ALLAH IS THE GREATEST
THERE IS NO GOD BUT ALLAH.
Beauty
Peace
SEAL OF THE PROPHETS
ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE
ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means
Peace, Purity, Submission and Obedience
"SEAL OF THE PROPHETS"
The LAST LAW BEARING PROPHET
ALLAH HO AKBAR الله اکبر
ALLHA IS THE GREATEST.
ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL
LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE
Everthing is created by ALLAH
Nature is always perfect.
ALLAH Knows Everything
No one is powerful then "ALLAH"
LOVE FOR HUMANITY
Love Humanity
Beauty
Love Humanity
Beauty
Love Humanity
Beauty
Peace
SEAL OF THE PROPHETS
ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE
ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means
Peace, Purity, Submission and Obedience
"SEAL OF THE PROPHETS"
The LAST LAW BEARING PROPHET
Thursday, March 25, 2021
Rights of women (English)
Friday, March 19, 2021
عورتوں کے حقوق Rights of woman

عورتوں کے حقوق
Thursday, March 11, 2021
دہریوں کے لئے چیلنج Challenge to atheist3
بنا سکتا نہیں اک پاؤ ں کیڑے کا بشر ہرگز
دہریوں کے لیے چیلنج -حصہ سوئم
آر ایس بھٹی
بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں
بنا سکتا نہیں اک پاوں کیڑے کا بشر ہرگز
تو پھر کیوں کر بنانا نور حق کا اس پہ آساں ہے
نیز فرماتے ہیں
وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا اور اس کی مخلوق کے رشتے میں میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاصو کو دوبارہ قائم کرو ں-(لیکچر لاہور)
*****************
خدا تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث فرمائے اور ان کے دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی پر کبھی کوئی الزام نہیں لگا ،نہ ان کی ذہنی حالت پر، اور نہ ہی ان کی اخلاقی حالت پر ،اور وہ تمام انبیاء اپنی قوم میں معزز سمجھے جاتے تھے- پھر کیا وجہ ہوئی کہ وہ معزز وجود جنہوں نے کبھی انسانوں کے بارے میں جھوٹ نہ بولا تھا وہ اچانک خدا کے وجود کے متعلق جھوٹ بولنے لگے - جب کہ اس جھوٹ سے انہیں دنیاوی فائدہ تو کچھ نہ ہوا البتہ بے شمارمسائل کا سامنا کرنا پڑا- یہی نہیں بلکہ وہ سب دنیا کے مختلف حصوں میں مبعوث ہوئے اور ان علاقوں کا آپس میں کبھی بھی رابطہ نہیں رہا تھا پھر بھی وہ سب مذاہب نہ صرف خدا بلکہ ایک خدا کے وجود کا تصور لیے ہوئے ہیں- اس لیے دہریہ حضرات کے لئے یہی پیغام ہے کہ چیزوں کے بارے میں ان کا علم ناقص ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز موجود ہی نہیں - سائنسدان ہمیں بے شمار ستاروں ،سیاروں، گیلگزیز کے بارے میں ہمیں بتاتے رہتے ہیں اور ان کے مختلف نام رکھتے ہیں- اور تمام لوگ بغیران ستاروں ، سیاروں یا گیلیگسی کو دیکھےان پر یقین کرتے ہیں لیکن جب خدا کا ایک نیک اور صالح بندہ ان تک خدا کا پیغام لے کر آئے ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور ان کے بارے میں گالم گلوچ کرنے لگتے ہیں
ہم اپنے مضامین کی سیریز میں قرآن میں موجود ادنیٰ درجہ کے جانداروں کی حیرت انگیز خصوصیات کا ذکر کر رہے تھے- شہد کی مکھی ان جاندار روں میں واحد جاندار ہے جس کاقرآن میں تعریفی بیان ہوا ہے، اور اسے انسانوں کے لئے مفید قرار دیا گیا ہے لیکن یہ انسان کے لیے کس قدر مفید وجود ہے اس کا آج سے پندرہ سو سال پہلے انسان کو بالکل اندازہ نہیں تھا
اگر شہد کی مکھی کاٹے تو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر یہ شہد کی مکھی زمین سے غائب ہو جائے تو یہ ہمارے لئے بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہوگا کیونکہ یہ بنی نوع انسان کے لیے انتہائی فائدہ مند جان دار ہے - زمین کی کاشتکاری کے ستر فیصد حصہ کا انحصار زمین پر موجود حشرات الارض پر ہے اور ہم اس بارے میں سب سے زیادہ شہد کی مکھی کے زیر احسا ن ہیں جس کی وجہ سے سے تقریبا ستر سے سوفیصد حصہ ہماری خوراک کا پیدا ہوتا ہے کیونکہ شہد کی مکھی ہماری زراعت کی سب سے بڑی پولی نیٹر ہے - اس کی وجہ سے پودوں کی افزائش نسل ہوتی ہے اور پھل بنتا ہے اور لاکھوں کروڑوں جاندار اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں - اگر شہد کی مکھی زمین سے ختم ہو جائےتو ہماری خوراک کا نظام درہم برہم ہو جائے اور صرف ہماری خوراک ہی نہیں بلکہ یہ بڑے درختوں کو بھی پولی نیٹ کرنے کا کام کرتی ہے -
