ALLAH IS THE GREATEST

THERE IS NO GOD BUT ALLAH.

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

ALLAH HO AKBAR الله اکبر

ALLHA IS THE GREATEST.

ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL

LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE

Everthing is created by ALLAH

Nature is always perfect.

ALLAH Knows Everything

No one is powerful then "ALLAH"

LOVE FOR HUMANITY

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

Friday, August 13, 2021

our homeland is our love یہ خاک وطن ہے جاں اپنی

        
اگست کے ملے جلے خیالات 

                یہ خاک وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے 

 (آر۔ ایس۔ بھٹی)                                                                                                 

     یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ پاکستان میں موجود  اٹھانوے فیصد مسلمانوں کے مذہبی جذبات  کس قدر نازک ہیں   نہ صرف نازک ہیں بلکہ کچھ عجیب / متنازعہ  قسم کے ہیں اور ان کی دل آزاری کچھ انوکھی طرز سے ہوتی ہےمثلا

کسی احمدی عبادت گاہ پر موجود مینار صرف اس لئیے توڑ دیئے جاتے ہیں کہ مینار کی موجودگی سے اس عبادت گاہ کے  مسجد ہونے کا گمان ہوتا ہے  اور یہ مسلمانوں کو گوارا نہیں کہ ان کی دل آزاری ہوتی ہے 

اور کسی مندر میں موجود مورتیوں کو کس لئیے توڑا جاتا ہے ؟ شائید اس لیئے کہ یہ سب اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا احمدیوں کی عبادت کو غیراسلامی بنانا اور غیر مسلموں کی عبادت گاہ کو اسلامی طرز پر ڈھالنا، دونوں مقامات پر مسلمانوں کی دل آزاری کی وجوہات بالکل ایک دوسرے کے برعکس کیوں ہیں؟ ۔۔۔ 

  اگر ایک احمدی کلمہ پڑھے تو دوسرے مسلمانوں کی دل آزاری  ہوتی ہے اور اس پر مقدمہ قائم کیا جاتا ہے 

لیکن ایک ہندو کو تھپڑ مار مار کے زبردستی اللہ اکبر کہلوایا جاتا ہے ۔۔۔۔اور اس سے مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہوتی ہے

احمدی کے کلمہ پڑھنے سے دل آزاری کیوں ہوتی ہے اور غیر مسلم سے اللہ اکبر کہلوانے سے کیوں نہیں ہوتی؟ 

یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب ابھی تک منظر عام پر تو نہیں آئے لیکن گمان ہے کہ پاکستان کے مذہبی علما اپنے کسی مدرسے کی لیبارٹری میں ان کے جواب تیار کروا رہے ہوں ؟ ۔۔۔ 

لیکن یہ مذہب کے ٹھیکیدار ایک بات تو مان گئے ہوں گے کہ یہ مذہبی اقلیتوں پر جتنا بھی ظلم کریں نہ تو یہ ان کا مذہب  چھین سکے نہ ہی وطن کی محبت ۔ 

یہ خاک وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے

اور پیارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان "حب الوطن من الایمان" ۔ پر ہم کاربند ہیں، اور رہیں گے انشاءاللہ 

مذہبی منافرت ہمارے ماحول میں پائی جانیوالے تناو کی واحد وجہ نہیں ہےبچوں کے بارے میں جرائم نئی نئی شکلیں بدل کر سامنے آتے ہیں جن کو ضبط تحریر میں لانے کے لئیے بھی حوصلہ چاہیئے

صنف نازک کے خلاف ہونے والے مظالم کی نوعیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ہم نے دانستہ طور پر یہاں خواتین کی بجائے صنف نازک کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ جانوروں کی صنف نازک بھی اب انسانوں کی سفاکی سے محفوظ نہیں اور قبروں میں دفن مردے تو زندہ انسانوں کی بے رحمی کا نشانہ بننے   سے نوحہ کناں ہیں

 مقصد ملک میں ہونے والے جرائم کو گنوانا نہیں کیوں کہ یہ کام تو  بڑے بڑے عالمی ادارے کر رہے ہوتے ہیں دیکھنا تو صرف یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی سمت کیا ہے؟ ایک طرف مذہبی جنونیت بھی اپنی انتہاوں کو چھونا چاہ رہی ہے اور جنسی جنونیت بھی۔ یعنی دو بالکل متضاد چیزیں بیک وقت عمل پیرا ہیں۔ اگر حکومت کا موقف سنا جائے تو وہ بھی اتنا ہی مبہم اور دوہرا معیار لئیے ہوئے ہے جتنا عوام کا ۔ یعنی کبھی ریپ ہونے کی تمام ذمہ داری ریپ ہونیوالوں پر ڈالی جاتی ہے کبھی اس کے برعکس بیان آتا ہے۔ کبھی ہمسا یہ ملک کے مذہبی جنونی گروہ دشمن ہوا کرتا تھا اور اب انھیں محافظ کہا جاتاہیں۔ کبھی وہ  قاتل تھے اور اب شہید ہیں۔ 

لیکن یہ اگست کا مہینہ ہے اور  لکھنا تو تھا قائد اعظم کی اولوالعزم شخصیت پر،  ان کے برصغیر کے مسلمانوں پر احسانات کے بارے میں،  لیکن نظر بار بار قائد اعظم کے پاکستان کی حالت زار کی طرف لوٹ جاتی ہے

