ALLAH IS THE GREATEST

THERE IS NO GOD BUT ALLAH.

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

ALLAH HO AKBAR الله اکبر

ALLHA IS THE GREATEST.

ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL

LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE

Everthing is created by ALLAH

Nature is always perfect.

ALLAH Knows Everything

No one is powerful then "ALLAH"

LOVE FOR HUMANITY

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

Thursday, February 11, 2021

بن بیٹھے خدا بندے Transhumanism

بن بیٹھے خدا بندے
ٹرانس ہیومن ازم

شائع شدہ الفضل انٹرنیشل 10 جنوری (2014))    

(آر۔ایس۔بھٹی)      

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا کیا ہے لیکن ج ایک یہ حضرت انسان ہیں کہ پہلے تو خدا کے وجود کے منکر رہے اور اب پوری کوشش کر رہے ہیں خدا بننے کی

 انسان کی سادہ سی تعریف علم حیاتیات کی رو سے سے یوں ہے کہ اگر آپ کا ڈی این اے ہومو سیپی انز ہے تو آپ انسان ہیں۔ اسی طرح سائنس کے دوسرے مضامین نے انسان کو اس کے معاشرتی اور نفسیاتی رویوں میں تقسیم کیا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان ہونا اس سے بہت زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے. اگر ہم ایک انسان کو آغاز سے بنانا چاہیں تو ہمیں بہت سے مقامات پر انسانیت کی حدود کو پار کرنا ہوگا اسی طرح اگر آپ انسان کے  اعضاء اتارنے شروع کریں تو آپ غیر انسانی رویوں کی دہلیز میں داخل ہوجائیں گے۔ ہمیں دوبارہ سے اسی سوال کا سامنا ہوگا کہ ہم انسان کی تعریف کس طرح کریں؟

  کیا رحم کا جذبہ ہمیں انسان بناتا ہے؟ کیا افزائش نسل کے جذبے سے محروم ہو جانا غیر انسانی رویہ ہے؟    اگر میں اپنے دماغ کو اس طرح تبدیل کر لوں کہ وہ عام معیار سے مختلف طرح کام کرئے تو کیا پھر بھی میں انسان ہی رہوں گا۔؟ اگر میں اپنے جسم کے تمام اعضاء اتار دوں اور اپنے دماغ کو ایک روبوٹ کے ساتھ جوڑ دوں تو کیا پھر بھی میں انسان ہی رہوں گا؟

 یہ سوالات پہلی نظر میں جذبات ابھارنے والے اور غیر فطری دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور بائیو میڈیسن کے بڑھتے ہوئے ملاپ کی وجہ سے اگلی دہائی میں ہمیں ان تمام سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

ٹرانس ہیومن ازم کا اچھوتا خیال پہلی مرتبہ 1960 میں فیوچرلوجی کے ایک پروفیسر ایف ایم۔ 2030  کے ذہن میں آیا۔ یہ صاحب  بھی اپنے نام کی طرح ہی اچھوتے تھے۔ ٹرانس ہیومن ازم  ایک عالمی فکری اور تہذیبی تحریک   ہے جو اس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا کر انسانوں کی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس علم کے ماہرین انسان کی محدود صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے فوائد اور خطرات کا جائزہ لے رہے ہیں ہیں اور ساتھ ہی اس سے متعلق اخلاقی اثرات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ ٹرانس ہیومن ازم میں دونوں قسم کی ٹیکنالوجیز کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ یعنی موجود  ٹیکنالوجی جیسا کہ آئی ٹی اور جینیٹک انجینئرنگ اور مستقبل میں آنے والی ٹیکنالوجی جیسا کہ  نینو ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس۔

 ٹرانس ہیومن ازم کے بعض پر کشش تصورات

 ٹرانس ہیومن ازم کا سب سے سے پرکشش تصور  عمر کو بڑھانے کا  ہے جنیٹک انجینرنگ، نینو ٹیکنالوجی کلوننگ اور دوسری جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہت جلد دائمی زندگی کا حصول ممکن  ہوگا

اسی طرح تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری جسمانی  ذہنی اور نفسیاتی صلاحیتوں کو اس معیار سے بہت بڑھایا جا سکتا ہے جو کہ قدرتی طور پر انسانوں میں پائی جاتی ہے

۔۔۔ ٹرانس کرینیل ڈائریکٹ کرنٹ  کے ذریعے بہت ہی کمزور برقی لہر جو ہمارے دماغ سے گزرے گی، جس سے ہمارے سیکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکتا ہے- یہ ٹیکنالوجی یو ایس آرمی میں استعمال کی جا رہی ہے

ادارے اور تنظیمیں

  • اس وقت دنیا بھر میں بہت سے ادارے اور تنظیمیں ٹرانس ہیومن ازم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ٹرانس ہیومن ازم کی ایک عالمی تنظیم ورلڈ ٹرانس ہیومن ازم کے نام سے 1998 میں قائم ہوئی۔ جس نے 2008 میں اپنا نام تبدیل کر کے  ہیومینٹی پلس رکھ لیا اس تنظیم  کا ایک میگزین ایچ پلس کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ اور  ٹرانس ہیومن ازم کے لئے بھی  عام طور پر ایچ+ سمبل ہی استعمال ہوتا ہے اور یہ ایک سہ ماہی میگزین ہے

 آن لائن ٹرانس ہیومن ازم کی کمیونٹی پہلی مرتبہ 2003 میں وجود میں آئی۔ اس کے علاوہ بہت سے ادارے بھی اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں  ٹرانس ہیومن ازم کی تنظیموں میں آج ہر طرح کے لوگ شامل ہیں جیسے کہ سائنسدان، طلباء، کاروباری حضرات،فنکار، گلوکار، ادیب، موسیقار فلاسفر اور سرکاری ملازمین۔

عیسائیت کا ایک فرقہ مورمن ازم کا نام بھی اس سلسلے میں بہت نمایاں ہے ۔ان کی اپنی ٹرانس ہیومنسٹ کی ایسوسی ایشن پائی جاتی ہے اور ایک ادارے کا قیام بھی زیر غور ہے جو کہ ٹرانس ہیومنسٹ کو تحقیق کی سہولیات فراہم کرے گا

اس ٹیکنالوجی کے بعض اخلاقی معاشرتی اور معاشی پہلو

 کیا موت اور پیدائش کے بغیر معاشرہ اور انسان ترقی اور ارتقا کا عمل جاری رکھ سکیں گے یا یہ سب کچھ انحطاط کا شکار ہوجائے گا؟اسی طرح اگر صرف امراء ہی کو ذہانت، طاقت، ڈرگز اور ٹیکنالوجی پر رسائی ہوگی تو معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کیا ہر شخص کو ذہانت بڑھانے کی دوائیاں میسر ہوں گی؟ 

 ٹرانس ہیومن ازم کا زیادہ مشکل مقصد دماغ کے خیالات پر جو ایک کمپیوٹر پر منتقل ہوں گے، تحقیق کرنا ہے۔ جب ہم کمپیوٹر کے ساتھ زیادہ ذہانت کے ساتھ رابطہ کریں گے تو کیا ہوگا؟ 

اگر ہر شخص 300  آئی کیو اور ڈاکٹریٹ ڈگری ہولڈر ہوگا تو  اس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

 کھیلوں کی دنیا میں ٹرانس ہیومن ازم کا بہت بڑا ہاتھ ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے جسم کا کوئی صحت مند عضو(ہاتھ، بازو، ٹانگ وغیرہ) اتار کر زیاد طاقتور عضاء لگوا لے جو کھیل میں اس کے لئے معاون ثابت ہوں

 آج کے انسان کا حق ہے کہ اسے ٹرانس ہیومن ازم کے بارے میں معلومات ہوں آج کی بہت سی دوسری ٹیکنالوجی کی طرح یہ بھی بہت عجیب علم ہے۔ یہ ایسے بڑے عظیم مشینی حیوان ہوں گے جو کہ سینکڑوں ٹن وزن کھینچ سکیں گے اور انسانوں سے بہت تیز بھاگنے کی صلاحیت رکھیں گے

قوانین

اگر سائنسدان انسانوں کو جانوروں کے ساتھ ملا کر یا ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر ایک نئی نسل سپر ہیومن، ٹرانس ہیومن، پوسٹ ہیومن یا ٹیکنو ہیو من بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ان" انسانوں " کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا مخلوق کی اس جدید قسم کو بھی اسی عدالتی نظام کا سامنا کرنا ہوگا جو انسانوں کے لیے ہے۔  یا ان کے لئے ایک الگ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہوگی؟ کیا ان کا قتل یا ان کو غلام بنانا بھی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ کسی انسان کو؟ یا اس کا جرائم میں شمار نہیں ہوگا۔  مزید یہ کہ اس نئی برینڈڈ نسل سے سرزد ہونے والے جرائم کے لیے کیا قوانین ہوں گے ؟

برطانوی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس امکان کا اظہار کیا گیا ہے کہ شاید 2056 ء   تک روبوٹس کو انسانوں کے برابر حقوق مل جائیں گے۔ یہاں تک کہ ووٹ ڈالنے کا اختیار بھی مل جائے گا اور شاید ان سے ٹیکس بھی وصول کیا جانے لگے۔

  ان تمام سوالات پر سائنس کی دنیا میں بحث و تحقیق جاری ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے ہم ٹرانس ہیومن کو زیر بحث لا رہے ہیں یہ بحث پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جا رہی ہے اور دائمی زندگی کا تصور  ذہانت کی بڑھوتری اور طاقت کا حصول محض آئس برگ کی چوٹی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ فلسفیانہ اور اخلاقی پیچیدگی اس حقیقت کی بنیاد ہے کہ ٹرانس ہیومن ازم محض انسان کا ٹیکنالوجی کے ساتھ ملاپ ہے۔  ٹیکنالوجی جو کہ روزانہ بہت تیزی کے  ساتھ ترقی کر رہی ہے اور نئی زمینیں فتح کر رہی ہے انسان ہمیشہ سے ٹیکنالوجی استعمال کرتا آرہا ہے۔ اوزاروں کو استعمال کرنا اور خیالات کو پیش کرنے کی صلاحیت ہی ہمیں دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے -لیکن معاشرہ کبھی بھی بنیادی طور پر ان اشیاء سے اس قدر متعلق نہیں رہا جیسا کہ اب ہے  مثال کے طور پر ہم نے پچھلے چند سالوں میں دیکھا کہ ہائی سپیڈ موبائل نیٹ ورکس اور صرف چند ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہماری دوسروں کے ساتھ رابطہ کرنے کی صلاحیت بہت بدل گئی ہے۔

