ALLAH IS THE GREATEST

THERE IS NO GOD BUT ALLAH.

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

ALLAH HO AKBAR الله اکبر

ALLHA IS THE GREATEST.

ISLAM IS THE BEST RELIGION AMOUNG ALL

LOVE FOR ALL, HATRED FOR NONE

Everthing is created by ALLAH

Nature is always perfect.

ALLAH Knows Everything

No one is powerful then "ALLAH"

LOVE FOR HUMANITY

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Love Humanity

Beauty

Peace

SEAL OF THE PROPHETS

ISLAM = PEACE + LOVE + TOLERANCE

ISLAM is derived from the Arabic root “SALEMA”:Means

Peace, Purity, Submission and Obedience

"SEAL OF THE PROPHETS"

The LAST LAW BEARING PROPHET

Saturday, November 26, 2022

اکثر شبِ تنہائی میں

 اکثر شبِ تنہائی میں           نادر کاکوروی                       


 اکثر شبِ تنہائی میں

کچھ دیر پہلے نیند سے

گزری ہوئی دلچسپیاں

بیتے ہوئے دن عیش کے

بنتے ہیں شمعِ ذندگی

اور ڈالتے ہیں روشنی

میرے دلِ صد چاک پر


وہ بچپن اوروہ سادگی

وہ رونا وہ ہنسنا کبھی

پھر وہ جوانی کے مزے

وہ دل لگی وہ قہقہے

وہ عشق وہ عہدِ و فا

وہ وعدہ اور وہ شکریہ

وہ لذتِ بزمِ طرب

یاد آتے ہیں ایک ایک سب


دل کا کنول جو روز و شب

رہتا شگفتہ تھا سو اب

اسکا یہ ابتر حال ہے

اک سبزۂ پا مال ہے

اک پھو ل کُملایا ہوا

ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا

روندا پڑا ہے خاک پر


یوں ہی شبِ تنہائی میں

کچھ دیر پہلے نیند سے

گزری ہوئی ناکامیاں

بیتے ہوئے دن رنج کے

بنتے ہیں شمعِ بےکسی

اور ڈالتے ہیں روشنی

ان حسرتوں کی قبر پر


جوآرزوئیں پہلے تھیں

پھر غم سے حسرت بن گئیں

غم دو ستو ں کی فوت کا

ان کی جواناں موت کا


لے دیکھ شیشسے میں مرے

ان حسرتوں کا خون ہے

جو گرد شِ ایام سے

جو قسمتِ ناکام سے

یا عیشِ غمِ انجام سے

مرگِ بتِ گلفام سے

خود میرے غم میں مر گئیں

کس طرح پاؤں میں حزیں

قابو دلِ بےصبر پر


جب آہ ان احباب کو

میں یاد کر اٹھتا ہوں جو

یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے

جس طرح طائر باغ کے

یا جیسے پھول اور پتیاں

گر جائیں سب قبل از خزاں

اور خشک رہ جائے شجر


اس وقت تنہائی مری

بن کر مجسم بےکسی

کر دیتی ہے پیشِ نظر

ہو حق سااک ویران گھر

ویراں جس کو چھوڑ کے

سب رہنے والے چل بسے

ٹو ٹے کواڑ اور کھڑ کیاں

چھت کے ٹپکنے کے نشاں

پرنالے ہیں روزن نہیں

یہ ہال ہے، آ نگن نہیں

پردے نہیں، چلمن نہیں

اک شمع تک روشن نہیں

میرے سوا جس میں کوئی

جھا نکے نہ بھولے سے کبھی

وہ خانۂ خالی ہے دل

پو چھے نہ جس کو دیو بھی

اجڑا ہوا ویران گھر


یوں ہی شب تنہائی میں

کچھ دیر پہلے نیند سے

گزری ہوئی دلچسپیاں

بیتے ہوئے دن عیش کے

بنتے ہیں شمعِ زندگی

اور ڈالتے ہیں روشنی


میرے دل صد چاک پر







Sunday, October 30, 2022

محاصرہ

محاصرہ         احمد فراز                        

 مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے 

کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے 

فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر 

کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے 

وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش 

وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی 

بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں 

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی 

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے 

سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے 

تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام 

امید لطف پہ ایوان کج کلاہ میں ہیں 

معززین عدالت بھی حلف اٹھانے کو 

مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں 

سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں 

تم اہل حرف کہ پندار کے ثناگر تھے 

وہ آسمان ہنر کے نجوم سامنے ہیں 

بس اک مصاحب دربار کے اشارے پر 

گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں 

قلندران وفا کی اساس تو دیکھو 

تمہارے ساتھ ہے کون آس پاس تو دیکھو 

سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو 

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو 

وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا 

بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو 

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا 

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے 

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے 

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے 

سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے 

کہ مجھ کو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ 

اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت 

اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ 

مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا 

جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے 

مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا 

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے 

مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا 

جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے 

مرا قلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق 

جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے 

مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی 

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے 

مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی 

جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے 

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی 

مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے 

اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا 

جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے 

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے 

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا 

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم 

مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا 

سرشت عشق نے افتادگی نہیں پائ

تو قد سرو نہ بینی و سایہ پیمائی














Friday, May 20, 2022

Freedom of speech

آزادئ اظہار 

یا مادر پدر آزادی

 آزادئ اظہار ان چند بنیادی حقوق میں سے ہے جو انسانوں نے لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد حاصل کیے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات قابل فکر ہے کہ اگر یہ آزادئ اظہار اسلام یا بانئ اسلام  (حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم) یا مسلمانوں کے خلاف ہو تو پھر تو یقینا یہ آزادئ اظہار ہی شمار ہوتا ہے لیکن اگر یہ کسی دنیاوی حکومت کے خلاف ہو تو ایسی نفرت انگیز مواد کو وسیع تر قومی مفاد کےتحت نہ صرف ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کاروائی بھی کی جاسکتی ہے

یہاں ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حکومتوں کے خلاف مواد کوچھاپنے اور ان کی تشہیر کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔ بلکہ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر مذہب کے روحانی پیشواؤں کے احترام کے لئے بھی ایسے ہی اعلی معیار قائم کئے جانے چاہئیں 

اللہ تعالی نے قرآن کریم کو انسان کی ہدایت کا سرچشمہ بنایا ہے اور اس کے ذریعے سے ہمیں روزمرہ کے معاملات میں بھی رہنمائی ملتی ہے ۔ سر عام بری بات کہنے کے بارے میں اللہ تعالی نے ایک اصول قرآن میں بیان فرمایا ہے 

اس آیت میں واضح طور پر کسی دوسرے کے خلاف نا پسندیدہ بات کہنے کی ممانعت کی گئی ہے مگر جس شخص پر ظلم ہوا ہے تو وہ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے 
اسی طرح سورہ الحجرات میں آتا ہے


ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں  (متفق علیہ )

یہی نہیں بلکہ دوسروں کےمذہبی عقائد کے اسقدر احترام کا حکم ہے کہ ان کے بتوں کو برا کہنے سے بھی منع فرمایا ہے تاکہ نہ صرف ان کی دل آزاری نہ ہو بلکہ اس سے معاشرے کا امن بھی قائم رہے

زبان ایک ایسی چیز ہے جس سے دوست دشمن بن سکتا ہے اور دشمن دوست بن سکتا ہے۔ اگر ہم خانگی معاملات میں ہونیوالی ناچاقیوں کو دیکھیں تو اس میں بھی زبان کا بہت عمل دخل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو صرف بات ہی کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف بات ہی گھر بسا بھی سکتی ہے اور گھر برباد بھی کر سکتی ہے

یہی رویہ معاشرے کی بے سکونی کی وجہ بھی بن جاتا ہے اگر ایک مذہب، نسل، رنگ کے لوگ دوسرے کے بارے میں برے بیانات دیں گے تو اس سے لازماً معاشرے کا امن و سکون برباد ہو گا

 اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آزادئ اظہار کے حق کا استعمال اپنے ساتھ بہت اہم ذمہ داریاں رکھتا ہے جن کا تعین کیا جانا چاہئے۔ کسی بھی شخص کے پاس آزادی رائے کا حق کسی بھی دوسرے شخص کو بد نام کرنے کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی مذہبی پیشواؤں اور مذہبی عقائد کی توہین کی اجازت دیتا ہے۔ 

معاشرے کے امن و سکون کے لیے معاشرتی اقدار کو اعتدال میں رکھنا ضروری ہے۔ایک منصف اور غیر جانبدار حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف نفرت انگیز اور شدت پسند تقاریر پر پابندی لگائیں، بلکہ پر امن اختلاف رائے اور آزادئ اظہار کی حوصلہ افزائی کریں لیکن یہ سب کچھ با مقصد ہونا چاہیے۔ بعض ملکوں میں کوئی ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے جہاں جاکر آپ با آواز بلند تقریر کر سکتے ہیں اور کسی بھی دوسرے کے خلاف کچھ بھی کہہ سکتے ہیں 

لیکن کیا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں؟ یا کسی ظالم کے خلاف تقریر کر لینے سے مظلوم کو انصاف مل سکتاہے؟ 