کہتے ہیں کہ جب کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اسے اس کے اسلاف سے بد ظن کر دینا چاہیئے۔ اور ہماری قوم اپنے محسن  قائد کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور دو قومی نظریہ کوبھی۔   سوچنے کی بات ہے کیا دو قومی نظریہ قائد اعظم کا تخلیق کردہ تھا؟  

یہ نظریہ تو سینکڑوں سالوں سے برصغیر کے مسلمانوں کا خواب تھا۔ جسے قائد نے عملی جامہ پہنایا۔ اگر برطانوی تقسیم کاروں نے مسلمانوں کی آبادی کے مطابق انھیں خطہ زمین نہیں دیا اور تقسیم   کے منصوبے میں سقم رکھے گئے تو اس میں قائد اعظم تو قصور وار نہ تھے۔ 

لیکن قائد اعظم کی طرف سے وضاحتیں دینے کی بجائے ہمیں ان لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے جنھوں نے یا جن کے بڑوں نے  اسوقت بھی قائد کی مخالفت کی اور پاکستان بننے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور آج  بھی ان کی کردار کشی میں مصروف ہیں صرف ایک ہی مذہبی جماعت تھی جماعت احمدیہ جس نے پاکستان بنانے میں بحیثیت جماعت قائد کا ساتھ دیا 

 اگر برصغیر کے مسلمان یک جان ہوکر اس وقت قائد کا ساتھ دیتے تو تقسیم کے وقت کسی کو پاکستان کے حصہ میں ڈنڈی مارنے کی جرات نہ ہوتی اور سینکڑوں سالوں سے برصغیر کے مسلمانوں کے سینوں میں سلگتی الگ خطہ زمین کی خواہش عظیم  الشان طریقہ سے پوری ہوتی لیکن افسوس مسلمان تب بھی بکھرے ہوئے تھے اور آج بھی 

افتخار عارف کی  نظم "قائد کے حضور"  بار بار  ذہن میں گونجتی ہے

 

       بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد   

کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد

تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے

ایسی بدلی ترے کوچے کی فضا تیرے بعد

اور  تو کیا کسی پیماں کی حفاظت کرتے

ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد

ترے قدموں کو جو منزل کا نشاں جانتے تھے

بھول بیٹھے تیرے نقش کف پا تیرے بعد

مہرو مہتاب دو نیم ایک طرف خواب دو نیم

جو نہ ہونا تھا وہ سب ہو کے رہا تیرے بعد

**********************                                     







 


Seal of the Prophets خاتم النبیین








 

Saturday, July 31, 2021

حج پر نہ جانے پر اعتراض

 

حج پر نہ جانے پر اعتراض

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

حج کے لئے نہ جانے کی وجہ ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟

فرمایا:۔

یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ248)

Someone asked that opponent maulvis object as to why Mirza sahib does not go to Hajj?

The Promised Messiah said:

“These people raise this objection out of mischief. The Holy Prophet (saw) lived ten years in Medina. It was only two days travel between Medina and Mecca, but Holy Prophet (saw) did not perform Hajj for ten years, even though he could have arranged for conveyance. It is not the only condition for Hajj that one has sufficient wealth but it is also important that there is no danger of mischief and there should be means available to reach there with peace and to perform Hajj. When beasts like maulvis issue fatwa of death here and do not fear the government, then what else could they not do there? But these people have no interest that we do not perform Hajj. If we perform Hajj then will they consider us Muslims? And will they join our Jama’at? Well, firstly all these Muslim scholars should write a declaration that if we perform Hajj then all of them will repent on our hand and will enter our Jama’at and will become our followers. If they write as such and take an oath then we will perform Hajj. Allah (swt) will arrange means of convenience for us so that in future the mischief of maulvis ends. It is no good to object mischievously. This objection of theirs does not come on us but on Holy Prophet (saw) as well because Holy Prophet (saw) performed Hajj in his last year only.” (Malfoozaat, Vol. 5, p. 248)

Friday, July 30, 2021

عیسائی چرچوں کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ

 

عیسائی چرچوں کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ

اس کے عقائد میں معقولیت کی تلاش ہے

چوہدری خالد سیف اللہ خان

ایک حالیہ سروے کے مطابق اگرچہ آسٹریلیا کے ۷۴ فیصد لوگ خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر صرف ۴۲ فیصد یسوع مسیح کی الوہیت اور مُردوں میں سے دوبارہ جی اٹھنے کے قائل ہیں۔ جنت کے وجود کو صرف ۵۳فیصد مانتے ہیں اور جہنم کو ۳۲ فیصد۔ شیطان کے خارجی وجود کو صرف ۳۳ فیصد تسلیم کرتے ہیں ۔ اس خبر پر سڈنی مارننگ ہیرلڈ نے اپنے اداریہ میں یوں تبصرہ کیا ہے :