 آج جس مقام پر انسان اور معاشرہ موجود ہے یہ بہت آہستگی سے  ترقی کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ جیسا کہ زبان کو ترقی کرنے میں لاکھوں سال لگے اور ہزاروں سال سے لے کر پچھلی صدی تک ہم نے انسان کی عمر کے دورانیے کو دوگنا کیا اور صرف پچھلے ایک سو سال کے دوران اس دورانیے کو ہو اس کو دوبارہ سے منع کیا کیا اور دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو دوبارہ سے دوگنا کیا ۔ اور دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو تواب آ کر ہم نے سمجھنا شروع کیا ہے۔ اور انسان کی جسمانی اور دماغی صلاحیت میں اضافہ ہوتے دیکھا ہے۔ جیسا کہ کھلاڑی اپنی طاقت بڑھا لیتے ہیں۔

اوپر کی بیان کردہ معلومات ٹرانس ہیومن ازم کا صرف ایک مختصر تعارف ہے۔ لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بہت ہی ناخوشگوار چیز  ہے۔ یہ دراصل انسان کو "غیر قدرتی" کرنے کا دوسرا نام ہے کمپیوٹر کے آنے کے بعد  انڈسٹری میں اس قدر ملازمتوں کی کمی واقع ہوئی لیکن مادیت پرستی میں بڑھتی ہوئی اس دنیا میں ہر شخص طاقت ا ور ہمیشگی کا خواہشمند ہے اور شاید اسی لیے ٹرانس ہیومن ازم کے خلاف اٹھنے والی  آوازیں بہت کمزور دکھائی دے رہی ہیں۔ 

دائمی زندگی کے فوائد اور غیرمعمولی انسانی طاقتوں کے علاوہ ٹرانس ٹرا ہیومن ازم میں اس انسانی زندگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات اور اخلاقی انحطاط پر بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ اگر زمین پر رہنے والے انسان اچانک مرنا بند ہو جائیں  تو آبادی کی زیادتی کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی بحران کا سامنا ہوگا۔ یہاں تک کہ مزید افزائش نسل کو بند کر دیا جائے جو کہ بہت سے دوسرے مسائل کا پیش خیمہ ہو سکتا 

لیبارٹری میں تیار ہونے والی اس نسل کے بارے میں یہ چند سوالات اور مسائل ہیں جو اس مضمون میں اکٹھے کیے گئے ہیں تفصیلات میں جانے کا نہ موقع ہے اور نہ ہی تفصیلات ہمارا مقصد اور شاید تفصیلات تک رسائی بھی ہمارے لیے آسان نہ ہو لیکن  خدا تعالی نے تو اس بارے میں اپنا فیصلہ صدیوں پہلے سنا دیا تھا اللہ تعالی سورۃ ا لنساء آیت 120 میں فرماتا ہے

ترجمہ :   اور    میں ضرور ان کو گمراہ کروں گا اور ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور مویشیوں کے      کانوں پر زخم لگائیں گے اور میں ضرور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی تخلیق میں تغیر کردیں گے اور جس نے بھی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا تو یقینا اس نے کھلا کھلا نقصان اٹھایا

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں

 اس آیت کریمہ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے کہ ایک زمانے میں جنیٹک انجینئرنگ ایجاد ہوگی یعنی سائنسدان اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ کہ آج کل ہو رہا ہے چونکہ یہ شیطانی حکم سے ہوگا اس لئے ان کو بہت کھلا کھلا گھاٹا پانے والا بیان کیا گیا ہے اور ان کی سزا جہنم بیان فرمائی گئی ہے مختلف ایجادات کے تعلق میں صرف یہی ایک پیش گوئی ہے جو اپنے ساتھ انزار رکھتی ہے اس کے علاوہ قرآن کریم بکثرت پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے اور کسی پیشگوئی میں انزات نہیں آیا۔ پس جنیٹک انجینئرنگ اسی حد تک جائز ہے  جس حد تک اللہ تعالی کی تخلیق کی حفاظت کے لئے استعمال کی جائے اگر تخلیق تبدیل کرنے کے لئے استعمال کی جائے تو اس سے بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے فی زمانہ سائنسدانوں کا بھی ایک بڑا گروہ جنیٹک انجینئرنگ سے خلق تبدیل کرنے کی مخالفت کرتا ہے

  (قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی)


جہاں تک دائمی زندگی کا تعلق ہے تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا  کل نفس ذائقۃ الموت (الانبیاء، 36 )ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے

مزید فرماتا ہے اینما تکونو یدریککم الموت و لو کنتم فی بروج مشیدہ (النساء، 79ہ) ترجمہ: تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں آ لے گی خواہ تم سخت مضبوط  بنائے ہوئے برجوں میں ہی ہو۔  

 شاید انسان اپنی دانست میں ایسا ہی کوئی مضبوط قلعہ بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے خدا نسل انسانی کی حفاظت فرمائے۔ آمین


☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆






Tuesday, February 9, 2021

زبان کی ابتداء Origion-of-Languages

زبان کی ابتداء


(شائع شدہ الفضل انٹرنیشل 20/ستمبر 2013)
(آر-ایس-بھٹی)

بچہ کی غوں غاں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ زبان کس طرح وجود میں آئی- بچہ عام طور پر جو پہلا لفظ بولتا ہے وہ چار لفظوں کے اس پیٹرن سے بنتا ہے جو کہ تمام دنیا کے بچوں میں مشترک ہے وہ چار لفظ یہ ہیں:    ما-ما،  با-با، دا-دا،  نا-نا

سائنسدان لمبے عرصہ سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ آخر انسان نے زبان کیسے سیکھی- چندسال پہلے 2001-2000 میں سائنسدانوں نے ایک جین دریافت کیا جو کہ بولنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتا ہے   (FOXP2) اسے کا نام دیا گیا ان انکاخیال ہے کہ یہ ان بہت سے جینز میں سے ایک جو انسان میں بولنے کی صلاحیت کے ذمہ دار ہیں-اس جینزمیں تبدیلی ہونے کی صورت میں انسان کی بولنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ زبان انسانوں اور جانوروں میں ایک واضح تمیز ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ تمام معاشرتی تعلقات جو انسانوں کے درمیان قائم ہیں وہ غیر یقینی ہو جاتے۔

   انسانوں کے جینز یہ تبدیلی قریبا دو لاکھ سال پہلے آنی شروع ہوئی جو کہ ارتقاء کے مراحل میں آگے کی طرف ایک چھلانگ تھی- سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دس سے ایک ہزار تک جینز ہوں گے جو بولنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بعض دوسرے سائنسدانوں کو اس سے اختلاف ہے ان کا خیال ہے کہ یہ جینز بولنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جینز میں ہونیوالی کوئی بھی تبدیلی انسان کے بولنے کی صلاحیت کو مکمل طورپر ختم نہیں کرتی

انسانوں اور بن مانسوں میں فرق

ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسان اپنے کزن بن مانس سے  کس طرح مختلف ہے؟ انسان اور بن مانس میں میں 96 فیصد ڈی این اے ایک جیسے ہیں۔ لیکن سوچنے کی خداداد صلاحیت جو انسانوں میں ہے وہ کسی اور جاندار میں نہیں۔ ارتقاء کے مراحل کے دوران یہ ایک واضح ترقی تھی جو انسانوں نے کی۔ اگست 2006ء کی ایک رپورٹ کےمطابق سائنسدانوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے ڈی این اے کا وہ حصہ دریافت کر لیا ہے جو ہمیں بن مانسوں سے جدا کرتا ہے موجود تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انسان اور بن مانس کے ارتقائی درخت  ایک دوسرے سے سات ملین سال پہلے  جدا ہو گئے 

 ڈی این اے کا ایک حصہ ایسا ہے جس پر تحقیق کرنے سے سے ہم اس راز کو پا سکتے ہیں کہ بولنے اور سوچنے کی صلاحیت اس عرصے میں کس طرح وجود میں آئی۔ لیکن کیوں وجود میں آئی؟ اس کا جواب بہرحال کسی کے پاس نہیں۔ ڈی این اے کے اس حصے میں تبدیلی کی رفتار ر دوسرے حصوں کے مقابلے میں ستر گناہ زیادہ تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ ارتقاء انسان کے پیچیدہ ذہن کو وجود میں لانے کے لئے ضروری تھا ان جینز کی تلاش کرنا جو انسانی ذہن کو دوسرے جانداروں کےذہن سے ممتاز بناتے ہیں حیاتیات میں ہونے والی جدید تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں جینز کی تلاش ہی مسئلہ کا حل ہے کیونکہ جینز کسی جاندار کا بلیو پرنٹ ہوتے ہیں۔انہوں نے انسانوں، بن مانسوں  جو اور چوہوں کے 3 ملین جینز کا موازنہ کیا ہے ہے اور اس کے لیے انہوں پچاس جگہوں کی نشاندہی کی ہے زبان کا الہام ہونا

