار کا رویہ اختیار کیا ہے اور ان کی تعلیمات کو فرسودہ قرار دے کر جدت پسندی کے نام پر نئے اصول و ضوابط وضع کیے اور اخلاقیات کے بھی نئے پیمانے متعارف کروانے شروع کر دیئے ہیں اور شاید اسی لئے اس پہلی شرعی تعلیم کے غیر ضروری ہونا ثابت کرنے کے لیے لباس کی ضرورت کے بھی انکاری ہیں 

لیکن مسئلہ اس وقت شدید صورت اختیار کرجاتا ہے جب ایک انسان اپنی سوچ کو دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش کرئے۔ کوئی شخص اگر لباس یا مناسب لباس کو غیر ضروری سمجھے، تو سمجھ سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں دوسروں کو بھی مجبور کرئے کہ وہ بھی اس کی سوچ کے مطابق عمل کریں اس سے معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے 

درحقیقت پردے کے خلاف پروپیگنڈا نہ ہی حفاظتی اقدامات کا حصہ ہے اور نہ ہی اس سے معاشرے میں مساوات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ یہ محض ایک مہذب معاشرے کے سنہری اصولوں کو بے آبرو کرنے کی کوشش ہے

ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر چہرےکا چھپانا خطرے کی علامت ہے تو پھر ان سب پلاسٹک سرجریز کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو آجکل عام ہیں اور جس سے لوگ مکمل طور پر اپنے چہرے کے نقوش تبدیل کر لیتے ہیں کیا یہ بات معاشرے میں سیکیورٹی خطرات کا باعث نہیں۔ 

______________________


https://www.cam.ac.uk/stories/COVIDcrime