شہد کی مکھی غالبا واحد کاٹنے والا جاندار ہے جو ڈسنے کے بعد خود مر جاتا ہے کیونکہ اس کے ڈنگ کے آگے ایک ہک ہوتی ہے جو جلد میں پھنس جاتی ہے اور جب شہد کی مکھی اس ہک والے ڈنگ کو کانٹنے کے بعد واپس نکالنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا اپنا پیٹ زخمی ہو جاتا ہے اور خاص طور پر یہ اس وقت ہوتا ہے شہد کی مکھی کسی موٹی جلد والے جاندار مثلا انسان کو کاٹتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا نے شہد کی مکھی کو کاٹنے والا جاندار نہیں بنایا بلکہ انتہائی مجبوری میں صرف اس وقت کسی پر حملہ آور ہوتی ہے جب اس کی جان کو خطرہ ہو کیونکہ ڈسنے سے بھی اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے
شہد کی مکھی وہ واحد جاندار ہے جس پر کسی بھی قسم کا پیتھوجن نہیں ہوتا نا بیکٹیریا نا وائرس اور نا ہی فنگس۔ شہد کی مکھی کا چھتا بہت صاف ستھرا ہوتا ہے وہ وہاں شہد بناتی ہیں جو ہم کھاتے ہیں، وہ اپنے چھتے میں خوراک کا ذخیرہ رکھتی ہیں، بچے بھی وہی ہوتے ہیں اور ہزاروں مکھیاں ایک چھتے میں رہ رہی ہوتی ہیں اگر کوئی بھی وبا پھوٹ پڑے تو یہ ساری کالونی کی موت ہے کہا جاتا ہے کہ چھتے کا اندرونی حصہ ایک ہسپتال کی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے( ویسے ہمارے ہاں تو ہسپتال اتنے صاف ستھرے نہیں ہوتے اس لیے ہمیں تو یہ مثال اتنی اچھی نہیں لگی) اس چھتے کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے شہد کی مکھیاں ایک ایسا کام کرتی ہیں جو چھتے کو صاف ستھرا اور بیماریوں سے پاک رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ شہد کی مکھی پودوں سے رال جمع کرتی ہے جب وہ واپس لوٹتی ہیں تو ان کی دوسری بہنیں اسے اتارنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ یہ ایک چپکنے والا مواد ہوتا ہے جس کو پا پولیس کا نام دیا گیا ہے۔اور اس کو شہد کی مکھی کی گوند بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مکھی چھتے میں موجود دراڑیں جوڑنے کا کام بھی کرتی ہے۔ اور خانوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے بھی یہ گوند کام آتی ہے ۔اس کو بیز۔ویکس کے ساتھ ملا کر باریک سی وارنش بنائی جاتی ہے جس سے چھتے کی دیواریں تروتازہ رکھی جاتی ہیں۔اور بیزکوم کو بھی اسی سے ٹھیک ٹھاک کیا جاتا ہے ۔
اصل میں یہ رال حیرت انگیز مائیکرو بائیل خصوصیات رکھتی ہے جو وائرس بیکٹیریا اور فنگس کے خلاف بہت موثر ہوتی ہے۔ اس طرح یہ مکھیاں اپنے چھتے میں ہر وقت اینٹی بائیوٹکس کے خول میں رہتی ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ چھتے باہر بھی نکلتی ہیں اور ہم انہیں ادھر ادھر گھومتے اور کام کرتے دیکھتے ہیں کیا اس وقت جراثیم ان پر حملہ آور نہیں ہوتے؟ شہد کی مکھی ہر وقت ایک دفاعی لباس میں رہتی ہے جو ایگزو سکیلٹن کہلاتا ہے یہ واٹر پروف ہوتا ہے اور اس کو حملہ آور جراثیموں سے بچاتا ہے اس کی بیرونی جلد پر حسیاتی ریسیپٹرز ہوتے ہیں جن کا سب سے اہم عضو اس کی آنکھیں ہیں جو ناصرف روشنی کا پتا لگا سکتی ہیں بلکہ انسانوں کی طرح رنگوں کی تمیز بھی کر سکتی ہیں اس کے علاوہ جو دوسرے حسیاتی عضو ایگزو سکیلٹن پر ہوتے ہیں وہ ان کے بال ہیں شہد کی مکھی کے اینٹینا پر بھی بھی بہت سے ٹچ ریسیپٹرز ہوتے ہیں خوشبو ریسیپٹرز بھی یہیں ہوتے ہیں اور ایک خاص عضو جھانسٹن ہے جو ان کورفتار کے بارے میں بتاتا ہے اس میں سے بعض ریسیپٹرز ان کو کشش ثقل کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں
شہد کی مکھی اپنی ضرورت سے بہت زیادہ شہد بناتی ہے یعنی وہ صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ہمارے لئے بھی شہد بناتی ہے ایک چھتے میں مکھیوں کی تعداد 80 ہزار تک بھی جا سکتی ہے ان میں ایک ملکہ مکھی ہوتی ہے، چند سو نرمکھیاں اور مادہ مکھیوں کی ہزاروں کی تعداد ہوتی ہے جب ایک ورکر مکھی بارہ دن کی ہوتی ہے تو اس کے جسم میں بیز ویکس بننا شروع ہو جاتی ہے جو کہ ان کے لیے بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ اسی سے سے وہ اپنے چھتے کے خانے بناتی ہیںں یہ خانے وہ بہت خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر بنتی ہیں صرف 12 دن کی مکھی یہ خوبصورت کمرے تیار کرتی ہے ہے اگر آپ یہ چھ کونوں والا خانہ اسی طرح جوڑ کر بنانے کی کوشش کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہیگزا گونل شکل جوڑ کر بنانا اتنا آسان نہیں لیکن وہ بہت خوبصورتی کے ساتھ یہ کام کرتی ہیں تین ہفتے تک شہد کی مکھیاں یہ کام کرتی ہیں وہ کونوں سے یہ خانے بنانا شروع کرتی ہیں اور درمیان میں آ کر ملتی ہیں اس کے ساتھ رائل جیلی اور پولن کو چھتے میں سٹور کرتی ہیں اور چھتے کی صفائی مردہ مکھیوں کو چھتے سے باہر پھینکنا اور دشمن سے چھتے کو محفوظ رکھنا یہ سب وہ تین ہفتے تک کرتی رہتی ہیں مزید دو سے تین ہفتے کی محنت کے بعد ورکر مکھی فوت ہو جاتی ہے اور یہ نہ رکنے والا چھ ہفتے کا اس کی زندگی کا ان تھک سفر ختم ہوجاتا ہے
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سورۃ النحل میں شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا ہے
امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ان آیات کی تشریح میں فرماتے ہیں
کسی جانور پر وحی کے نزول کا ذکر نہیں ملتا دیکھا جائے تو شہد کی مکھی اسی طرح ایک مکھی ہی ہے جیسے عام گندگی پر پلنے والی مکھی ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ وحی کے ذریعہ خدا نے اس کو ہر گندگی سے پاک کردیا یہ اپنے گھر بھی پہاڑوں پر اور بلند درختوں پر اور ان بیلوں پر بناتی ہے جو بلند سہاروں پر چڑھائی جاتی ہیں پھر اس پر وحی کی گئی کہ وہ ہر پھول کا رس چوسے اگرچہ لفظ ثمر استعمال فرمایا گیا ہے ہے مگر اس میں دوہری حکمت یہ ہے کہ مکھی کے اس پھول کو چوسنے کے نتیجے میں ہی اس سے ثمر پیدا ہوتا ہے اور ہر پھل کا عرق اور نچوڑ بھی وہ پھول سے ہی چوستی ہے اس کے نتیجے جو شہد بناتی ہے اس میں انسانوں کے لئے لیے ایک عظیم الشان شفا رکھ دی گئی ہےیہاں پر جو یخرج من بطونہا فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ شہد صرف پھو لوں کے رس سے نہیں بنتا بلکہ شہد کی مکھی کے بطن سے جو لعاب نکلتا ہے اسے وہ پھولوں کے رس سے ملا کر اور بار بار زبان ہوا میں نکال کر اسے گاڑھا کر کے شہد میں تبدیل کرنے کے بعد چھتوں میں محفوظ کرتی ہے
ترجمہ القرآن از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی صفحہ 437
خدا تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ شہد کی مکھی کو وحی کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہد کی مکھی ہماری زمین کے لئے کس قدر اہم ہے یہ نہ صرف ہمارے لئے شہد بناتی ہے بلکہ ہمارے لیے سب سے بڑی پولی نیٹر ہے اگر شہد کی مکھی نہ ہو تو پھول کبھی بھی پھل پیدا نہ کر سکیں ہماری زراعت کا تو سمجھیں خاتمہ ہی ہو جائے یا پھر سارا دن کسان ایک پھول کو دوسرے پھول پر چھڑکتے رہیں جو کہ ایک نہایت ہی تھکا دینے والا مشکل کام ہے اور اس کے بعد بھی شائید وہ پھل کی وہ مقدار حاصل نہ کر سکیں جو ایک شہد کی مکھی بغیر کسی معاوضے کے کسان کے لیے کرتی ہے بلکہ بنی نوع انسان کے لیے کام کر رہی ہے اور ہماری خوراک کا انتظام کر رہی ہے
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق شہد کی مکھی نہ صرف ہماری زمین کا سب سے اہم جاندار ہے بلکہ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اس وقت شہد کی مکھی کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہیں ان کے مطابق شہد کی مکھی بہت تیزی سے زمین سے ختم ہو رہی ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے بہت بڑے پیمانے پر جنگلات کا کاٹا جانا ، شہد کی مکھی کے چھتے کیلئے محفوظ جگہوں کی کمی، بے جا طور پر کیڑے مار دوائیوں کا استعمال بھی شہد کی مکھی کو ختم کر رہا ہے اس کے علاوہ موبائل ٹیلیفون کی لہریں بھی ان کے لئے خطرہ ہے جن کی موجودگی میں شہد کی مکھیوں کی سمت کا تعین کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے کہتے ہیں کہ آئن سٹائن نے کہا تھا زمین سے شہد کی مکھیاں ختم ہوجائیں تو زندگی چار سالوں میں ختم ہوجائے
قرآن میں میں خدا کے منکروں کے بارے میں ایک بہت ہی حسب حال آیت ہے