اللہ تعالی سورۃ الرحمن آیت5 میں فرماتا ہے  علمہ البیان   ترجمہ اس نے اسے بیان سکھایا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: "بعض لوگ اس دھوکے میں پڑے ہیں کہ بولی انسان کی ایجاد ہے۔۔۔ ماسوا اس کے یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ہر یک بولی انسان کی ہی ایجاد ہے بلکہ باکمال تحقیق ثابت ہے کہ موجد اور  خالق انسان کی بولیوں کا وہی خدائے قادر مطلق ہے جس نے اپنی قدرت کاملہ سے انسان کو پیدا کیا اور اس کو اسی غرض سے زبان عطا فرمائی کہ تاوہ کلام کرنے پر قادر ہو سکے    اگر بولی انسان کی ایجاد ہوتی تو  اس صورت میں کسی بچہ نوزائیدہ کو تعلیم کی کچھ بھی حاجت نہ ہوتی بلکہ بالغ ہو کر آپ ہی کوئی بولی ایجاد کر لیتا۔ لیکن بہ بداہت عقل ظاہر ہے کہ اگر کسی بچے کو بولی نہ سکھائی جائے تو وہ کچھ بول نہیں سکتا اور خواہ تم اس بچے کو یونان کے کسی جنگل میں پرورش کرو۔ یا انگلینڈ کے جزیرہ میں چھوڑ دو خواہ تم اس کو خط استوا کے نیچے لے جاؤ تب بھی وہ بولی سیکھنے کا محتاج ہوگا ااور بغیر سکھائے کے بے زبان رہےگا

 براہین احمدیہ جلد چہارم ص   (344))                                      

حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سورہ الرحمن آیت 4 اور 5    خلقہ الانسان، علمہ البیان            یعنی اس نے انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا کے تحت فرماتے ہیں 

 بولنے کی قوت کے بارےمیں واضح طور پر دعوی کیا گیا ہے کہ یہ خدا نے انسان پر نازل کی جس سے ایک ناگزیر نتیجہ نکلتاہے کہ پہلی زبان جو انسان نے سیکھی وہ خدا نے خود سکھائی۔ اس کی روشنی میں انسان کی قوت گویائی آئی کا معمہ نا قابل فہم نہیں رہتا جیسا کہ دوسری صورت میں نظر آتا ہے۔ قوت گویائی  انسانوں اور دوسرے جانوروں کے درمیان اتنا واضح فرق ڈالتی ہے جو کہ صرف ارتقاء کے اصولوں سے واضح نہیں کیا جا سکتا تاہم ان میں (ارتقاء کے اصولوں) سے بہت سے واضح مزید بہت سے مزید واضح کیے جا سکتے ہیں لہذا قوت گویائی خدائی الہام کے ذریعے اتارا گیا ایک تحفہ ہے

(Revelation, Rationality, Knowledge and Truth- page 295, 296)                          

*-------------------------------------------*




 

 










 

Monday, February 8, 2021

کیا ظلم وستم رہ جائیں گے دنیا میں پہچان وطن





( شائع شدہ الفضل انٹرنیشل یکم اگست 2013 ) 

(آر- ایس- بھٹی)

آج سے قریبا بائیس برس قبل جب حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے یہ شعر کہا ہوگا تو وطن عزیز میں جرائم کی شرح آج کے مقابلے میں بہت کم ہوگی۔ لیکن آج یہاں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح دیکھنے کے لئیے ہمیں کسی عالمی ادارے کی طرف شائع ہونیوالے اعداد و شمار دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ روزانہ کے اخبارات اور خبروں کے ٹی وی چینلز کو اگر تھوڑی دیر کے لئے دیکھ لیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہےکہ پچھلے چند سالوں میں اس ملک میں جرائم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ لکھنے والوں نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر اس کو انڈسٹری کا درجہ دے دیا جائے تو پاکستان میں تیزی سے ترقی کرنے      وا    لی یہ واحد انڈسٹری ہوگی

ہر گزرتے سال کے اختتام پر اور ہر نئے سال کے  آغاز پر اخبارات اور خبروں کے ٹیلی ویژن اسٹیشن ملک میں ہونیوالے ظلم و ستم اور جرائم کے جائزے پیش کرتے ہیں۔ ایک حالیہ ٹی وی رپورٹ کے مطابق مارچ 2012ء کے پہلے دو ہفتوں کے دوران صرف کراچی میں 793 موٹر سائیکلیں چھنی گئیں یا چوری ہوئیں  اور 209 گاڑیاں چھنی گئیں یا چوری ہوئیں۔ اور نومبر 2011ء    کے ایک ماہ کے دوران 65 گاڑیاں چھنی گئیں یا چوری ہوئیں۔ یعنی روزانہ بارہ گاڑیاں ۔ گویا ہر دو گھنٹے کے بعد ایک مالک اپنی گاڑی سے محروم ہوا۔

خیبر پختونخواہ میں سال2005ء میں ایک لاکھ دس ہزار جرائم ریکارڈ کئے گئے جو ایک سال میں بیس ہزار کے اضافہ کے ساتھ ایک لاکھ تیس ہزار ہو گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہت۔ نوجوانوں  کی ایک بڑی تعداد بیکار یا بیروزگار ہے اس سلسلے میں اگر نوجوانوں کے اعدادو شمار کو دیکھا جائے تو جرائم اور دہشتگردی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

پچھلے ایک سال کے دوران 12 خود کش حملوں میں 82 اموات اور 341 زخمی ہوئے جبکہ 2001 سے لےکر 2011 تک کل 280 خود کش حملوں میں 4324 اموات ہوئیں اور 8622 زخمی ہوئے

اس کے علاوہ دوسری دہشتگردی  کی کاروائیوں میں 2003 سے 2011 تک 9620 عام شہری اوور 3443 سیکورٹی فورسز کے اہلکار لقمہ اجل بنے

حکومتی ارکان اس سلسلے میں کسی "بیرونی ہاتھ" کے ملوث ہونے کا کتنا ہی راگ الاپیں اور خواہ کتنے ہی ثبوت کیوں نہ مہیا کریں اس تلخ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ان کاروائیوں میں ملوث زیادہ تر اپنے ہی ملک کے لوگ ہیں بظاہر ایک رحمت عالم کے ماننے والے اور اسکی محبت کا دم بھرنے والے 

اس رحمت عالم ابر کرم کے یہ کیسے متوالے ہیں

وہ آگ بجھانےآیا تھا یہ آگ لگانے والے ہیں

وہ والی تھا مسکینوں کا، بیواؤں اور یتیموں کا

یہ ماؤں بہنوں کے سر کی چادر کے جلانے والے ہیں

وہ جود وسخا کاشہزادہ تھا بھوک مٹانے آیاتھا

یہ بھوکوں کے ہاتھوں کی روٹی چھین کے کھانے والے ہیں

یہ زر کے پجاری بیچنے والے ہیں دین وایمان وطن

اے دیس سے آنیوالے بتا کس حال میں یاران وطن

اگر کسی مملکت میں مظلوم کے مقابل پر ظالم کو آئینی تحفظ حاصل ہو      تو  ایسی مملکت میں امن کی تلاش محض ایک سعی لا حاصل ہے- لیکن پھر بھی بس ایک ہی دعا اور ایک ہی امید کہ جو ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی جس سے چمٹے رہنا ہے 

جیتیں گے ملائک خائب و خاسر ہو گا ہر شیطان وطن

_____________________







Wednesday, January 27, 2021

دہریوں کے لئے _چیلنج 1 Challenge-to-Atheists

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہر گز

دہریوں کے لئے _چیلنج

 (آر-ایس-بھٹی) 

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلآم فرماتے ہیں  

  بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز                      

تو پھر کیوں کر بنانا نور حق کا اس پہ آساں ہے                          

نیز فرماتے ہیں 

وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہےکہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتے میں جوکدورت واقع ہوگئی ہےاس کو دور کرکےمحبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں   (لیکچر لاہور، ص180) ا

__________________________________________________________________________________   

مادیت پرستی نے انسان کو اپنے خالق کے وجود کا انکاری بنا دیا۔ ایسے لوگوں کوچاہیے کہ ایک فہرست بھی ان اشیاء کی پیش کریں جو خودبخود پیدا ہورہی ہوں تاکہ ان کی بات میں کوئی وزن بھی پیدا ہو 

 اگرانسان اپنے اردگرد موجود چیزوں پر غور کرئے تو اسے ایسی کوئی بھی چیز دکھائی نہیں دے گی جس کا بنانے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود بخود وجود میں آ گئی ہو- ایک معمولی سمجھ کا مالک بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس کے قرب و جوار میں موجود اشیاء مثلآ میز، کرسی، کمپیوٹر، مکان، دکان کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خود بخود معرض وجود میں آئی ہو لیکن جب بات اس سے بہت زیادہ پیچیدہ اوراعلی اشیاء  کی ہو جیسے ---- زمین، پہاڑ، انسان، درخت، سورج، چاند، ستارے، کائنات، کہکشائیں۔۔۔۔  تو بعض مادہ پرست اس پر زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں کہ یہ سب تو خود بخود وجود میں آ گیا ہے-( اگرچہ یہ معمولی سی کرسی یا میز یا گھڑی یا آلات جراحی وغیرہ توسب ایک خالق کی محتاج ہیں لیکن کائنات وآسمان وزمین وغیرہ سب خود بخود ہیں

 فزکس کاایک بہت معروف عنوان این ٹروپی1* اورہیٹ ڈیٹھ 2*کے نام سے جانا جاتا ہے-اسے سمجھاتے ہوئے اساتذہ کرام ایک مثال دیا کرتے ہیں کہ ایک بہت اچھا صاف ستھراکمرہ ہے جس میں کوئی نہیں رہ رہا- یہ تو ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ آندھیاں اور تیز ہوائیں اس کمرے کی ترتیب خراب کردیں، میزپررکھا گلدان گرادیں، کاغذات اڑا دیں- لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی آندھی یا طوفان ان بکھرے ہوئے کاغذات کو واپس ترتیب سے لگا دے اور گرے ہوئے گلدان کو اٹھا  کرمیز پر رکھ دے یعنی اگر چیزوں میں ترتیب اور توازن ہے تو لازما کسی بڑی طاقتورہستی نے اسے توازن عطاکیا ہے

 تو جناب ! اس کائنات میں موجود عناصر کی ترتیب اور توازن پکار پکار کر ایک غالب ہاتھ کاپتہ دے  رہے ہیں اور غور کرنے والے کبھی  بھی اس ہاتھ کی موجودگی سے انکار نہیں کرسکتے- یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ فطری سچائی کی وجہ سے اس کا کھلم کھلا اظہار کردیتے ہیں جیسا کہ نیوٹن نے کیا اور بعض گلیلیو کی طرح معاشرے کے دباؤ میں آ کر خاموشی اختیار کرلیتے  ہیں 

ان دہریوں کے لیے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ سائینس خداسے  دور لے جاتی ہے نیوٹن کےیہ شاندار الفاظ ایک طمانچہ ہیں 

“This most beautiful system of the sun, planets, and comets, could only proceed from the counsel and dominion of an intelligent and powerful Being … This Being governs all things, not as the soul of the world, but as Lord over all; and on account of his dominion he is wont to be called Lord God.”