یقینا نہیں! اس لیے انصاف کی فراہمی کے لیے اور آزادئ اظہار کے حق کے مناسب استعمال کے لئے حکومتوں کو ٹھوس اور بامقصد  اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے 












Sunday, March 27, 2022

ImranKhan

عمران خان

کچھ ماضی کے جھروکوں سے

آر۔ایس۔بھٹی    

کچھ دن پہلے ایک تھریڈ نظر سے گزرا جس میں راجہ شہریار صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان صاحب کی تمام زندگی ہمارے سامنے ہے وہ ہمارے سامنے لیجنڈ بنے ہیں اس پر خیال آیا کہ 

بات تو سچ ہے مگر ۔۔۔۔۔

 عمران خان صاحب کی کچھ یادیں ماضی کے جھروکوں سے ہمارے پاس بھی ہیں ۔ سوچا سب کے ساتھ شیئر کرنی چاہیئں۔  یہ یادیں ان احمدی بھائیوں کے لیے بھی تسلی کا باعث ہوں گی جو عمران خان کی گزشتہ تقریر پر بہت حیران ہیں جو انہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی، بھٹو کی آئینی ترمیم کے حق میں کی ہے ۔ 

عمران خان کی شخصیت، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہونا اور مغربی حسیناوں کے ساتھ ان کے گزشتہ افسانوں کی وجہ سے عام طور ہر  لوگ انھیں لبرل سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہےکہ سیاست میں ان کا تمام کیریئر آغاز سے ہی پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور سیاست انھوں نے ہمیشہ مذہبی جماعتوں کی گود میں بیٹھ کر ہی ہے۔اور ہمیشہ ہی مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔

 آغاز ہی سے وہ قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کے ساتھ اجتماعات، تقاریر اور پریس کانفرنس کیا کرتے تھے۔ اس وقت 2014ء کی عمران خان اور سراج الحق صاحب کی ایک خبر، تصویر کے ساتھ  میرے سامنے ہے جس کا عنوان ہے  "خان کی حق سے ملاقات، کہا پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی قدرتی حلیف ہیں"۔ ہمیں اس میں کچھ اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ 




اور یہ بہت دلچسپ یاد، تصویر کی صورت میں۔۔۔ جس میں وہ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کے ساتھ ہاتھ ہوا میں بلند کر کے اتحاد کا نشان بنا رہے ہیں یہ 23 مارچ 2005ء  کی تصویر ہے۔ 



یاد ماضی عذاب ہے یارب 

چھین لے "گوگل" سے حافظہ اس کا

 یہ سیاست بھی عجیب چیز ہے آج کے دشمن کل کے دوست اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔


  پھر 2013ء کی عمران خان کی انتخابی مہم کسے یاد نہیں، جب عمران خان سٹیج پر پہنچنے کے لئے لفٹر سے گر کر زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے دو دن پہلے انہوں نے جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے بارے میں کچھ نازیبا باتیں کی تھیں۔



اس کے بعد عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا جو 2014 ء میں ہوا اس کے لئیے قادری صاحب خاص طور پر کینیڈا سے تشریف لائے تھے اور یہ دھرنا دو ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہا 



اور یہ آخری تصویر تو بلا عنوان ہے

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا

 جی ہاں! بالکل عمران خان ہمارے سامنے ہی لیڈر بنے اور ان کا ماضی ہمارے سامنے ہے بعض لطیفے ایسے ہی یاد آجاتے ہیں  

ایک مرتبہ گاؤں کے چوہدری کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں ایک شخص پر الزام تھا کہ سید نہیں ہے بلکہ بنا ہوا ہے۔ چوہدری صاحب نے گاؤں کے ایک پرانے بوڑھے شخص کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس شخص کے بارے میں تم کیا جانتے ہو کیا یہ واقعی سید ہے یا بنا ہوا ہے؟ اس بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ کسی اور کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن اس کے بارے میں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ واقعی سید ہے کیونکہ یہ میرے سامنے سید بنا ہے، اس کو سید بنتے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ 











 