دہریہ آج بھی خدا کے نام پر اسی طرح نہ نفرت سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں کیوں کہ خدا کے وجود کےثبوت زمین و آسمان میں بھرے پڑے ہیں لیکن اگر کوئی شخص چمکتے سورج کا انکار کرے اور دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بیٹھ جائے تو اس کو سور ج دکھائی نہیں دے گا
************
دہریوں کے لیے چیلنج - حصہ اول
https://virkma.blogspot.com/2021/03/challenge-to-atheist-3.html
https://virkma.blogspot.com/2021/02/Challenge-to-Atheists.html
Thursday, February 11, 2021
بن بیٹھے خدا بندے Transhumanism
شائع شدہ الفضل انٹرنیشل 10 جنوری (2014))
(آر۔ایس۔بھٹی)
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا کیا ہے لیکن ج ایک یہ حضرت انسان ہیں کہ پہلے تو خدا کے وجود کے منکر رہے اور اب پوری کوشش کر رہے ہیں خدا بننے کی
انسان کی سادہ سی تعریف علم حیاتیات کی رو سے سے یوں ہے کہ اگر آپ کا ڈی این اے ہومو سیپی انز ہے تو آپ انسان ہیں۔ اسی طرح سائنس کے دوسرے مضامین نے انسان کو اس کے معاشرتی اور نفسیاتی رویوں میں تقسیم کیا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان ہونا اس سے بہت زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے. اگر ہم ایک انسان کو آغاز سے بنانا چاہیں تو ہمیں بہت سے مقامات پر انسانیت کی حدود کو پار کرنا ہوگا اسی طرح اگر آپ انسان کے اعضاء اتارنے شروع کریں تو آپ غیر انسانی رویوں کی دہلیز میں داخل ہوجائیں گے۔ ہمیں دوبارہ سے اسی سوال کا سامنا ہوگا کہ ہم انسان کی تعریف کس طرح کریں؟
کیا رحم کا جذبہ ہمیں انسان بناتا ہے؟ کیا افزائش نسل کے جذبے سے محروم ہو جانا غیر انسانی رویہ ہے؟ اگر میں اپنے دماغ کو اس طرح تبدیل کر لوں کہ وہ عام معیار سے مختلف طرح کام کرئے تو کیا پھر بھی میں انسان ہی رہوں گا۔؟ اگر میں اپنے جسم کے تمام اعضاء اتار دوں اور اپنے دماغ کو ایک روبوٹ کے ساتھ جوڑ دوں تو کیا پھر بھی میں انسان ہی رہوں گا؟
یہ سوالات پہلی نظر میں جذبات ابھارنے والے اور غیر فطری دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور بائیو میڈیسن کے بڑھتے ہوئے ملاپ کی وجہ سے اگلی دہائی میں ہمیں ان تمام سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ٹرانس ہیومن ازم کا اچھوتا خیال پہلی مرتبہ 1960 میں فیوچرلوجی کے ایک پروفیسر ایف ایم۔ 2030 کے ذہن میں آیا۔ یہ صاحب بھی اپنے نام کی طرح ہی اچھوتے تھے۔ ٹرانس ہیومن ازم ایک عالمی فکری اور تہذیبی تحریک ہے جو اس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا کر انسانوں کی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس علم کے ماہرین انسان کی محدود صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے فوائد اور خطرات کا جائزہ لے رہے ہیں ہیں اور ساتھ ہی اس سے متعلق اخلاقی اثرات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ ٹرانس ہیومن ازم میں دونوں قسم کی ٹیکنالوجیز کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ یعنی موجود ٹیکنالوجی جیسا کہ آئی ٹی اور جینیٹک انجینئرنگ اور مستقبل میں آنے والی ٹیکنالوجی جیسا کہ نینو ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس۔
ٹرانس ہیومن ازم کے بعض پر کشش تصورات
ٹرانس ہیومن ازم کا سب سے سے پرکشش تصور عمر کو بڑھانے کا ہے جنیٹک انجینرنگ، نینو ٹیکنالوجی کلوننگ اور دوسری جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہت جلد دائمی زندگی کا حصول ممکن ہوگا
اسی طرح تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری جسمانی ذہنی اور نفسیاتی صلاحیتوں کو اس معیار سے بہت بڑھایا جا سکتا ہے جو کہ قدرتی طور پر انسانوں میں پائی جاتی ہے
۔۔۔ ٹرانس کرینیل ڈائریکٹ کرنٹ کے ذریعے بہت ہی کمزور برقی لہر جو ہمارے دماغ سے گزرے گی، جس سے ہمارے سیکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکتا ہے- یہ ٹیکنالوجی یو ایس آرمی میں استعمال کی جا رہی ہے
ادارے اور تنظیمیں
اس وقت دنیا بھر میں بہت سے ادارے اور تنظیمیں ٹرانس ہیومن ازم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ٹرانس ہیومن ازم کی ایک عالمی تنظیم ورلڈ ٹرانس ہیومن ازم کے نام سے 1998 میں قائم ہوئی۔ جس نے 2008 میں اپنا نام تبدیل کر کے ہیومینٹی پلس رکھ لیا اس تنظیم کا ایک میگزین ایچ پلس کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ اور ٹرانس ہیومن ازم کے لئے بھی عام طور پر ایچ+ سمبل ہی استعمال ہوتا ہے اور یہ ایک سہ ماہی میگزین ہے