’’اس ہفتہ کے آغاز میں ہیرلڈ نے ایک حالیہ سروے کے جو نتائج شائع کئے تھے ان سے معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ آسٹریلیا کے شہریوں کا تین چوتھائی حصہ خدا کے وجود پر ایمان رکھتاہے لیکن نصف سے بھی کم ایسے ہیں جو عیسائیت کے مرکزی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں ۔ چنانچہ نیشنل چرچ لائف سروے(NCLS)نے ایڈتھ کوون یونیورسٹی پرتھ کے ساتھ مل کر جو سروے کیا ہے اسکے مطابق صرف ۴۳فیصد یہ مانتے ہیں کہ یسوع مُردوں میں سے جی اٹھا تھا اوراس سے بھی کچھ کم (۴۲) فیصد یسوع کی خدائی پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ تو معلوم شدہ بات ہے کہ گزشتہ مردم شماری میں ۷۰فیصد شہریوں نے اپنا مذہب عیسائیت لکھوایا تھا تو پھر یہ اعدادو شمار کیا ظاہر کرتے ہیں؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ عیسائی چرچوں کو ایک گھمبیر چیلنج کا سامنا ہے ۔ عیسائیت کا اصل مسئلہ اس کے عقائد میں معقولیت کی تلاش ہے (Christianity has a Plausibility Problem)۔یہ ابھی تک کائنات کے اس تصور سے چمٹی ہوئی ہے جو جدید سائنس کی نسبت زمانہ وسطی کے توہمات کے زیادہ قریب ہے ۔ چرچ سکھاتاتویہ ہے کہ سب کو اپنے دائرہ کے اندر لانا چاہئے لیکن خود اس کا اپنا عمل لوگوں کو اپنے دائرہ سے باہر نکالنے کا ہے۔(سب سے نمایاں مثال عورتوں کی مذہبی رسومات اور اس کے تنظیمی ڈھانچہ میں بھرپور شمولیت کی ہے )۔ پھر عیسائیت بظاہر جماعت کی وحدت کی اہمیت کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر باوجودیکہ اس پرتیسرا ہزار سال شروع ہونے والاہے یہ کئی گروہوں میں منقسم ہے اور باوجود ایک مشترکہ مقصد کے ادّعا کے انہوں نے اپنے اختلافات حل کرنے کی کوئی راہ اب تک نہیں نکالی۔

دوسری بات جو سروے سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چرچوں کو درپیش چیلنج صرف انہی تک محدود نہیں بلکہ یہ سبھی مروّجہ مذاہب کا مسئلہ ہے ۔ ان سب کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے ۔ مذکورہ بالا ادارہ کے مطابق ۱۶فیصدسے بھی کم آسٹریلین ایسے ہیں جو مہینہ میں ایک بار بھی چرچ جانے کی تکلیف گوارا کرتے ہیں اور اگرلوگ چرچ نہیں جاتے تو یہ خیال کرنا درست ہوگا کہ وہ چرچ کے قائدین کی باتوں کو بھی کم ہی درخود اعتنا جانتے ہیں۔ نیز و ہ اس اخلاقی تعلیم پر معترض ہیں جن کوقبول کرنا وہ دوبھر سمجھتے ہیں۔

بایں ہمہ یہ احساس بھی شدید ہے کہ انسان کوزندگی گزارنے کے لئے مذہب کی بھی ضرورت ہے۔(There is a religious dimension to life)۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ لوگوں کی اکثریت خدا کی موجودگی پر یقین رکھتی ہے ۔چنانچہ ایسٹر اور کرسمس پر چرچوں میں حاضری بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ماوراء طبعی امور میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ جس کو اس بات میں شک ہو وہ اس بات پر غور کریں کہ آج کل کتنے رنگ برنگ کے ’’مذاہب‘‘وجود میں آ رہے ہیں اور Spiritualityکے موضوع پر مارکیٹ میں کتابوں کی کتنی بھرمارہے ۔

(سڈنی مارننگ ہیرلڈ ۹۹۔۴۔۲)

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۸؍مئی۱۹۹۹ء تا۳؍جون ۱۹۹۹ء)



لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ


لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ






ہمارے  مذہب کا خلاصہ اور لب لباب


-یہ ہے کہ لاالٰہ الّا اللہ محمد رسول الله ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا
اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شُعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافر ہے۔

حضرت مرزا غلام احمد، مسیح موعودؑ۔ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3۔ صفحہ169تا 170

















Saturday, July 17, 2021

مجھے خوف آتش گل سے ہے۔۔۔۔

                                                        مجھے خوف آتش گل سے ہے۔۔۔

     ( آر- ایس-بھٹی)                                                                                                                   
بھاگتی دوڑتی زندگی کے آگے اچانک کرونا سپیڈ بریکرکے آجانے سے اس کی رفتار کچھ آہستہ ہو گئی۔  کہتے ہیں کہ کرونا کی وبا نے ملکی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب کئے ہیں، اور یہ بات درست بھی ہے کیونکہ بہت بڑی تعداد میں کاروبار زندگی کو تالا پڑ گیا
لیکن کروناکو آئے تو ابھی ایک سال ہوا ہے، کیا اس سے پہلے ہماری معیشت چھلانگیں لگاتی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی؟ ایسا نہیں ہے،  یقینا اور بھی بہت سے کرونا ہیں جو پچھلے چالیس، پچاس سالوں سے پاکستان کی معیشت کو چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ بڑے بڑے شاہانہ اخراجات کرنے والی پاکستان کی ایلیٹ کمیونیٹی کی اولادیں،  جن میں سے ہر کوئی خود کو نواب ابن نواب ثابت کرنے کی سر توڑ کوششیں کر تا رہتا ہے۔ لیکن پاکستان بننے کہ وقت پر جو  اصل نواب پاکستان آئے انھوں نے اپنے سرمائے پاکستان کے لئیے وقف کیے اور کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا،  اور نہ ہی پاکستان کے خزانے کی مدد کے لئیے دی گئی رقوم کی واپسی کے لئیے کوئی شرط رکھی اور نہ ہی  اپنی دولت کو ملک کے مفاد پر فوقیت دی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان، نواب آف بہاولپور،  سرآغا خان۔ ان میں سےچند نام ہیں لیکن اس کے بعد کی نسل نے جونک کی طرح ملک کو چوسنا شروع کیا، اور ملکی دولت کو ملک سے باہر بھیجنااور اس کو ذاتی دولت سمجھنا شروع کردیا 