Thursday, March 17, 2022

IslamicVeil


 اسلامی پردہ

آر-ایس۔بھٹی
اگر آپ  ایک خاتون ہیں اور سکارف لیتی ہیں اور کسی مغربی ملک میں رہتی ہیں تو آپ کو کبھی نہ کبھی اپنے سکارف/ نقاب/ حجاب کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑاہوگا۔ پچھلے چند سالوں میں مغربی ممالک میں مسلمان خواتین کے حجاب کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ( یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف مسلمان خواتین کا سر ڈھانپنا ہی زیر بحث آتا ہے کیونکہ اگر مسئلہ صرف سر ڈھانپنا ہو تو سر تو عیسائی راہبائیں بھی ڈھانپتی ہیں لیکن ان کے سرڈھانپنے پر کبھی سوال نہیں اٹھا) اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسلامی پردے سے سیکیورٹی خطرات ہو سکتے ہیں اور دہشتگردی کی ممکنہ روک تھام کے لئے یہ اقدام اٹھایا جانا ضروری ہے
کیا واقعی حجاب  سے سیکیورٹی خطرات ہیں؟ کیا واقعی کبھی کوئی نقاب پوش خاتون کسی مغربی ملک میں اپنے پردے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد کاروائی کا حصہ بنی؟

اگر ہم اس بارے میں تحقیق کریں تو ہمیں مغربی دنیا میں ایسا کوئی واقعہ ماضی قریب میں نہیں ملتا،جن کی وجہ سے ان ممالک میں خاص طور پر حجاب کو نشانہ بنایا گیا۔ ان  ممالک میں فرانس سرفہرست ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں 5 ملین مسلمان آباد ہیں 




یہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں کہ چہرے کو  چھپانے  سے سیکیورٹی خطرات ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں نے بھی چہرے چھپا رکھے تھے مگر جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔بہت سے علاقے جو دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے وہاں بھی کافی حد تک سکون رہا اور کسی نے بھی چہرہ چھپانے کا کوئی منفی اثر معاشرے پر ہوتا نہیں دیکھا۔ بلکہ بعض لوگ تو اس نئے تجربے سے بہت محظوظ ہوئے
 
کیمبرج یونیورسٹی نے کووڈ کی وجہ سے جرائم کی شرح پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے دنیا کے تیئس ممالک کے ستائیس شہروں میں ایک ریسرچ کی۔ یہ 23 ممالک یورپ، امریکا، ایشیا اور مشرق وسطی سے ہیں اس تحقیق کے مطابق کووڈ وبا کے دوران جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی رہی۔ اور عمومی طور پر ان تمام شہروں میں 37 فیصد تک پولیس کے ریکارڈ میں آنے والے جرائم میں کمی ہوئی۔ جس میں جسمانی تشدد میں 35 فیصد ، چوری ڈکیتی میں 46 فیصد اور جیب تراشنے کے واقعات میں 47 فیصد تک  کمی ہوئی۔ 

اس تمام تمہید سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلامی پردہ کا جرائم کے ساتھ کبھی بھی براہ راست تعلق نہیں رہا اور ویسے بھی جہاں تک جرائم کی شرح کا تعلق ہے مردوں میں جرائم کرنے کی شرح خواتین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جبکہ مرد تو پردہ کرتے ہی نہیں ہیں۔ 
پھر اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مغربی ممالک میں بسنے والی مسلمان خواتین کی اکثریت محض سر ڈھانپتی ہیں اور چہرہ کھلا رکھتی ہیں اور ایسی صورت میں تو یہ سیکیورٹی خطرات والی بات بالکل بے کار ہو جاتی ہے کیونکہ ان ممالک میں سر کو تو لوگ موسم کی شدت کی وجہ سے بھی ڈھانپتے ہیں 

ایک اور وجہ جو حجاب پر پابندی لگانے کی بتائی جاتی ہے وہ یہ کہ مرد و خواتین کو ایک ہی طرح کا نظر آنا چاہیئے اس سے معاشرے میں مساوات اور مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ تو ایسی خواہش ہے کہ کوئی بھی عقلمند انسان اس خواہش پر اپنا سر پکڑ کے بیٹھ جائے۔ کیا اگر مسلمان خواتین حجاب اتار دیں تو مرد اور خواتین ایک ہی طرح کے دکھائی دینے لگیں گے؟ کیا مرد سکرٹ پہننا اور میک اپ کرنا شروع کردیں گے؟ اور کیا کوئی خاتون یہ پسند کرئے گی کہ وہ مردوں کی طرح دکھائی دے؟ 
یقینا نہیں۔ 
اس لئیے یہ تمام جواز حجاب کے خلاف محض ایک پروپیگنڈا کے سوا اور کچھ نہیں۔ جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حجاب یا پردہ ہمیشہ سے انسانوں کے مہذب معاشروں کا حصہ رہا ہے اور عزت اور تکریم کی خاطر استعمال ہوا ہے آج تک شاہی خاندان میں بھی شادی بیاہ کے موقع پر دلہن اپنے چہرے پر  ایک جالی ڈالتی ہے جو کہ پردے کی ہی تبدیل شدہ شکل ہے 