 ترجمہ : سورج، سیاروں، شہاب ثا قب کا یہ خوبصورت نظام صرف ایک ذہین اور طاقت ور وجود کی صلاح اور حکمرانی سے چل سکتا ہے---یہ وجود ہر چیز پرحکمرانی کرتا ہے دنیا کی روح کی حیثیت سے نہیں بلکہ سب کے خداوند کی حیثیت سے؛ اور اپنی سلطنت کی وجہ سے وہ خداوند خدا کہلائے گا

کائنات کی وسعتوں کے بارے میں غور کرنا ان دہریوں کے لیے تو ناممکن ہے یہاں تو خدانے ایک ایک ذرے میں کائنات بسا رکھی ہے 

اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے

 اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا 

ترجمہ: اللہ ہرگز اس سے نہیں شرماتا کہ کوئی سی مثال پیش کرے جیسے مچھر کی بلکہ اُس کی بھی جو اُس کے اوپر ہے۔

 خدا نے قرآن میں مچھر کومثال کے طور پربیان کیا ہے- مچھر بظاہر انتہائی حقیر نظر آنیوالا کیڑا، لیکن اس کے اندراس قدر پیچیدہ نظام کام کر رہا ہے کہ شائید ابھی تک انسان اسے مکمل طور پرسمجھ ہی نہیں سکا- مچھر کی پیدائش بذات خود ایک معجزہ ہے- مچھر خشکی پررہتا ہے لیکن اس کی پیدائش کاسارا عمل پانی پر ہوتا ہے اور مچھر کی زندگی کاسب سے پہلا ایڈونچر اسکی پیدائیش سے پہلے شروع ہوتا ہے؛ وہ یہ کہ پانی پر پیدا ہونا ہے لیکن گیلا ہوئے بغیر-کیونکہ پانی لگنے سے فورا ہی اس کی موت واقع ہو سکتی ہے

                                                      Raft                                                     

                                       

مادہ مچھر پانی پر انڈےدیتی ہے لیکن ان کو ایک رافٹ کی شکل میں ترتیب سے پانی پرلگاتی ہے جس کی وجہ سے یہ انڈے پانی میں ڈوبتے نہیں ہیں- یہ انڈے سفید رنگ کے ہوتے ہیں لیکن فوراہی گہرے رنگ میں تبدیل ہوجاتے ہیں ورنہ دوسرے کیڑے مکوڑے انھیں کھا جائیں- اس انڈے میں لاروا بنتا ہے جو کہ الٹا ہوتا ہے یعنی اسکاسر پانی میں ہوتا ہے جبکہ یہ سانس پانی سے باہر کھلی ہوا میں لیتا ہے- وہ ایسے کہ خدانے اس میں ایک خاص عضو بنایا ہے جو کہ غوطہ خوروں کے سنورکل3* کی طرح ہوتا ہے جس کی ٹیوب کا منہ پانی سے باہر ہوتا ہے اس سنورکل کے منہ پرایک چپکنے والا مادہ لگا ہوتا ہے جو پانی کواس ٹیوب میں جانے سے بچاتا ہے ورنہ لاروا پانی میں ڈوب کر مرجائے- لاروا سے پیوپل اور کوکون کے اندر مچھر بننے تک یہ کیڑا ایسے ہی کئی حیران کن مراحل سے گزرتا ہے اور بالاخر اس کی پیدائش کا مرحلہ آتا ہے- مچھر پانی کی سطح پر کوکون سے باہر اسطرح نکلتا ہے کہ گیلا  نہ ہو- کیونکہ مچھر پیدا ہوتے ہی ایسی مہارت کے ساتھ اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑا ہوتا ہےاورپروں کوپانی نہیں لگنے دیتا کیونکہ ہلکی سی ہوا بھی اس کے پرگیلے کرسکتی ہے جومچھر کوموت کی طرف لےجاسکتی ہے

مچھرکوخدا نے جو بہت سی حیران کن صلاحیتں عطا کی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ یہ آپ کو انتہائی اندھیرے میں ڈھونڈ لیتا ہے جبکہ آپ خود کو بھی دکھائی نہیں دے رہے ہوتے لیکن یہ حقیر کیڑا نہ صرف آپ کوڈھونڈ نکالتا ہے بلکہ انتہائی پھرتی کے ساتھ آپ پرحملہ آور بھی ہوتاہے اور کوئی بھی مچھر بھگانے والا سپرے یا کریم اس سے آپ کو بچا نہیں پاتی- آخرمچھر گھپ اندھیرے میں کیسے آپ تک پہنچتا ہے؟ مچھر کے جسم میں کئی قسم کے سینسرز لگے ہوئے ہیں- یہ آپ کے جسم سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو محسوس کرسکتا ہے- آپ کے پسینے کی بو سونگھ سکتا ہے-اس کا انٹینا ستر70 سے زائدقسم کی خوش بوؤں اور کیمیکلز کو سینکڑوں فٹ دور سے سونگھ سکتا ہے یہ آپ کے جسم کی حرارت کو بھی محسوس کرسکتا ہے اور پھر آپکے جسم میں موجود خون کی شریانوں کو ڈھونڈ نکالتا ہے 

اسی منفرد صلاحیت کو بنیاد بناتے ہوئے سائینسدانوں نے وہ کیمرے ایجاد کئے جو کہ حرارت کے ذریعے تصویریں لیتے ہیں اوراندھیرے میں بھی اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح روشنی میں

مچھروں کی خون چوسنے کی صلاحیت اسقدر پیچیدہ ہے کہ شائید اسے ابھی تک پورے طور پر سمجھا نہیں جاسکا

پہلی بات تو یہ کہ مچھر کی خوراک پھلوں کا رس ہے، خون نہیں- خون تو مادہ مچھر صرف اس وقت چوستی ہے جب اسے انڈوں کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے 

   جب مچھر آپ پر بیٹھتا ہے تومناسب جگہ کا انتخاب کرتاہے اسکی ایک سوئی      کی طرح کی ٹیوب ہوتی ہے جو کہ سرنج سے مشا بہت رکھتی ہےاور اس پر ایک حفاظتی ڈھکن ہوتا ہےخون چوسنے کے دوران یہ سرنج ڈھکنے سے باہر نکلتی ہے لیکن مچھر یہ سوئی آپ کے جسم میں نہیں گھساتا(شائید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سوئی کی لمبائی انسانی جلد کی موٹائی سے کم ہے) بلکہ پہلے اپنے نیچے کے جبڑے کو جسم پر رگڑ کرسوراخ کرتا ہے اور پھر اس سوراخ میں اپنا سرنج ڈالتا ہے لیکن ابھی اس سے پہلے بہت کچھ کرنا باقی ہے

 ہمارے خون میں خدا نے جمنے کی صلاحیت رکھی ہے یہی وجہ ہے کی زخم لگنے کے تھوڑی دیر کے بعد خون خودبخود جم کر رک جاتا ہے ورنہ ایک ہی زخم انسان کی زندگی کا آخری زخم ثابت ہو- لیکن خون جمنے کی یہ صلا حیت مچھر کو بالکل پسند نہیں کیونکہ اس طرح جو زخم مچھر نے ہمارے بازو پر کیا ہے وہ فورا ہی جم جائے اور اسقدر گاڑھا خون مچھر کےلیے چوسنا ممکن نہیں- اس لیے وہ پہلے ایک اینٹی کلاٹ4* دوائی ہمارے جسم میں داخل کرتا ہے یہ دوائی5* نہ صرف ہمارے خون کو جمنے سے بچاتی ہے بلکہ ایک قسم کا لوکل انستھیزیا 6*کا بھی کام کرتی ہے یہی وجہ ہے آپ کو مچھر کے کاٹے کی تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنا کام کرچکا ہوتا ہے

مچھر کا منہ صرف ایک سوراخ نہیں ہوتا بلکہ یہ سوئیوں کا ایک بہت ہی لطیف نظام ہے اس میں چھ سوئیاں ہوتی ہیں جو جسم میں گھس کر اپنا اپنا کام کرتی ہیں اورمچھر کے لیے خون چوسنا آسان بناتی ہیں

جب مچھر کی آنت خون سے بھر جاتی ہے تو پھر وہ خون سے سرخ ذرات اور پانی کو الگ الگ کرتی ہے اور زائید پانی جسم سے باہر نکال پھینکتی ہےاور اس طرح اس میں مزید خون چوسنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے

مچھر ملیریا سمیت بہت سی بیماریوں کے جراثیم اٹھائے ہوتا ہے لیکنخود مچھر کو کبھی ملیریا نہیں ہوتا- یہی نہیں بلکہ انتہائی مہلک اینٹی کلاٹ دوائی جو وہ اٹھائے پھرتا ہے اسکے اپنے جسم کانظام مکمل طور پر اس سےمحفوظ رہتا ہے