 پچھلے ماہ پاکستان نے 2021۔22 کا بجٹ آٹھ ہزار چارسو 87 ارب روپے کا پیش کیا ہے، جس میں سے خسارہ چار ہزار ارب روپے ہے، یعنی آمدنی سے قریبا دوگنے اخراجات ہیں-اس میں دفاعی بجٹ ایک ہزار 37 سو ارب روپے کا ہے یعنی کل بجٹ کا آٹھواں حصہ اور گزشتہ سال سے چھ فیصد زیادہ ہے جو کہ یقینا ایک بہت بڑا تناسب ہے


اگر ہم پاکستان کے شروع کے چند سالوں کے بجٹ پر ایک نظر ڈالیں تو انتہائی مشکل حالات کے باوجود بھی اس دور کے بجٹ آج کل کے بجٹوں کی نسبت حوصلہ افزا ہیں-  لیاقت علی خان نے پہلا مالی بجٹ 1948 -49   کا پیش کیا تھا ۔ اگر چہ اس وقت مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان کا  پہلابجٹ(1) 10 کروڑ خسارے کے ساتھ  پیش کیا گیا تھا، مگر اس کے بعد 1953-54 کے بجٹ کے علاوہ مالی سال 1969-70 تک تمام بجٹ خسارے کے نہیں بلکہ بچت کے بجٹ تھے۔

اس کے بعد صدر جنرل یحییٰ خان کے دور میں مالی سال1970-71  اور 1971-72کے لئے خسارے کے بجٹ پیش کئے گئے۔ 16 دسمبر 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو خاصا نقصان پہنچا، لیکن جون 1972 تک مالی سال ختم ہوا تو بھٹو حکومت نے پہلا بجٹ پیش کیا۔ یہ مالی سال 1972-73 کا وفاقی بجٹ اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں تبدیل ہونے کے بعد پہلا بجٹ تھا، (2) لیکن حیرت انگیز طور پر یہ خسارے کا بجٹ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ملکی خزانہ بالکل خالی تھا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی صرف چار مہینوں کی رقم تھی۔

 اس کے بعد متواتر 13 سال تک خسارے کے بجٹ آئے۔ غالبا اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ پاکستان کے ایک بہت مایا ناز ماہر اقتصادیات  جناب ایم ایم احمد صاحب  پر 1971 میں احمدی ہونے کی وجہ سے قاتلانہ حملہ ہوا ،جس کے کچھ عرصہ کے بعد انھوں نے پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا -ایم ایم احمد صاحب کا نام پاکستان کی معیشت  میں بہت نمایاں نام تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان سے لے کر  ہر مشکل وقت میں  ملک کی رہنمائی کی۔ اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک کہ اسلم قریشی نامی ایک شخص نے  ان پر قاتلانہ حملہ  کیا، یہ حملہ ان کے خلاف  چلائی  گئی ایک منظم نفرت انگیز مہم کاحصہ تھا  ،  اس کے  کچھ عرصہ  کے بعد  انھوں نے پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا 

 اس کے بعد ضیاءالحق کے دور میں جونیجو حکومت  کے لیے  مالی سال 1986-87 کے لئے بجٹ معروف ماہر اقتصادیات   ڈاکٹر محبوب الحق نے بنایا، (3) یہ خسارے کے بجائے 47 کروڑ کی بچت کا بجٹ تھا۔ اور  13 سال کے بعد بغیر خسارے کا بجٹ تھا- جو کہ جونیجو حکومت کا آخری بجٹ ثابت ہوا- اوراب تک کا بغیر خسارے کے  یہ آخری بجٹ ہے۔ اس کے بعد  آج تک اگلے 32سالوں میں خسارے سے پاک کوئی بجٹ نہیں آ سکا(گویا  یہ غلطی  کسی نے نہیں دہرائی 
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کی معیشت کےلئیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں انھیں باقاعدہ منصوبہ کے تحت ان معاملات سے دور رکھا جاتا ہے۔ 

ہمارے موجودہ نظام میں حکومت کے جو تین ستون ہیں ان کے اخراجات کو کم کرنے کی کبھی بات نہیں کی جاتی، صرف دفاعی بجٹ پچھلے سال سے 6 فیصد زیادہ ہے،  اس کے علاوہ وزیراعظم ہاوس کے اخراجات،  پریذیڈنسی کے اخراجات،  مسلح افواج کے افسران کے مراعات ، بیوروکریسی ، اور جناب عدلیہ کا تو ذکر بھی توہین کے زمرے میں آجائے گا
 اس کے علاوہ عوام ہر پانچ سال کے بعد ایم این اے اور ایم پی اے کی ایک فوج منتخب کر کے  اسمبلی میں بھیجتے ہیں تاکہ ان تمام مسائل کو حل کیا جا سکے، لیکن  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مسا ئل کو حل کرنے کی بجائے  یہ لوگ ان مسائل میں اضا فہ کا باعث  بن رہے ہوتے ہیں - کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کا ایک ایم این اے ہمیں سالانہ کتنے میں پڑتا ہے۔