آن لائن ٹرانس ہیومن ازم کی کمیونٹی پہلی مرتبہ 2003 میں وجود میں آئی۔ اس کے علاوہ بہت سے ادارے بھی اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں ٹرانس ہیومن ازم کی تنظیموں میں آج ہر طرح کے لوگ شامل ہیں جیسے کہ سائنسدان، طلباء، کاروباری حضرات،فنکار، گلوکار، ادیب، موسیقار فلاسفر اور سرکاری ملازمین۔
عیسائیت کا ایک فرقہ مورمن ازم کا نام بھی اس سلسلے میں بہت نمایاں ہے ۔ان کی اپنی ٹرانس ہیومنسٹ کی ایسوسی ایشن پائی جاتی ہے اور ایک ادارے کا قیام بھی زیر غور ہے جو کہ ٹرانس ہیومنسٹ کو تحقیق کی سہولیات فراہم کرے گا
اس ٹیکنالوجی کے بعض اخلاقی معاشرتی اور معاشی پہلو
کیا موت اور پیدائش کے بغیر معاشرہ اور انسان ترقی اور ارتقا کا عمل جاری رکھ سکیں گے یا یہ سب کچھ انحطاط کا شکار ہوجائے گا؟اسی طرح اگر صرف امراء ہی کو ذہانت، طاقت، ڈرگز اور ٹیکنالوجی پر رسائی ہوگی تو معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کیا ہر شخص کو ذہانت بڑھانے کی دوائیاں میسر ہوں گی؟
ٹرانس ہیومن ازم کا زیادہ مشکل مقصد دماغ کے خیالات پر جو ایک کمپیوٹر پر منتقل ہوں گے، تحقیق کرنا ہے۔ جب ہم کمپیوٹر کے ساتھ زیادہ ذہانت کے ساتھ رابطہ کریں گے تو کیا ہوگا؟
اگر ہر شخص 300 آئی کیو اور ڈاکٹریٹ ڈگری ہولڈر ہوگا تو اس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
کھیلوں کی دنیا میں ٹرانس ہیومن ازم کا بہت بڑا ہاتھ ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے جسم کا کوئی صحت مند عضو(ہاتھ، بازو، ٹانگ وغیرہ) اتار کر زیاد طاقتور عضاء لگوا لے جو کھیل میں اس کے لئے معاون ثابت ہوں
آج کے انسان کا حق ہے کہ اسے ٹرانس ہیومن ازم کے بارے میں معلومات ہوں آج کی بہت سی دوسری ٹیکنالوجی کی طرح یہ بھی بہت عجیب علم ہے۔ یہ ایسے بڑے عظیم مشینی حیوان ہوں گے جو کہ سینکڑوں ٹن وزن کھینچ سکیں گے اور انسانوں سے بہت تیز بھاگنے کی صلاحیت رکھیں گے
قوانین
اگر سائنسدان انسانوں کو جانوروں کے ساتھ ملا کر یا ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر ایک نئی نسل سپر ہیومن، ٹرانس ہیومن، پوسٹ ہیومن یا ٹیکنو ہیو من بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ان" انسانوں " کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا مخلوق کی اس جدید قسم کو بھی اسی عدالتی نظام کا سامنا کرنا ہوگا جو انسانوں کے لیے ہے۔ یا ان کے لئے ایک الگ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہوگی؟ کیا ان کا قتل یا ان کو غلام بنانا بھی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ کسی انسان کو؟ یا اس کا جرائم میں شمار نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ اس نئی برینڈڈ نسل سے سرزد ہونے والے جرائم کے لیے کیا قوانین ہوں گے ؟
برطانوی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس امکان کا اظہار کیا گیا ہے کہ شاید 2056 ء تک روبوٹس کو انسانوں کے برابر حقوق مل جائیں گے۔ یہاں تک کہ ووٹ ڈالنے کا اختیار بھی مل جائے گا اور شاید ان سے ٹیکس بھی وصول کیا جانے لگے۔
ان تمام سوالات پر سائنس کی دنیا میں بحث و تحقیق جاری ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے ہم ٹرانس ہیومن کو زیر بحث لا رہے ہیں یہ بحث پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جا رہی ہے اور دائمی زندگی کا تصور ذہانت کی بڑھوتری اور طاقت کا حصول محض آئس برگ کی چوٹی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ فلسفیانہ اور اخلاقی پیچیدگی اس حقیقت کی بنیاد ہے کہ ٹرانس ہیومن ازم محض انسان کا ٹیکنالوجی کے ساتھ ملاپ ہے۔ ٹیکنالوجی جو کہ روزانہ بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے اور نئی زمینیں فتح کر رہی ہے انسان ہمیشہ سے ٹیکنالوجی استعمال کرتا آرہا ہے۔ اوزاروں کو استعمال کرنا اور خیالات کو پیش کرنے کی صلاحیت ہی ہمیں دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے -لیکن معاشرہ کبھی بھی بنیادی طور پر ان اشیاء سے اس قدر متعلق نہیں رہا جیسا کہ اب ہے مثال کے طور پر ہم نے پچھلے چند سالوں میں دیکھا کہ ہائی سپیڈ موبائل نیٹ ورکس اور صرف چند ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہماری دوسروں کے ساتھ رابطہ کرنے کی صلاحیت بہت بدل گئی ہے۔