یہ بظاہر معمولی اور حقیر نظر آنیوالا مچھر، جو اسوقت تک دنیا کا سب سے زیادہ قاتل وجود ہے، اپنی ذات میں ایک شاہکار ہے- کیا اس کا ایک مترتب، جامع اور مشکل نظام خود بخود پیدا ہوگیا ؟ کیا ایسی ترتیب اورتوازن بغیر کسی طاقتور ہستی کے ممکن ہے؟ ہرگز نہیں- سائنس تو ترتیب کے لیے طاقت کی موجودگی کو لازم ٹھراتی ہے

اور پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن میں مچھر کو ہی مثال کے طور پر چنا گیا؟اگر خدا کا وجود نہیں تھا تو پھر کس نے آنحضور صل اللہ علیہ وسلم سے یہ مثال قرآن میں لکھوائی؟ یقینا ان میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں

خدا تعالی نے یہ کائنات تخلیق کی اور اس کو ایسا متنوع، مناسب وجود بخشا کہ سائنسدان جواس کو سمجھنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں وہ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ اتنا سب ترقیات کے باوجود انسان ابھی تک اس کائنات کے ایک فیصد حصہ کو بھی سمجھ نہیں سکا

نیوٹن نے اپنی تمام سائنسی تحقیقات کے باوجود خود کوعلم کے سمندر کے  کنارے پر موجود کنکروں سےکھیلنے  والے ایک بچے سے تشبیہہ دی

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بظاہر معمولی نظر آنے والا یہ کیڑا مچھر کس قدر پیچیدہ ہے اور یہ کہنا کہ بغیر کسی خالق کے،یہ خود بخود سب کچھ سیکھ گیا اور ایک اندھے ارتقاء نے اسکو ایسا بنا دیا تو ان کی خدمت میں ایک اور نہایت ہی سادہ سی پہیلی حاضر ہے یہ انسان کے نروس سسٹم کی تصویر ہے 


Picture of Human Nervous System
 کیا کوئی خدا کا منکرذرا یہ تصویر دیکھ کرہمیں سمجھا سکتا ہے کہ انسانی جسم پر یہ جال جو کہ نروس سسٹم کے طور پر موجود ہے یہ کیسے خود بخود بغیر کسی خالق کے وجود میں آیا؟

اور یہ تو ایک پہیلی ہے ایسی کتنی ہی پہیلیاں اس زمین کی سطح پر اور سمندرکی گہرائیوں میں، کائنات کی  وسعتوں میں اور خلا کے اندھیروں میں  پوشیدہ، کسی اولی  الباب کی منتظر ہیں 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۱﴾ۚۙا

یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

________________________________________________           

حا شیہ

*1-Entropy        *2-Heat death  *3-snorkel     *4-anticlot     *5-apyrase    *6-local anesthesia

*************

دہریوں کے لیے چیلنج - حصہ سوم     

https://virkma.blogspot.com/2021/03/challenge-to-atheist-3.html

دہریوں کے لیے چیلنج - حصہ دوم

https://virkma.blogspot.com/2021/02/Challenge-to-Atheists.html


Sunday, January 10, 2021

کیا اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا؟ Islam-Religion of Peace


بسم اللہ الرحمن الرحیم


کیا اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا؟؟ 

اسلام_امن وآ شتی کا مذہب  

(آر-ایس-بھٹی)       

ہمارےمعاشرے کو مذہبی انتہا پسندوں نے تباہی کے کنارے پرلا ڈالا ہے- اس کے رد عمل نے ایک ایسےطبقے کو جنم دیا جو خود کو لبرل کہلوانا پسند کرتے ہیں- اور مذہبی شدت پسندوں کی جوابی کاروائی کے طور پر انھوں نے جہاں مذہبی اقلیتوں کے حق میں آوازاٹھائی وہاں پرمذاہب کے بانی انبیاء کی کردار کشی کرنا بھی اپنا حق سمجھ لیا- ایسی صورت میں جبکہ ایک متشدد طبقہ مذہب کی غلط تشریح کرکے معاشرے کا امن وسکون برباد کرنے کاسبب بن رہا ہے وہاں ساتھ ہی یہ لبرل انتہا پسند، انبیاء کی توہین کرکے معاشرے میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں سادہ لفظوں میں دونوں گروہ ہی دو انتہاوں کاشکار ہیں

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں

    انبیاء سے بغض بھی اے غافلو اچھا نہیں                 

دور تک ہٹ جاؤ اس سے ہے یہ شیروں کی کچھار                           

 معاشرے کے کسی مظلوم طبقہ کی حمایت کرکے کسی کویہ حق حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ خدا کے مرسلوں کی کردارکشی کرئے- بانی جماعت احمدیہ نے گزشتہ انبیاء کے عموما اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم پر اٹھائے گئے اعتراضات کا خصوصا تمام عمردفاع کیا اور خداکے فضل سے جماعت نے بھی ہمیشہ یہی طریق اختیار کیا- ایک بہت ہی پرانا اور گھساپٹا اعتراض جو اسلام پرکیاجاتا ہے اور جسے موجودہ حالات نےپھر سے تازہ کیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا

 یہ ایک نہایت ہی گھناونا، جھوٹا اور بے بنیاد الزام ہے جو اسلام پرلگایا جاتا ہے اگرچہ اسکا ہر پہلو سے جواب بھی دیا جاتا ہے لیکن چونکہ کتاب پڑھنا اورمنصفانہ اورغیرجانبدارانہ تحقیق کارواج قریباختم ہوگیا ہے اسلئے لوگ سنی سنائی باتوں کودہراتے رہتے ہیں اورپھرموجودہ حالات میں بہت سی جہادی تنظیمیں اسلام کانام استعمال کرکے دہشت گردی کا مرتکب ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے اورمزید ستم ظریفی یہ کہ بعض نام نہادعلماء جو خود شدت پسندی کارجحان رکھتے ہیں وہ خود بھی اس کا پرچار کرتے رہے ہیں

 جیسا کہ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں 

’’یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم 13 برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے....  لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی ۔۔۔ تو دلوں  سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا ۔۔۔ روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں۔ ۔۔۔ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کردیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے‘‘۔ 

(الجہاد فی الاسلام صفحہ١٦٦- ١٦٨    باب چہارم ادارہ ترجمان القرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور

(اس کتاب کااصل متن مضمون کے آخیر پر دیاگیا ہے) 

    انسان کا خود  کوعقل  کل سمجھنا اسے انبیا کی پیروی سے روکتا ہے- شیطان کا آدم کو سجدہ سے انکارتکبرکانتیجہ تھا اورہمیشہ ہی سے  انبیاء سے استہزاء تکبر کا نتیجہ رہا ہے اورانبیاء کے مخالفین کو یہی زعم رہا کہ اگر یہ شخص سچا ہوتا تو ہم ضرور اس کومان لیتے- آج بھی یہ قرآنی آیت  نبیوں کے مخالفین کی ترجمان ہے اوراسی طرح سچ ہے جیسے چودہ سو سال پہلےتھی اورہر دورمیں رہی ہے

فقال الملا الذین کفروا من قومہ ما نرک الا بشرا مثلنا وما نرک اتبعک الا الذین ھم

( اراذلنا بادی الرای وما نری لکم علینا من فضل م بل نظنکم کذبین( ھود 28

پس اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جنہوں نے کفر کیا کہ ہم تو تجھے محض اپنے جیسا ہی ایک بشر دیکھتے ہیں نیز ہم اس کے سوا تجھےکچھ نہیں دیکھتے کہ جن لوگوں نے تیری پیروی کی ہے وہ بادی النظر میں ہمارےذلیل ترین لوگ ہیں اور ہم اپنے اوپر تمہاری کوئی فضلیت نہیں سمجھتے بلکہ تمہیں جھوٹے گمان کرتے ہیں

 پھریہی تکبر ہی ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے پیعمبروں کی کردار کشی پر منتج ہوتا ہے اورمذہب کے انکار کی وجوہات مذہب پر اعتراضات      تراشنے کی صورت میں نکالتاہے-حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اسلام نے ہمیشہ اخوت،بھائی چارے کا درس دیا ہے اوردوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی صلح کی دعوت دی ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے 

        (یآھل الکتب تعالواالی کلمتہ سوآء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ-   (آل عمران 65

یعنی توکہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاو جوہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کےسوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے

یہ وہ آفاقی تعلیم ہے جواسلام کوایک عالمگیرمذہب بناتی ہے تما م مذاہب عالم کوایک خدا کے نام پرایک ہی معاشرے میں پر امن طریق سے رہنے کا لائحہ عمل دیتی ہے اور دوسرے کے عقاعد کو برداشت کرنے کا سبق دیتی ہےمعاشرے میں دوسرے کے عقائد کو برداشت کرنے کی تعلیم اسلام نے اس دور میں دی جب لوگ اپنی ہی بیٹیوں کو قتل کر دیا کرتے تھے 

 معترضین کو یہ بات تو دکھائی دیتی دہے کہ قرآن  نےقتال کی اجازت دی ہے لیکن اس بات سے نظریں چرا لیتے ہیں کہ کن حالات میں یہ اجازت دی گئی آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں قریش نے انتہائی مظالم مسلمانوں پر کئے، خدائے واحد کی عبادت سےمسلمانوں کو جبرا روکا، ان کو نہایت بے دردانہ طور پر ماراپیٹا جاتا، بعض کو بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کا بائیکاٹ کرکے ہلا ک کرنے کی کوشش کی گئی، حتی کہ ان مظالم سے تنگ آ کر بہت سے مسلمان مکہ سے حبشہ ہجرت کرگئے لیکن ان کفار مکہ نے وہاں بھی ان کا پیچھاکیا اور واپس لانے کی تدابیر کیں، واپس لانے میں ناکامی کا سامنا ہوا توغیض وغضب مزید بڑھ گیا، آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتل کا منصوبہ بنایا جس میں ناکام ہوئے پھر پیچھا کیا، لیکن خدا کی تائید و نصرت آ نحضور صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور کفارمکہ غار ثور کےمنہ تک پہنچ کر بھی ناکام لوٹے