ایک ایم این اے کی ماہانہ  الاونسز 2016ء میں کی گئی ترمیم کے مطابق کم از کم  4،70،000    روپے ہوں گے 
ماہانہ تنخواہ 2،00،000*  
 ٹرانسپورٹ 50،000 *
  حلقے کے لئیے 70،000 روپے   *
100000   مینٹیننس      
3،00،000   سفر کے لئیے سالانہ الاونس 
   آئی ٹی الاونس 300000
، ٹرین کے اے۔سی فرسٹ کلاس میں لامحدود مفت سفر  *
 ،اس کے علاوہ کسی بھی گورنمنٹ ہاسٹل میں مفت رہنے کی سہولت* 
،گھر کے لئیے بجلی  مفت* 
  اس کے ساتھ گاڑی ، پٹرول، ڈرائیور،پی اے، ملازم وغیرہ ،  اسمبلی کے اجلاس کے دوران  الاونس بھی الگ سے ملتے ہیں
اس طرح ایک سال کی  قومی اسمبلی  کے ممبران کی تنخواہ  2 ارب روپے تک جاتی ہے
 یعنی دس ارب  روپے صرف قومی اسمبلی کے ممبران کی مراعات کی نظر ہو جاتاہے ۔ یہ صرف قومی اسمبلی کے ممبران کے اخراجات ہیں  -اس میں ایک سو سینٹرز،  65 بلوچستان اسمبلی، 168 سندھ اسمبلی، 145 کے پی اسمبلی، 371 پنجاب اسمبلی،--- ( کل 749) ایم پی اے یعنی کل 1091 افراد
 یہ وہ ایک ہزار لوگ ہیں جنھیں ہم ملک کے خزانوں کی کنجیاں سونپ دیتے ہیں اس کے بعد اگر یہ ۔۔..۔ چہرے بنا کر ملکی معیشت کی تباہی کی کہانی سنائیں تو اس کے ذمہ دار یہ خود ہیں -جبکہ ان کے اپنے رہن سہن اور جائیدادوں میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی اور نہ ہی کبھی کسی سیاستدان نے ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لئیے اپنے سرمائے ملکی خزانے میں جمع کروائے ہیں 

 پھر حکومت کا  دوسرا ستون؛ جو کہ دوسرا بھی ہے اور پہلا بھی کیونکہ افواج پاکستان نے نہ  صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائی بلکہ بوقت ضرورت ملک کی باگ دوڑ بھی سنبھالی ۔ اس لئیے یہ نہ صرف ملکی خزانے میں سے اپنا وافر حصہ وصولتے رہے ہیں بلکہ قریبا تیس سال سے زائد ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بھی رہے ہیں اور ملکی معیشت کی تباہی میں سیاستدانوں کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں -ان دونوں شعبوں کو کبھی بھی پاکستان کی معیشت کی موجودہ حالت سے بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم حیران ہوتے ہیں ان لوگوں پر جو سیاستدانوں کی خاطر فوج کو برا بھلا کہتے ہیں اور فوج کی طرف داری کرتے ہوئے سیاستدانوں کو برا کہتے ہیں۔۔۔۔ 
 ان تمام اعداد و شمار میں عدلیہ کو دی گئی مراعات، بیورو کریسی کے ٹھاٹھ باٹھ کے اخراجات، اعلی عہدوں پر فائز حکومتی افسران، مشیران اور  وزرائےمملکت  کو دی گئی آسائشیں شامل نہیں ہیں- یہاں یہ بتانا مقصود ہر گز نہیں ہے کہ ایک  ایم این اے ، سیکرٹری ، جج، فوج کے افسر کو کیاکیا مراعات ملتی ہیں اصل چیز یہ ہے کہ اسکے بعد بھی یہ تمام لوگ کرپشن کرتے ہیں اور ملک کی دولت لوٹتے ہیں  یہ تو وہ تمام مراعات ہیں جو قانونی طور پر ان لوگوں کوحاصل ہیں.
کسی ملک کی بہتر معاشی صورتحال اور اقتصادی استحکام کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے پاسپورٹ کی دوسرے ممالک کے پاسپورٹ کے مقابلے میں کونسا نمبر ہے اور پاکستانی پاسپورٹ اس فہرست میں نیچے سے چوتھے نمبر پر ہے۔ یہاں کسی بھی صاحب اقتدار اور صاحب اختیار کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کوئی بڑی بات نہیں- اسلئے ان تمام اعدادوشمار اور شاہانہ اخراجات کے بعد  ملک کی خراب معاشی صورتحال کا   بوجھ  محض کرونا وائرس پر نہیں ڈالا جاسکتا
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں 
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے 
       
سوال:       اگر آپ کے گھر کے اخراجات آپ کی آمدنی سے دوگنا ہو جائیں تو آپ کیا کریں گے؟ 
        ----------------------------------------------------              

1-لیاقت علی خان نے پہلا مالی    بجٹ 1948 -49    کا پیش کیا تھا ۔ اس وقت مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان کے بجٹ کا حجم 89 کروڑ 57 لاکھ تھا جبکہ آمدنی 79 کروڑ 57 لاکھ    

 
2 -اس کا حجم 8 ارب 96 کروڑ64 لاکھ تھا

3-جس کا حجم 1 کھرب 52 ارب21 کروڑ تھا۔ اس بجٹ میں آمدنی1 کھرب52 ارب89 کروڑ تھی 


https://www.passportindex.org/byRank.php







Wednesday, June 2, 2021

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قباکر Ahmadies lives matter

 