آج جس مقام پر انسان اور معاشرہ موجود ہے یہ بہت آہستگی سے ترقی کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ جیسا کہ زبان کو ترقی کرنے میں لاکھوں سال لگے اور ہزاروں سال سے لے کر پچھلی صدی تک ہم نے انسان کی عمر کے دورانیے کو دوگنا کیا اور صرف پچھلے ایک سو سال کے دوران اس دورانیے کو ہو اس کو دوبارہ سے منع کیا کیا اور دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو دوبارہ سے دوگنا کیا ۔ اور دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو تواب آ کر ہم نے سمجھنا شروع کیا ہے۔ اور انسان کی جسمانی اور دماغی صلاحیت میں اضافہ ہوتے دیکھا ہے۔ جیسا کہ کھلاڑی اپنی طاقت بڑھا لیتے ہیں۔
اوپر کی بیان کردہ معلومات ٹرانس ہیومن ازم کا صرف ایک مختصر تعارف ہے۔ لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بہت ہی ناخوشگوار چیز ہے۔ یہ دراصل انسان کو "غیر قدرتی" کرنے کا دوسرا نام ہے کمپیوٹر کے آنے کے بعد انڈسٹری میں اس قدر ملازمتوں کی کمی واقع ہوئی لیکن مادیت پرستی میں بڑھتی ہوئی اس دنیا میں ہر شخص طاقت ا ور ہمیشگی کا خواہشمند ہے اور شاید اسی لیے ٹرانس ہیومن ازم کے خلاف اٹھنے والی آوازیں بہت کمزور دکھائی دے رہی ہیں۔
دائمی زندگی کے فوائد اور غیرمعمولی انسانی طاقتوں کے علاوہ ٹرانس ٹرا ہیومن ازم میں اس انسانی زندگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات اور اخلاقی انحطاط پر بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ اگر زمین پر رہنے والے انسان اچانک مرنا بند ہو جائیں تو آبادی کی زیادتی کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی بحران کا سامنا ہوگا۔ یہاں تک کہ مزید افزائش نسل کو بند کر دیا جائے جو کہ بہت سے دوسرے مسائل کا پیش خیمہ ہو سکتا
لیبارٹری میں تیار ہونے والی اس نسل کے بارے میں یہ چند سوالات اور مسائل ہیں جو اس مضمون میں اکٹھے کیے گئے ہیں تفصیلات میں جانے کا نہ موقع ہے اور نہ ہی تفصیلات ہمارا مقصد اور شاید تفصیلات تک رسائی بھی ہمارے لیے آسان نہ ہو لیکن خدا تعالی نے تو اس بارے میں اپنا فیصلہ صدیوں پہلے سنا دیا تھا اللہ تعالی سورۃ ا لنساء آیت 120 میں فرماتا ہے
ترجمہ : اور میں ضرور ان کو گمراہ کروں گا اور ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور مویشیوں کے کانوں پر زخم لگائیں گے اور میں ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی تخلیق میں تغیر کردیں گے اور جس نے بھی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا تو یقینا اس نے کھلا کھلا نقصان اٹھایا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں
اس آیت کریمہ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے کہ ایک زمانے میں جنیٹک انجینئرنگ ایجاد ہوگی یعنی سائنسدان اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ کہ آج کل ہو رہا ہے چونکہ یہ شیطانی حکم سے ہوگا اس لئے ان کو بہت کھلا کھلا گھاٹا پانے والا بیان کیا گیا ہے اور ان کی سزا جہنم بیان فرمائی گئی ہے مختلف ایجادات کے تعلق میں صرف یہی ایک پیش گوئی ہے جو اپنے ساتھ انزار رکھتی ہے اس کے علاوہ قرآن کریم بکثرت پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے اور کسی پیشگوئی میں انزات نہیں آیا۔ پس جنیٹک انجینئرنگ اسی حد تک جائز ہے جس حد تک اللہ تعالی کی تخلیق کی حفاظت کے لئے استعمال کی جائے اگر تخلیق تبدیل کرنے کے لئے استعمال کی جائے تو اس سے بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے فی زمانہ سائنسدانوں کا بھی ایک بڑا گروہ جنیٹک انجینئرنگ سے خلق تبدیل کرنے کی مخالفت کرتا ہے
(قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی)
جہاں تک دائمی زندگی کا تعلق ہے تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا کل نفس ذائقۃ الموت (الانبیاء، 36 )ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے
مزید فرماتا ہے اینما تکونو یدریککم الموت و لو کنتم فی بروج مشیدہ (النساء، 79ہ) ترجمہ: تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں آ لے گی خواہ تم سخت مضبوط بنائے ہوئے برجوں میں ہی ہو۔