ان تمام مظالم کاکسی بھی اور قوم کو سامنا ہوتا تو وہ اس سے بہت پہلے اعلان جنگ کرچکی ہوتی 

پھر ان سب حالات و واقعات کے بعد، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما گئے تو قریش کو کیا ضرورت تھی کہ مدینہ پر حملہ کرتے۔ جب ظالموں نے مدینہ میں بھی آ رام سے نہ رہنے دیا تو پھر خدا نے محض اپنےدفاع کےلئے تلوار اٹھانے کی اجازت دی۔ اس پر بھی یہ کہنا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا محض حقائق سے مجرمانہ غفلت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ تین سو تیرہ افراد جن کے پاس نہ مناسب تلواریں تھیں نہ ڈھالیں تھیں جو محض خدا کے فرمان پرایک مسلح لشکر کے سامنے کھڑے تھے تعصب کے بغیرظاہری نظر سے دیکھا جائے توآسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ خودکشی کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن یہ کہنا کہ تلوار کے ذریعے اسلام پھیلانے کے لئے کھڑے تھے ایک نہایت ہی احمقانہ تبصرے کے سوا کچھ نہیں۔ 

اوریہ تمام جنگیں جوابی کارروائیاں تھیں نہ کہ مکہ پر حملہ۔ کیونکہ ہر بارکفار مکہ حملہ  کرنےمدینہ کی طرف آ ئے 

 بدر میں قریبا ساڑھے تین سو کلومیٹر کا فیصلہ طے کیا جبکہ مسلمانوں نے اس سے آ دھا فاصلہ بھی طے نہیں کیا اوراحد کا میدان تو مدینہ سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جبکہ جنگ خندق تو ہوئی ہی مدینہ کے اندر رہ کر تھی۔ 

سورہ الحج (٤٠) میں اللہ تعالی نے جہاد کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا

اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیر

ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا( قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پرظلم کئے گئے-اور یقینا اللہ انکی مدد پر قدرت رکھتا ہے 

191 قرآن میں اللہ تعالی جہاد کی اجازت دیتے ہوئے جہاں یہ  فرماتا ہے کہ البقرہ 

قاتلو ا فی سبیل اللہ الذین یقتلونکم

یعنی تم اللہ کے راستہ میں ان لوگوں سےجنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں

وہاں ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے ذریعے کسی کے مذہب کو جبرا تبدیل نہیں کرنا یعنی یہ  دفاعی قتال کی اجازت دی جارہی تھی اور کہیں بھی اس کو اسلام  پھیلانےکا ذریعہ قرار نہیں دیا اس لئے ساتھ ہی فرمایا کہ

 لآ اکراہ فی الدین                سورہ البقرہ 257

دین میں کوئی جبر نہیں

 پھر سورہ البقرہ آیت 194 میں آتاہے

و قتلو ھم حتی لاتکون فتنتہ و یکون الدین للہ

یعنی  اوران سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اختیار کرنا اللہ ہی کی خاطر ہو جائے

 ان دونوں آیات میں اللہ تعالی فرماتا ہے اے مسلمانو تمہیں قتال کی اجازت تو دی گئی ہے کیونکہ تم پر قتال مسلط کیا گیا ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تم قتال کے ذریعہ لوگوں کا دین تبدیل کرنے کی کوشش کرو بلکہ قتال کرو یہاں تک کہ دین کا اختیار کرنا محض خداکی خاطر ہو جائےاور کسی کو کوئی بھی دین اختیار کرنے میں کسی قسم کا خطرہ نہ رہے اوریہاں پر خداتعالی نے اسلام کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ مذہب کے نام پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کا ذکر فرمایا ہے

 قتال کی جن حالات میں فرضیت ہوئی سورہ البقرہ (217) ہی میں ان حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے

کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم

تم پرقتال فرض کردیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناپسند تھا

اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ جن حالات مں قتال فرض کیا گیا وہ مسلمانوں کا انتہائی تنگی کا زمانہ تھا اور دشمن کے مقا بلے کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ تقریبا نہ ہونے کے برابر تھے اور یہ خیال کرلینا کہ قتال کی اجازت ملنے پر مسلمانوں نے گویا خوشی کے شادیانے بجائے ہوں گےبالکل غلط اوربعید از حقائق ہے

اسلام  کی اشاعت امن کے دنوں میں ہوئی یا ایام جنگ میں؟؟؟

غزوہ بدر دوہجری میں ہوا جس میں تین سو افراد شامل ہوئے، غزوہ احد میں سات سو اورغزوہ خندق جو پانچ ہجری میں ہوا اس میں تین ہزار مسلمان شامل ہوئے (یہ تعداد اسلئے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ غزوہ مدینہ کے اندر رہ کر ہوا)-اس کے اگلے سال صلح حدیبیہ ہوئی جس میں ڈیڑھ ہزار افراد شامل ہوئے اس کے بعد قریباپونے دوسال امن کے آتے ہیں جس میں اسلام اس تیزی سے پھیلا کہ فتح مکہ کے موقع پردس ہزار مسلمان آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اس سے بھی یہ الزام غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ جس تیزی کے ساتھ اسلام ان امن کے پونے دو سالوں میں پھیلا اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی

پھر جب معترضین اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تلوار کی ذریعے پھیلا تو انہیں چاہیےکہ  اس کے ثبوت کے طور پرایک فہرست بھی ایسے ناموں کی پیش کریں کہ جن لوگوں کوزبردستی تلوار کے ذریعے  مسلمان بنایا گیا ہو۔

 بلکہ اس کے برعکس ایک بہت ہی مشہور واقعہ حضرت اسامہ بن زید کا ہم تاریخ میں سے پیش کر سکتےہیں کہ جب انھوں نے ایک شخص پر لڑائی میں غلبہ پا لیا اور اس کو قتل کرنے لگے تواس نے لاالہ الا اللہ کہہ دیا لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر بھی اسے مار دیا- اگر رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صحا بہ کرام کو یہ ہدایت تھی کہ لوگوں کو تلوار سے ڈرا کر مسلمان بناؤ تو پھر حضرت اسامہ کو چاہیے تھا کہ اس کو معاف کر دیتے لیکن ظاہر ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کی طرف  سے ایسی کوئی ہدایت مسلمانوں کونہیں تھی
 ( مسلم کتاب الایمان)                       
اگر اسلام مذہب کی جبری اشاعت کی تعلیم دیتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ  جبر کا ایسا کوئی بھی واقعہ فتح مکہ کہ موقع پر دکھائی نہیں دیتا جبکہ لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا اس سے اچھا موقع نہ ملتا

آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کے دور میں دشمنوں نے تلوار کے ذریعے خدا کا پیغام روکنے کی کوشش کی اور خدا نے انھیں دفاع میں تلواراٹھانے کی اجازت دی- جبکہ آج اسلام کے مخالفین قلم کے ذریعے اسلام پر حملے کررہے ہیں اور رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں اسلئے اس دور کے  امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے مخالفین        کے ساتھ قلمی جہاد کیا اور جماعت احمدیہ بھی اس تقلید میں قلمی جہاد میں مصروف ہے 

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام اپنے وطن کےدفاع سے غافل کرتی ہے بلکہ پاکستان کی دفاعی تاریخ کبھی بھی احمدی سپاہیوں اور سپاہ سالاروں کے معرکے بیان کئے بغیرمکمل نہیں ہوسکتی -1948 کی جنگ کے موقع پر جماعت احمدیہ نے فرقان فورس بنا کر ملک کے دفاع میں اپنا حصہ ڈالا تھا  اسی طرح احمدی فوجیوں ائیرمارشل ظفر چوہدری، لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی، لیفٹیننٹ جنرل اخترحسین ملک، میجرجنرل افتخار جنجوعہ، کے کارنامے تاریخ  سنہری حروف میں یاد رکھے ہوئے ہے 

یاد رکھیں ! ایک امام کے اشارے پر اٹھنے اور بیٹھنے والوں، اور ایک امام کی قیادت میں صف آرا جماعت کے بارے میں  کبھی غلط اندازہ مت لگائیے- اگرکبھی ایسی ضروت پڑی توہراحمدی سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا انشااللہ

    کبھی یہ بھول نہ جانا یہ بے غرض سے لوگ                      

جوحق کی راہ میں گردن کٹا بھی سکتے ہیں                                 

امام وقت کے ابرو کے اک اشارے پر                       

تمہارے زعم کے پرزے اڑا بھی سکتے ہیں                                 


____________________________                                          

   











Thursday, December 24, 2020

Defination of Muslim آئین پاکستا ن میں مسلمان کی تعریف




 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


آئین پاکستا ن میں مسلمان کی تعریف 

اورعقیدہ ختم نبوت   

(آر-ایس-بھٹی)

آئین پا کستان  1974 میں مسلما ن کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی 

مسلم'' سے مراد کوئی ایسا شخص ہے جو وحدت و توحید قادرمطلق اللہ تبارک   وتعالی، خاتم النبیین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط طور پرایمان رکھتا ہواور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔

اس تعریف کو پڑھ کرتعصب سے بغیرایک عام فہم کا انسان بھی یہ جان سکتا ہے کہ یہ تعریف نہ تو قرآن میں بیان ہوئی ہے اورنہ ہی مستند احا دیث کی کسی کتاب میں  کیونکہ ختم نبوت کا لفظ نہ تو قرآن کا بیان کردہ ہے اور نہ ہی مستند احادیث میں اس کا کچھ ذکر ہے۔ پھر آخر پاکستان کے آئین میں خود سے ایک نئی تعریف بنا کر ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اوراحادیث میں بیان کردہ کسی بھی تعریف کی رو سے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار نہیں دیا جا سکتا تھا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعریف باقاعدہ ایک خاص مقصد کے تحت تراشی گئی تھی۔