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا کر

آر۔ ایس بھٹی

پچھلے دنوں پی ٹی آئی کےایم پی اے نذیر چوہان کے خلاف وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اکاونٹیبلٹی نے مقدمہ درج کروایا ہے جس میں انھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نذیر چوہان نے مجھے قادیانی کہہ کر میری زندگی داو پر لگا دی ہے ۔ 

اس مقدمہ کے بعد بھی کیا کسی کے ذہن میں یہ شک رہ جاتا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کی زندگیاں کس قدر خطرے میں ہیں۔ اگر ایک اعلی حکومتی عہدیدار کی زندگی کو محض  اس بنا ء پر خطرہ  لاحق ہو سکتا ہے کہ اس پر  احمدی ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے،  تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں موجود عام احمدی کی زندگی کس قدر خطرے میں ہے لیکن آفرین ہے ان حکومتی وزیروں اور مشیروں پر جو احمدیوں کے خلاف ان تمام خطرات کو محض" پروپیگنڈا"  قرار دیتے ہیں۔ 

       پاکستان میں یہ روایت برسوں چلی آ رہی ہے کہ      

جب کوئی ایمانداری سے کام کر رہا ہو تو اسے ----> قادیانی کہہ دو

جب کسی کو راستے سے ہٹانا ہو تو اسے ----> قادیانی کہہ دو

جب بھی کسی سے اختلاف رائے ہو تو اسے ----> قادیانی کہہ دو

لیکن ایسا غالبا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی شخص اس الزام کو لے کر عدالت جا پہنچا ہو۔  شہزاد اکبر کے اس مقدمے نے ان تمام حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی کہ پاکستان اقلیتوں کے لئیے ایک محفوظ ملک ہے اور حکومت کے اپنے ہی مشیر نے اسے کٹہرے میں لا کھڑا  کیا ہے۔ گویا اس  گھر کو اس کے اپنے ہی چراغ نے آگ لگا دی۔ 

اس کے بعد حکومت کے مشیر برائے مذہبی امور کا جو بیان سامنے آیا وہ بھی انتہائی شرمناک ہے جس میں انھوں نے کمال ڈھٹائی سے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب شہزاد اکبر نے یہ وضاحت دے دی ہے کہ وہ قادیانی نہیں ہیں تو ان کی وضاحت کو قبول کرنا چاہیئے اور الزام لگانے والوں کو معذرت کرنی چاہیئے۔ علامہ طاہر اشرفی کے اس بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کو اس بات کی ذرا سی بھی پرواہ نہیں ہے کہ پاکستان میں موجود احمدیوں کی زندگی کو کیا خطرات ہیں ؟ ان کی کل دلچسپی محض اس بات میں ہے کہ کسی طرح شہزاد اکبر کو غیر قادیانی ثابت کیا جا سکے اور ان کی زندگی کو لاحق خطرات دور کئیے جا سکیں۔ یہ علامہ، وزیراعظم  کے خصوصی مشیر برائے مذہبی امور ہیں ، لیکن خدا معلوم یہ کون سے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جس میں ایک عام شہری کی زندگی کی کوڑی کی بھی قدر نہیں


پاکستانی معاشرہ بہت سے تضادات کا شکار ہے مثلا لوگ ملاؤں کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ ان کے پیچھے نمازیں پڑھنا اور ان کے پاس اپنے بچوں کو دین کا علم سیکھنے کے لئیے بھیجنا اور ان کے اشاروں پرکسی دوسرے مسلک یا مذہب کے لوگوں پر ظلم کرنا عین عبادت گردانتے ہیں 
ہمسایہ ملک کی فلمیں، ڈرامے دیکھنا جائز سمجھتے ہیں لیکن ان کے پیاز،  ٹماٹر حرام جانتے ہیں 
مغربی معاشرے کو تو کسی صورت برداشت نہیں کرتے مگر مغربی ممالک کے ویزے لگوانے کے لیئے لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا ان کی زندگی کا نصب العین ہے 

انھی تضادات کی لمبی فہرست میں ایک اضافہ پچھلے کچھ عرصے میں ہوا ہے کہ متواتر اقلیتوں کا استحصال کرو اور متواتر اقلیتوں کے محفوظ ہونے کا راگ الاپتے رہو۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں رہنے والے سبھی لوگوں کے دل اور دماغ میں درست اور غلط کا موازنہ کرنے کا احساس ختم ہو چکا ہے کیا واقعی ان میں کوئی رجل رشید باقی نہیں رہا۔ ان کے  معیار دوسروں کے لئے اور خود کے لئے اس قدر مختلف کیوں ہیں ؟ 
اور جناب کہاں ہیں شاہ محمود قریشی ؟ جنھوں  نے جرمنی میں  احمدیوں سے متعلق سوال پر سینہ تان کر کہا تھا کہ یہ سب پراپیگنڈہ ہے۔ انھیں چاہیئے تھا کہ وہ شہزاد اکبر کو بھئ سمجھاتے کہ احمدی پاکستان میں بالکل محفوظ ہیں اور یہ سب پراپیگنڈہ ہے، اور یہ کہ اگر انھیں کسی نے قادیانی کہہ بھی دیا ہے تو اس سے انکی  جان کو قطعا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ اپنی پر اثر تقریر شہزاد اکبر کے سامنے بھی کرتے تو یقینا اس مقدمے کی نوبت نہ آتی اور حکومت کی اپنی ہی صفوں میں موجود یہ اختلاف کھل کر یوں سامنے نہ آتا   

لیکن اسے آپ قدرت کی ستم ظریفی کہہ لیں کہ حقائق نہ چاہتے ہوئے بھی سامنے آ جاتے ہیں اور وقت کی گردش ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سچائی کو سامنے لے کر آ جاتی ہے اور محفوظ اقلیتوں کے دعووں کی حقیقت خود حکومت کے اپنے ہی وزیروں مشیروں کے بیانات سے کھلتی جاتی ہے اسی لئیے کسی نے کیا خوب کہا ہے 
اتنی نہ بڑھا پا کئی داماں کی حکایت 
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا کر

















Tuesday, June 1, 2021

“Ways to achieve Taqwa”



 By:  M.A.Virk


    Allah says in the Holy Quran

 Before I start to present my humble submission about rightness, I pray that I act upon    every word that I have to quote today.