شاید انسان اپنی دانست میں ایسا ہی کوئی مضبوط قلعہ بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے خدا نسل انسانی کی حفاظت فرمائے۔ آمین
☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆
Tuesday, February 9, 2021
زبان کی ابتداء Origion-of-Languages
زبان کی ابتداء
(شائع شدہ الفضل انٹرنیشل 20/ستمبر 2013)
بچہ کی غوں غاں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ زبان کس طرح وجود میں آئی- بچہ عام طور پر جو پہلا لفظ بولتا ہے وہ چار لفظوں کے اس پیٹرن سے بنتا ہے جو کہ تمام دنیا کے بچوں میں مشترک ہے وہ چار لفظ یہ ہیں: ما-ما، با-با، دا-دا، نا-نا
سائنسدان لمبے عرصہ سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ آخر انسان نے زبان کیسے سیکھی- چندسال پہلے 2001-2000 میں سائنسدانوں نے ایک جین دریافت کیا جو کہ بولنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتا ہے (FOXP2) اسے کا نام دیا گیا ان انکاخیال ہے کہ یہ ان بہت سے جینز میں سے ایک جو انسان میں بولنے کی صلاحیت کے ذمہ دار ہیں-اس جینزمیں تبدیلی ہونے کی صورت میں انسان کی بولنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زبان انسانوں اور جانوروں میں ایک واضح تمیز ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ تمام معاشرتی تعلقات جو انسانوں کے درمیان قائم ہیں وہ غیر یقینی ہو جاتے۔
انسانوں کے جینز یہ تبدیلی قریبا دو لاکھ سال پہلے آنی شروع ہوئی جو کہ ارتقاء کے مراحل میں آگے کی طرف ایک چھلانگ تھی- سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دس سے ایک ہزار تک جینز ہوں گے جو بولنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بعض دوسرے سائنسدانوں کو اس سے اختلاف ہے ان کا خیال ہے کہ یہ جینز بولنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جینز میں ہونیوالی کوئی بھی تبدیلی انسان کے بولنے کی صلاحیت کو مکمل طورپر ختم نہیں کرتی
انسانوں اور بن مانسوں میں فرق
ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسان اپنے کزن بن مانس سے کس طرح مختلف ہے؟ انسان اور بن مانس میں میں 96 فیصد ڈی این اے ایک جیسے ہیں۔ لیکن سوچنے کی خداداد صلاحیت جو انسانوں میں ہے وہ کسی اور جاندار میں نہیں۔ ارتقاء کے مراحل کے دوران یہ ایک واضح ترقی تھی جو انسانوں نے کی۔ اگست 2006ء کی ایک رپورٹ کےمطابق سائنسدانوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے ڈی این اے کا وہ حصہ دریافت کر لیا ہے جو ہمیں بن مانسوں سے جدا کرتا ہے موجود تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انسان اور بن مانس کے ارتقائی درخت ایک دوسرے سے سات ملین سال پہلے جدا ہو گئے
ڈی این اے کا ایک حصہ ایسا ہے جس پر تحقیق کرنے سے سے ہم اس راز کو پا سکتے ہیں کہ بولنے اور سوچنے کی صلاحیت اس عرصے میں کس طرح وجود میں آئی۔ لیکن کیوں وجود میں آئی؟ اس کا جواب بہرحال کسی کے پاس نہیں۔ ڈی این اے کے اس حصے میں تبدیلی کی رفتار ر دوسرے حصوں کے مقابلے میں ستر گناہ زیادہ تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ ارتقاء انسان کے پیچیدہ ذہن کو وجود میں لانے کے لئے ضروری تھا ان جینز کی تلاش کرنا جو انسانی ذہن کو دوسرے جانداروں کےذہن سے ممتاز بناتے ہیں حیاتیات میں ہونے والی جدید تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں جینز کی تلاش ہی مسئلہ کا حل ہے کیونکہ جینز کسی جاندار کا بلیو پرنٹ ہوتے ہیں۔انہوں نے انسانوں، بن مانسوں جو اور چوہوں کے 3 ملین جینز کا موازنہ کیا ہے ہے اور اس کے لیے انہوں پچاس جگہوں کی نشاندہی کی ہے زبان کا الہام ہونا