لہذا علماء اور ماہرین قانون نے سخت عرق ریزی کے بعد یہ تعریف بنائی تاکہ جماعت احمدیہ کو کسی طرح اسلام سے خارج قرار دیا جا سکے یہ دوسری بات کہ اس طرح وہ خود بھی دائرہ اسلام سے باہر نکل گئے؛ لیکن پرواہ نہیں۔

 اس سے قبل 1953 میں بھی علماء یہ کوشش کر چکے تھے لیکن تب ابھی پاکستان بنے کو چند سال ہی ہوئے تھے اور ان لوگوں کی اکثریت ابھی زندہ تھی جو یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ تحریک پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والی اور قائداعظم کا ساتھ دینے والی جماعت احمدیہ واحد مذہبی جماعت تھی اور وہ علماء جو جماعت احمدیہ کے درپئے ہیں اور ملک کو فسادات میں دھکیل رہے ہیں وہ تو باآواز بلند اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے

اور شائید ایک وجہ یہ بھی ہوکہ تب تک پا کستانی علماء کا عقیدہ ختم نبوت اتنا پختہ نہیں ہوا تھا اس لئے جب منیرانکوائری کمیشن کے دوران مختلف علماء سے مسلمان کی تعریف پوچھی گئ تو سوائے ایک مولوی صاحب (مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صدر جمیتہ العلماء پاکستان )کے علاوہ  ابوالاعلیٰ مودودی صاحب سمیت کسی نے بھی مسلمان بننے کوعقیدہ ختم نبوت کے ساتھ مشروط نہ کیا۔ اس کےعلاوہ ایک اور مولوی صاحب(امین احسن اصلاحی) نے مسلمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے لفظ خاتم النبیین کا ذکر کیا لیکن اس کے ساتھ ہی لفظ خاتم النبیین کی تشریح بھی کی۔ لیکن لفظ ''ختم نبوت'' کسی بھی مولوی صاحب نے استعمال نہیں کیا

چنانچہ مولاناابو الحسنات صاحب نے مسلمان کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی

اول ۔ وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو

دوم ۔ وہ پیغمبر اسلام کو اور تمام انبیائے سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو 

سوم۔ اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام صلعم انبیاء میں آخری نبی ہیں (خاتم النبیین) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور مولوی امین احسن اصلاحی نے مسلمان کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی

 مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک سیاسی مسلمان دوسرے حقیقی مسلمان۔ سیاسی مسلمان کہلانے کے لئے ایک شخص کے لیے ضروری ہے کہ

 وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو

 ہمارے رسول پاک کو خاتم النبیین مانتا ہو یعنی اپنی زندگی کے متعلق تمام معاملات میں ان کو آ خری سند تسلیم کرتا ہو

-------

ان تمام سوال وجواب کے بعد جسٹس منیرکمیشن کے ریمارکس بہت اہم اور تاریخی ہیں لکھتے ہیں کہ کوئی سے بھی دو عالم، مسلمان کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں اور اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہمیں متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے گا۔ اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن تمام علماء کی تعریف کے رو سے کافر ہو جائیں گے  

            ( منیر انکوائری رپورٹ  ص335 تا 340 )                                                       اوپربیان کردہ تفصیل سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ آج جو ہرطرف یہ راگ الاپا  جاتا ہے کہ احمدیوں نے چودہ سو سال    سے  قائم عقیدہ "ختم نبوت" پرڈاکہ ڈالا ہے توجناب چودہ سوسال تو کیا؛ابھی ساٹھ سال پہلے تک لفظ "ختم نبوت" آپکے اپنے علماء کی لغت میں نہیں تھا آپکے علماء تو زمانے کے بدلنے کےساتھ اپنا رنگ اورعقیدہ بدلنے کے ماہرہیں اور پچھلے چند سالوں میں انھوں نے اسےدوبارہ  سے جدت بخشی ہے تاکہ کسی طرح وقت کے امام کو نہ ماننے کا بہانا تراشا جاسکے اورعوام تک اس روشنی کوپہنچنے سے روکاجاسکا

              اب اگر احادیث کو دیکھیں تو احادیث میں مختلف موقعوں پر مسلمان کی تعریف مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے جیسا کہ ایک موقع پرفرمایا گیا کہ مسلمان وہ ہے کہ جسکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں- ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ جس شخص نے وہ نمازادا کی جوہم کرتے ہیں اس قبلہ کی طرف رخ کیا جسکی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے

       (بخاری کتاب الصلوہ باب فضل استقبال القبلہ)                                             

 آئیے اب ایک اور حدیث دیکھتے ہیں جوبخاری کتاب الجہادوالسیر میں کتابہ الامام الناس میں درج ہے جوکہ غالبا مردم شماری     کے موقع کی ہے اور جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غالبا کسی جہاد کی تیاری کےلئے حضورصل اللہ علیہ وسلم       کو مجاہدین کی تعدادکا اندازہ لگانا مقصود ہوگا-جب آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا

جن لوگوں نے اسلام کا زبان سے اقرار کیا ہے ان کےنام مجھےلکھ دو اور ہم نے ڈیڑھ ہزارمردوں کے نام لکھ کرآپکودیئے اور ہم کہنےلگے کیا اب بھی ہمیں ڈر ہے جب ہم ڈیڑھ ہزار ہیں ہم نے اپنے آپکو آزمائش کےاس زمانے میں بھی دیکھاہے جب ایک شخص ا کیلا نماز پڑھتا تھا اوروہ خوفزدہ ہوتا 

 اللہ تعالی نے حضورصل اللہ علیہ وسلم کو دینی اوردنیاوی دونوں بادشاہتیں عطا فرمائی تھیں،علم غیب سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا لیکن جب مردم شماری کی ضرورت پیش آئی تونہ تو تفصیلی سوال وجواب کئے(نماز، روزہ، زکوہ کاپوچھا) نہ  ہی اپنے رسول ہونے کاکوئی زعم کیا( خدا چاہےتو رسول کو دلوں کے حال پر آگاہ کردے)،صرف یہ پوچھنے پر اکتفا کیا کہ جوخود کو مسلما ن بتائے اسے مسلما ن لکھ لو-اور ایک حکومت کااپنے شہریوں کے مذہب سےبس یہی تعلق ہونا چاہیے کہ ان سے پوچھ لے کہ ان کا کیا مذہب ہے نہ یہ کہ خودان کو بتائے کہ ان کامذہب کیا ہے

اب ذرا غورکرتے ہیں کہ قرآن میں لفظ مسلمان کہاں کہاں اور کیسےاستعمال ہوا ہے 

مسلمان کا لفظی ترجمہ فرمانبردار کے ہوتے ہیں اورعام طور پر ان آ یات کے ترجمہ  میں یہی مطلب استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے مسلمان کا لفظ ہی لکھا گیا ہے اس طرح ان آیات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان کا لفظ خدا تعالیٰ نے پرانے انبیاءکے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ 

سورہ البقرہ آیت ١٢٩ میں حضرت ابراہیم کی ایک دعا درج ہے جوانھوں نے حضرت اسمعیل کےساتھ خانہ کعبہ کی بنیادیں استوار کرتے ہوئے مانگی 

ربناواجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امتہ مسلمتہ لک

اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دو "مسلمان" بندےبنادے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک "مسلمان" امت بنادے 

اسی طرح سورج البقرہ آیت 133میں ہے

 ووصی بھآ ابراھیم بنیہ و یعقوب یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلاتموتن آلا و انتم مسلمون

اور اسی بات کی تاکیدی نصیحت ابراھیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی  کہ اے میرے پیارے بچو! یقینا اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چن لیا ہے پس ہر گز مرنا نہیں مگر اس حالت میں کہ تم "مسلمان" ہو۔

 آئیے اب سورہ الحج آ یت 79 کو دیکھتے ہیں جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے 

ھو اجتبکم و ما جعل علیکم فی الدین من حرج  ملتی ابراھیم ھو سمکم المسلمین من قبل و فی ھذا لیکون الرسول شھید آ علی الناس فاقیموا الصلوہ و اتو الزکوہ واعتصموا باللہ 

اس نے تمہیں چن لیا اور تم پردین کے معاملات میں کوئی تنگی نہیں ڈالی ہیں  یہی تمہارے  باپ ابراھیم کا مذہب تھا اس (یعنی اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس سے پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ رسول تم سب پر نگران ہو جائے اور تاکہ تم تمام انسانوں پرنگران ہو جاو۔ پس نماز کو قائم کرواورزکوٰۃ دو اوراللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ 

اس آ یت نے تو لفظ مسلمان پرسے پاکستانی علماء کی اجارداری ہی ختم کردی ہے اسلام کے ظہور سے بہت پہلے اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم اورآپ کی قوم کو مسلم قرار دیااور آج پاکستان کے علما نے کسی شخص کے مسلم ہونے یانہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا ٹھیکہ اپنےہاتھ میں لے لیا ہے آج اگر حضرت ابراھیم ،آپ کے بیٹے(حضرت اسمعیل، حضرت اسحاق ) یا پوتے  (حضرت یعقوب)  یاپڑپوتے(حضرت یوسف) پاکستان آ جائیں اورکہیں کہ ہمارا نام تو خدا نے مسلمان رکھا ہے تو وہاں کا آئین اورعلماء ان کےاس دعوی کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ کیونکہ وہ تو لفظ مسلم کواپنا ذاتی ٹریڈ مارک بنا چکے ہیں کوئی اور شخص انکی مرضی اور آشیرباد کے بغیر یہ لفظ استعمال نہیں کرسکتا

اورپچھلے دنوں توانھوں نےاپناغم وغصہ گوگل پر بھی خوب نکالا،کیونکہ اس گستاخ گوگل نے امام جماعت احمدیہ کانام مسلمانوں کے خلیفہ کے طور پرلکھا ہوا تھا اور آج کل یہ گستاخی گوگل کوبھگتنی پڑرہی ہے