Taqwa is a broad word that literally means “to avoid evil things" - the most precise definition of Taqwa according to the Holy Qur'an and the hadiths is "Fear of God"

 The whole Quran states

         Verily the most honorable of you in the sight of Allah is a one, who is most righteous."

 Allah the all-knowing makes it absolutely clear, that the root of all virtues is Taqwa.

 The word Taqwa mentions more than 250 times in the Holy Quran and integrate with every aspect of human’s life- our prayers, our actions, our relationships, our trade deals, and in all other interactions., Taqwa is the main guiding factor, and that what Allah has continuously reminded us.

In the very beginning of the holy Quran declares loud and clear that;

This is a perfect book; that no doubt in it; it is a guidance for the righteous.

Means having Taqwa even in its very basic form is fundament requirement for seeking the true guidance from this ultimate book.

According to a hadith, The Holy Prophet Muhammad (peace and blessings of Allah be upon him) was asked:

“What deeds will take people to Paradise?  The Holy Prophet said: "Taqwa and Good character."

 Once someone asked Abu Hurayrah razi allah talah un ho,  about the meaning of Taqwa.

He replied have you ever taken a thorny path? What did you do, He said, " if I saw thorns, I would avoid them, and try not to get entangled in thorns?" Hazrat Abou Hurayrah razi allah un ho said, "This is Taqwa."

Source: al-Zuhd al-Kabīr 963

The Promised Messiah A.S further states;

There are many elements in righteousness. It is righteousness to avoid pride and self-esteem and to refrain from unlawful acquisition and ill manners. A person who displays courtesy and good manners, converts his enemies into friends. Blessed is the one who adopts righteousness in a time of success and prosperity and most unfortunate is one who does not turn to righteousness after stumbling

Malfoozat, Vol. I, p. 77 ).

Our beloved Imam Hazrat Khalifa tul Mashi Khamis aba.said

Taqwa is to abstain from vanity, selfishness, unlawful wealth and to refrain from unkind habits and to display good morals is also Taqwa [righteousness]. “[Good] Morals does not only mean to speak with a soft tone or using polite language. Instead the attributes such as bravery, generosity and modesty are all moral strengths and using them at the correct time makes they part of one’s morals.”

This is the principal teachings which we must always bear in mind wherein we should exhibit good morals by adhering our every action to Taqwa.

At the last I conclude with a prayer that May Allah enables us to spend our lives according to the teachings of the Holy Quran and enables us to fulfill our promises to make virtuous changes within ourselves in line with righteousness. Ameen


Saturday, May 22, 2021

Give Respect and Always Obedient to Your Parents.


                             
                                                                    
                                                                    By: M. A .Virk


    Unity, peace and obedience are essential in every family between children and their parents. In every religion it is very clearly states to respect and obey your parents.  In Islam, showing obedience to parents is the fastest way of earning blessings from them and from Allah. One of the ten commandments given by God to the Jews was: 

         “Honour thy father and thy mother, that thy days may be long in the land which the Lord thy God gives thee.”

Obeying Parents is a direct commandment of Allah-
The word obey cannot be separated from the idea of honoring them. Honor your parents so that it may go well with you and that you may enjoy life on earth.

Therefore, every Muslim must show goodness and mercy to his parents throughout their lives. The Qur’an says the only time a child should say no to his parents and disobey them is when they are asked to something that is not allowed by Allah including committing sins, lying and so on. If not, the children must show love and gratitude to their parents.

Being patient and tolerant with parents-

    Everyone makes mistakes, if parents do something bad that is against the religion or against the wish of their children, it becomes the responsibly of the child to have patience and tolerance. Instead of venting out in anger, children must take great care not to react wrongly to what their parents have said or done. It is a great sin to dishonor parents.

Always pray for their well being-

It is the duty of every Muslim to continue praying for their parents upon their death. Muslims should ask Allah to forgive their parents after their passing. Such prayer will be regarded as a continuous charity as the prophet (Sallallahu ‘Alayhi wa Salam) has informed us.

The Greater Right of the Mother-

In families, mothers are the most important as they traditionally spend most of their time taking care of their children. As a result, a child’s gratitude should be more towards their mother.

Must Know Your Duties-

When a child comes of age, it becomes their duty to provide for their parents at all cost if they are able to do so. Showing them kindness, compassion, gratitude, reverence and respect, praying for them and supporting them financially if they are in need are incumbent upon every Muslim who has one or both parents alive.

Allah sums this in the Holy Quran saying:

“And We have enjoined upon man (care) for his parents: His mother carried him, (increasing her) in weakness upon weakness, and his weaning is in two years. Be grateful to Me and your Parents; to Me is the final destination”. (Chapter 31:14)

بسم الله الرحمن الرحيم

Love & Respect for Parents ;

 Parents are the most respectful and important in child life and those who are obedient and dutiful to their parents Allah (SWT) blessed them on the earth and on the heaven as well.