اللہ تعالی سورۃ الرحمن آیت5 میں فرماتا ہے علمہ البیان ترجمہ اس نے اسے بیان سکھایا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "بعض لوگ اس دھوکے میں پڑے ہیں کہ بولی انسان کی ایجاد ہے۔۔۔ ماسوا اس کے یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ہر یک بولی انسان کی ہی ایجاد ہے بلکہ باکمال تحقیق ثابت ہے کہ موجد اور خالق انسان کی بولیوں کا وہی خدائے قادر مطلق ہے جس نے اپنی قدرت کاملہ سے انسان کو پیدا کیا اور اس کو اسی غرض سے زبان عطا فرمائی کہ تاوہ کلام کرنے پر قادر ہو سکے اگر بولی انسان کی ایجاد ہوتی تو اس صورت میں کسی بچہ نوزائیدہ کو تعلیم کی کچھ بھی حاجت نہ ہوتی بلکہ بالغ ہو کر آپ ہی کوئی بولی ایجاد کر لیتا۔ لیکن بہ بداہت عقل ظاہر ہے کہ اگر کسی بچے کو بولی نہ سکھائی جائے تو وہ کچھ بول نہیں سکتا اور خواہ تم اس بچے کو یونان کے کسی جنگل میں پرورش کرو۔ یا انگلینڈ کے جزیرہ میں چھوڑ دو خواہ تم اس کو خط استوا کے نیچے لے جاؤ تب بھی وہ بولی سیکھنے کا محتاج ہوگا ااور بغیر سکھائے کے بے زبان رہےگا
براہین احمدیہ جلد چہارم ص (344))
حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سورہ الرحمن آیت 4 اور 5 خلقہ الانسان، علمہ البیان یعنی اس نے انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا کے تحت فرماتے ہیں
بولنے کی قوت کے بارےمیں واضح طور پر دعوی کیا گیا ہے کہ یہ خدا نے انسان پر نازل کی جس سے ایک ناگزیر نتیجہ نکلتاہے کہ پہلی زبان جو انسان نے سیکھی وہ خدا نے خود سکھائی۔ اس کی روشنی میں انسان کی قوت گویائی آئی کا معمہ نا قابل فہم نہیں رہتا جیسا کہ دوسری صورت میں نظر آتا ہے۔ قوت گویائی انسانوں اور دوسرے جانوروں کے درمیان اتنا واضح فرق ڈالتی ہے جو کہ صرف ارتقاء کے اصولوں سے واضح نہیں کیا جا سکتا تاہم ان میں (ارتقاء کے اصولوں) سے بہت سے واضح مزید بہت سے مزید واضح کیے جا سکتے ہیں لہذا قوت گویائی خدائی الہام کے ذریعے اتارا گیا ایک تحفہ ہے
(Revelation, Rationality, Knowledge and Truth- page 295, 296)
*-------------------------------------------*
Monday, February 8, 2021
کیا ظلم وستم رہ جائیں گے دنیا میں پہچان وطن
( شائع شدہ الفضل انٹرنیشل یکم اگست 2013 )
(آر- ایس- بھٹی)
ہر گزرتے سال کے اختتام پر اور ہر نئے سال کے آغاز پر اخبارات اور خبروں کے ٹیلی ویژن اسٹیشن ملک میں ہونیوالے ظلم و ستم اور جرائم کے جائزے پیش کرتے ہیں۔ ایک حالیہ ٹی وی رپورٹ کے مطابق مارچ 2012ء کے پہلے دو ہفتوں کے دوران صرف کراچی میں 793 موٹر سائیکلیں چھنی گئیں یا چوری ہوئیں اور 209 گاڑیاں چھنی گئیں یا چوری ہوئیں۔ اور نومبر 2011ء کے ایک ماہ کے دوران 65 گاڑیاں چھنی گئیں یا چوری ہوئیں۔ یعنی روزانہ بارہ گاڑیاں ۔ گویا ہر دو گھنٹے کے بعد ایک مالک اپنی گاڑی سے محروم ہوا۔
خیبر پختونخواہ میں سال2005ء میں ایک لاکھ دس ہزار جرائم ریکارڈ کئے گئے جو ایک سال میں بیس ہزار کے اضافہ کے ساتھ ایک لاکھ تیس ہزار ہو گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہت۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیکار یا بیروزگار ہے اس سلسلے میں اگر نوجوانوں کے اعدادو شمار کو دیکھا جائے تو جرائم اور دہشتگردی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
پچھلے ایک سال کے دوران 12 خود کش حملوں میں 82 اموات اور 341 زخمی ہوئے جبکہ 2001 سے لےکر 2011 تک کل 280 خود کش حملوں میں 4324 اموات ہوئیں اور 8622 زخمی ہوئے
اس کے علاوہ دوسری دہشتگردی کی کاروائیوں میں 2003 سے 2011 تک 9620 عام شہری اوور 3443 سیکورٹی فورسز کے اہلکار لقمہ اجل بنے
حکومتی ارکان اس سلسلے میں کسی "بیرونی ہاتھ" کے ملوث ہونے کا کتنا ہی راگ الاپیں اور خواہ کتنے ہی ثبوت کیوں نہ مہیا کریں اس تلخ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ان کاروائیوں میں ملوث زیادہ تر اپنے ہی ملک کے لوگ ہیں بظاہر ایک رحمت عالم کے ماننے والے اور اسکی محبت کا دم بھرنے والے
اس رحمت عالم ابر کرم کے یہ کیسے متوالے ہیں
وہ آگ بجھانےآیا تھا یہ آگ لگانے والے ہیں
وہ والی تھا مسکینوں کا، بیواؤں اور یتیموں کا
یہ ماؤں بہنوں کے سر کی چادر کے جلانے والے ہیں
وہ جود وسخا کاشہزادہ تھا بھوک مٹانے آیاتھا
یہ بھوکوں کے ہاتھوں کی روٹی چھین کے کھانے والے ہیں
یہ زر کے پجاری بیچنے والے ہیں دین وایمان وطن
اے دیس سے آنیوالے بتا کس حال میں یاران وطن
اگر کسی مملکت میں مظلوم کے مقابل پر ظالم کو آئینی تحفظ حاصل ہو تو ایسی مملکت میں امن کی تلاش محض ایک سعی لا حاصل ہے- لیکن پھر بھی بس ایک ہی دعا اور ایک ہی امید کہ جو ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی جس سے چمٹے رہنا ہے
جیتیں گے ملائک خائب و خاسر ہو گا ہر شیطان وطن
_____________________