         

                             Reference picture: revelation, rationality, knowledge and truth                                        

ہماری حکومت تو اس تصویرمیں دکھائے گئے بادشاہ سلامت کی طرح ہے جوعوام اور  آسمانی روشنی کے درمیان حائل ہونے کی جان توڑ کوشش کررہی ہے، کبھی جماعت احمدیہ کے خلاف قوانین بنا کر، کبھی جماعت کی ویب سائٹس اورٹی وی چینل بند کرکے، کبھی کتابوں پر پابندی لگا کر، اورکبھی گوگل اور وکی پیڈیا کونوٹسسزبھیج کر 

جوہوسکے توستاروں کے راستے کاٹو                  

  کوئی تو چارہ کرو کچھ توکار کر دیکھو                  

خدا کی بات ٹلے گی نہیں تم ہو کیا چیز                                       

اٹل چٹان ہے سر مار مار کر دیکھو                                      

(کلام طاہر)                                                                                               

آ خر میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کے الفاظ   میں جماعت احمدیہ کاعقیدہ درج ہے،جس پر جماعت احمدیہ مسلمہ خدا کے فضل  سے پچھلے سوا سو سال سے قائم ہے اور انشاءاللہ ہمیشہ قائم رہے گی  

:آپ علیہ السلام فرماتے ہیں

ہم مسلمان ہیں- خدائے واحد لا شریک پرایمان لاتے ہیں اور کلمہ لاالہ الااللہ کے قائل ہیں اورخدا کی کتاب قرآن اور اس کےرسول محمد صل اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم 

الا نبیاء ہیں مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور دوزخ اور بہشت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں اوراہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیاہے اسکو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا ہے اسکو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سےہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے  ہم اسکو سمجھیں یا اسکے بھیدکوسمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن مُوحد مسلم ہیں-

(نور الحق جزء اول ص5)                                                                                              کوئی بھی ذی ہوش انسان جو تقوی اور انصاف سے کام لے اور قرآن و حدیث کاعلم رکھتا ہو وہ کبھی بھی    ان    عقا ئد پر قائم جماعت کوغیرمسلم قرار نہیں دے سکتا 

Tuesday, December 15, 2020

punishment for apostasy مرتد کی سزا

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مرتد کی سزا 

قرآن اور اسوہ رسول صہ کی روشنی  




                                                            (آر۔ایس۔بھٹی)

چھ ہجری، حدیبیہ کا مقام کام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ علیھم کے ہمراہ تشریف فرما ہیں اور کفار مکہ کے ساتھ صلح کی شرائط طے پا رہی ہیں۔
شرط نمبر 3-اگر مکہ والوں میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر کر مدینہ آجائے تو آنحضورصلی اسے پناہ نہیں دیں گے اور اسے  واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی شخص مدینہ سے مکہ چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا
 سوال یہ ہے کہ کوئی شخص مکہ چھوڑ کر  مدینہ کیوں جائے گا؟
یہ اس شخص کی بات ہو رہی ہے جو اسلام سے پھر جائے، اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے اور جسے ہمارے ہاں عام محاورے میں مرتد کہا جاتا ہے۔ تو کیا اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ دے، اور کفر کی گود میں میں واپس چلا جائے تو اسے قتل کرنے کی بجائے مکہ جانے کی اجازت ہوگی؟  یہ چھ ہجری  کا زمانہ ہے قرآن  اپنی تکمیل کے قریب ہے اور اسلام کا سورج  پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے کے لیے بے قرار ہے اگر خدا تعالی نے قرآن کریم میں مرتد کی سزا قتل بیان فرما دی گئی تھی تو قرآن کی اس واضح تعلیم کے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح شرائط قبول فرما سکتے تھے ؟

 اس کا مطلب ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا وضع کرنے کے لیے ہمیں قرآن اور حضور صل وسلم کے اسوہ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ہے کیا واقعی سزا قرآن یا حدیث میں بیان فرمائی گئی ہے 

سورۃ آل عمران آیت نمبر 87 تا 90 اللہ تعالی فرماتا ہے
بھلا کیسے اللہ ایک قوم کو ہدایت دے گا جو ایمان لانے کے بعد  کافر ہوگئے ہوں اور وہ گواہی دے چکے ہوں کہ رسول حق ہے  اور ان کے پاس کھلے کھلے دلائل آ چکے ہوں  اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا 
یہی وہ لوگ ہیں جن کی جزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی
 وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے  ہیں ان سے عذاب کو ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ وہ کوئی مہلت دیئے جائیں گے۔
 سوائے ان کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی تو یقین اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے 
اسی طرح سورہ النساء کی آیت نمبر 138 میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
 یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے  پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کردیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے اللہ ایسا نہیں کہ انھیں  معاف کر دے اور انہیں راستے کی ہدایت دے

 درج بالا آیت میں تو اللہ تعالی نے مرتد کو قتل کرنے کے خلاف واضح تعلیم دی  ہے کیونکہ اگر کسی شخص کو مرتد ہونے کے بعد قتل ہی کر دینا ہے تو اس کے دوبارہ ایمان لانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
 اسی طرح ایک اور بہت مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا خب وحی ہوتی تو حضور اسے بلا کر لکھوا دیا کرتے۔ یہ سورۃ المومنون کی شروع کی آیات کا ذکر ہے جن میں انسان کی روحانی اور جسمانی پیدائش کے مختلف مراحل بیان فرمائے گئے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے 'ثم انشانہ خلقا اخر'  تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا فتبارک اللہ احسن الخالقین حضور صل وسلم نے فرمایا یہی وحی ہے اس کو لکھ لو لو۔ اس بدبخت کو یہ خیال آیا کہ شاید جس طرح میرے منہ سے آیت  نکلی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح بنا لی ہے اور شاید نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح  قرآن بنا لیا کرتے ہیں وہ شخص مرتد ہوگیا اور مکہ چلا گیا (اصابہ جلد 4 صفحہ77 ) 
نہ صرف یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ یہ بھی روایت آتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ شخص مسلمان ہوگیا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام اپنے مکمل صورت میں قائم ہو چکا تھا تو پھر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم نہ دیا  بلکہ دوبارہ اس کی بیعت قبول فرما لی۔
 اب دیکھتے ہیں کہ مرتد کی سزا کا عقیدہ کن لوگوں کا ہے اور کون لوگ اس پر زور دیتے ہیں
 جب بھی کوئی نبی دنیا میں مبعوث ہوتا ہے تو وہ نئی تعلیمات لے کر آتا ہے یا جن تعلیمات کو لوگ بھول چکے ہوتے ہیں ان کا اعادہ کرتا ہے اور وہ لوگ جو پرانے رسم و رواج کو چھوڑ کر اس کی پیروی کر رہے ہوتے انہیں مرتد کہا جارہا ہوتا ہے  اور مرتد کا لفظ عمومی طور پر انبیاء کے مخالفین کی طرف سے عام طور پر زیادہ استعمال کیا جاتا  ہے کیونکہ وہ انبیاء کے پیروکاروں کو عام طریق سے ہٹ کر نیا طریق اختیار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے مخالفین کا ہمیشہ سے یہی عقیدہ رہا ہے کہ مرتد کو یا تو قتل کر دیا جائے یا اس کو ملک سے نکال دیا جائے۔
 جیسا کہ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 14 اور 15 میں اللہ تعالی فرماتا ہے؛ اور ان لوگوں  نے جنہوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے کہا  کہ ہم ضرور تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تم ہماری ملت میں واپس آ جاؤ گے تب ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کر دینگے 
اور ضرور ہم تمہیں ان کے بعد  ملک میں بسا دیں گے یہ اس کے لئے ہے جو میرے مقام سے خوف کھاتا ہے اور میری تنبیہ سے ڈرتا ہے 
ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالی مرتد ہو جانے والوں کے بدلے میں خوشخبری دے رہا ہے کہ میں ان کے بدلے میں  ایک قوم دوں گا چنانچہ سورہ المائدہ آیت نمبر 55 میں اللہ تعالی فرماتا ہے 

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہوجائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ  اس سے محبت کرتے ہوں اور و ہمومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت۔
 ان سب آیات اور اسوہ رسولصل اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کے بعد اگر آج کے مسلمانوں کی دینی تربیت کو دیکھا جائے تو معاملہ بالکل الٹ دکھائی دیتاہے
 نا صرف یہ کہ وہ دوسرے مذہب بلکہ دوسرے فرقے کو برداشت کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں اور آج کل تو ایک بہت ہی مشہور سلوگن انٹرنیٹ پر چلتا ہے کہ بغیر دلیل کے دوسرے کو کافر اور واجب القتل کہا جاتا ہے اور جماعت احمدیہ پر یہ  نوازش خاص طور پر اور باافراط کی جاتی ہے 
 ذیل کی دو ویڈیو قتل و غارت گری کے اس سمندر میں سے صرف نمونے کے طور پر نکالی گئی ہیں 


https://www.youtube.com/watch?v=EMiawYNp628


یہ صرف دو ویڈیو ہیں اس میں قرآن کے اس واضح حکم کے خلاف پاکستان کے علماء فتوی دے رہے ہیں اور یہ ان علماء کی ویڈیو ہیں جنہیں عام طور پر مہذب اور غیر شدت پسند علماء میں شمار کیا جاتا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک صاحب تو نہایت مہذب انداز سے احمدیوں کے قتل کے فتوے دے رہے ہیں اور دوسرے صاحب مرتد کو فتنہ وفساد کا منبع قرار دیتے ہوئے اس کے قتل کے لیے بہانہ تراش ہیں اور ہمیشہ سے یہ کام خدا کے بھیجے ہوئے فرستادہ کے مخالفین کرتے آئے ہیں


                         ہے کام مساوات  محمد  کومٹانا

                            کرتا ہے عرب اور عجم اور طرح سے