What a Child can do for Parents?

Always Pray for them;

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ

 يَقُومُ الْحِسَابُ

“Our Lord! Forgive me and my parents, and (all) the believers on the Day when the reckoning will be established.”

اے ہمارے رب! مجھے اورمیرے ماں باپ کو اور ایمانداروں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے

The following Hadith beautifully explains What a person can do for their parents if they are not alive.

A Hadith related to Ibn Majah and Malik on the authority of Abu Hurairah, “The rank of a person may by raised after his death. He asks; My Lord, how does this come about? He is then told; your child has prayed for your forgiveness.”

Must love and respect your Parents: 

Allah (SWT) says, “And your Lord has decreed that you worship none but Him. And that you be dutiful to your parents. If one of them or both of them attain old age in your life, say not to them a word of disrespect, nor shout at them but address them in terms of ”                  ( سورة الإسراء , Al-Isra, Chapter #17, Verse # 23)”

Honour.

The child is not supposed to abuse any of his/her parents. This requires a great attention because in our daily life, we ignore such small things which lead to disrespect our parents unconsciously,

Narrated ‘Abdullah bin ‘Amr: Allah’s Apostle said. “It is one of the greatest sins that a man should curse his parents.” It was asked (by the people), “O Allah’s Apostle! How does a man curse his parents?” The Prophet said, “‘The man abuses the father of another man and the latter abuses the father of the former and abuses his mother.” (Book #73, Hadith #4)

Must be good towards them specially when they become older:

Allah (SWT) says,” They ask you (O Muhammad صلى الله عليه وسلم) what they should spend. Say: Whatever you spend of good must be for parents and kindred and orphans and Al-Masakin (the poor) and the wayfarer, and whatever you do of good deeds, truly, Allah knows it well.”
( سورة البقرة , Al-Baqara, Chapter #2, Verse #215)

Narrated ‘Abdullah: I asked the Prophet “Which deed is the dearest to Allah?” He replied, “To offer the prayers at their early stated fixed times.” I asked, “What is the next (in goodness)?” He replied, “To be good and dutiful to your parents” I again asked, “What is the next (in goodness)?” He replied, ‘To participate in Jihad in Allah’s cause.” ‘Abdullah added, “I asked only that much and if I had asked more, the Prophet would have told me more.” (Book #10, Hadith #505)

Narrated ‘Abdullah bin ‘Amr: A man came to the Prophet asking his permission to take part in Jihad. The Prophet asked him, “Are your parents alive?” He replied in the affirmative. The Prophet said to him, “Then exert yourself in their service.” (Book #52, Hadith #248)

Must be grateful and always polite to them;

Allah (SWT) says,”And We have enjoined on man (to be dutiful and good) to his parents. His mother bore him in weakness and hardship upon weakness and hardship, and his weaning is in two years – give thanks to Me and to your parents. Unto Me is the final destination”.
( سورة لقمان , Luqman, Chapter #31, Verse #14)

Obey them in all aspects according to the Holy book Quran

Parents are to be obeyed in matters that are permitted in Islam.

Abdullah ibn Umar narrated that the Prophet (PBUH) told a person that one who awoke in the morning as obedient to his parents, according to the commandments of Almighty Allah, was like one who found two doors opened for him in Heaven. And he will find one door opened if any one of his parents was alive. But one who broke the day as disobedient to his parents defying the orders of Allah the Almighty, was like one who found the two doors opened for him in Hell. And he will find one door opened if any one of his parents was alive. The man asked the Prophet (PBUH), if one should be obedient to his parents even if they were insensible to him? The Prophet (PBUH), replied, “Yes, even if they are insensible ; yes, even if they are insensible; yes, even if they are insensible.”

Final Note: May Allah (SWT) show mercy on us and our parents and may HE make us worthy enough to serve our parents in the way HE has defined (amen), Being undutiful to parents is one of the greatest sins as it is clearly mentioned in the following Hadith,

Narrated Abu Bakra: Allah’s Apostle(PBUH)said, “Shall I inform you of the biggest of the great sins?” They said, “Yes, O Allah’s Apostle!” He said, “To join partners in worship with Allah, and to be undutiful to one’s parents. ” (Book #74, Hadith #290)

Think before its too Late;

 Where as the Holy Quran commands us to be obedient to the parents and to be serviceable to them, it also says:

“Your Lord knows best what is in your minds; if you are righteous, then surely, He is Most Forgiving to those who turn to Him again and again.” (17:26)

God knows it quite well as to what is there in your hearts; if you are righteous, then you should know that God forgives those who turn to Him. The Companions of the Holy Prophet, sallallaho alaihi wa sallam, were also confronted with hardships, and for religious reasons their relations with their parents were strained. But of course, it is for you to try all you can to be good to them and to look after them as best lies in your power; you should not lose any opportunity to serve them. Your good intentions will bring you good rewards. If you have to get yourselves separated from them, because of your religion, that, of course, is a thing, that you cannot help. But you should always keep in mind that you have to try to be good to them; your intentions must always be very good. You should supplicate to God for them.

It is not only you who have been made to confront with this kind of situation. Hazrat Ibrahim, peace be upon him, had also to pass through the same circumstances. However, you should know that your duty to God comes first. You should give preference to Him and try to do your duty to your parents as well; you should also be praying for them – and you should be very sincere in whatever you do. Your intentions must always be good.(Malfoozat Vol. 10, pg. 131)

                                              ---------------------------------------