 مذاہب کی تاریخ میں پردے کا تصور ہمیشہ ہی سے موجود رہا ہے اور اسلام نے یہ تصور پہلی مرتبہ پیش نہیں کیا ۔حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابتدائی مذہبی تعلیم  ہے ان کی تعلیمات کے چند نکات جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں 

( 119- طہ)     

گویا کہ خداتعالی کی طرف سے جو پہلی تعلیم انسان کو دی گئی اس میں جسم کو ڈھانپنے کی ہدایت تھی۔ اس سے پہلے انسانوں میں لباس کا تصور بھی غالبا نہیں تھا اور جیسا کہ انسانی دستور ہے کہ جب بھی کوئی نبی تعلیم لے کر آیا آغاز میں لوگوں کی اکثریت کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی رہی۔ اور پھر رفتہ رفتہ انسان اسی تعلیم کی خوبصورتی اور ضرورت کا قائل ہوتا گیا۔ موجودہ دور میں انسانوں نے بڑی تیزی کے ساتھ انبیاء کی مخالفت اور مذہب کی ضرورت سے انکار کا رویہ اختیار کیا ہے اور ان کی تعلیمات کو فرسودہ قرار دے کر جدت پسندی کے نام پر نئے اصول و ضوابط وضع کیے اور اخلاقیات کے بھی نئے پیمانے متعارف کروانے شروع کر دیئے ہیں اور شاید اسی لئے اس پہلی شرعی تعلیم کے غیر ضروری ہونا ثابت کرنے کے لیے لباس کی ضرورت کے بھی انکاری ہیں 

لیکن مسئلہ اس وقت شدید صورت اختیار کرجاتا ہے جب ایک انسان اپنی سوچ کو دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش کرئے۔ کوئی شخص اگر لباس یا مناسب لباس کو غیر ضروری سمجھے، تو سمجھ سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں دوسروں کو بھی مجبور کرئے کہ وہ بھی اس کی سوچ کے مطابق عمل کریں اس سے معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے 

درحقیقت پردے کے خلاف پروپیگنڈا نہ ہی حفاظتی اقدامات کا حصہ ہے اور نہ ہی اس سے معاشرے میں مساوات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ یہ محض ایک مہذب معاشرے کے سنہری اصولوں کو بے آبرو کرنے کی کوشش ہے

ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر چہرےکا چھپانا خطرے کی علامت ہے تو پھر ان سب پلاسٹک سرجریز کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو آجکل عام ہیں اور جس سے لوگ مکمل طور پر اپنے چہرے کے نقوش تبدیل کر لیتے ہیں کیا یہ بات معاشرے میں سیکیورٹی خطرات کا باعث نہیں۔ 

______________________


https://www.cam.ac.uk/stories/COVIDcrime







Sunday, December 26, 2021

Plantation



                    Planting a Tree is like  Planting a hope   

R.S.Bhatti

                       There is a famous Asian saying that the trees are another form of mothers because they give shade and tolerate the sun. People living in countries near the equator can understand the importance of shade of a tree in the scorching sun.

But this is not the only benefit of trees. Trees are very important for human race. They give us oxygen and keep our environment clean by absorbing various harmful gases and pollutants from the environment.

Prime minister Boris Johnson announces:
‘30,000 ha of trees to be planted every year as part of ‘green industrial revolution’

https://www.forestryjournal.co.uk/news/18897244.30-000-ha-planted-every-year-part-green-industrial-revolution-boris-johnson-announces/

To achieve this goal  the ladies section of the Ahmadiyya Muslim community, also taking part in tree plantion across UK. Women's auxiliary of the Ahmadiyya Muslim Community will be celebrating 100 years since being established, in 2022. To commemorate this and conserve our beautiful planet, the UK members have pledged to plant 100,000 trees across the UK. Till now only noth- east ladies have planted more than 1000 trees.

Around 13% of the UK was covered by woodland in March 2020.This is relatively low compared with other developed countries:  e.g., In most European countries, forest covers between 31-50% of land area, and this is also true of the US and Canada. For example, woodland covers 32% of France’s land area, 33% of Germany’s and 37% of Spain’s. This is why the Government has 
committed to increasing tree planting rates across the UK.
Islam has placed a great deal of significance tree planting. Founder of Islam, Hadhrat Muhammad (peace and blessing of Allah be upon him) described the importance of trees. There are several beautiful verses in the Book of Allah that contain descriptions of the lush, green gardens and trees and imply their significance in this world as well as the hereafter. 

In Holy Quran Allah Almighty said:
"And it is He Who sends down water from the cloud; and We bring forth therewith every kind of growth; then We bring forth with that green foliage wherefrom We produce clustered grain. And from the date-palm, out of its sheaths, come forth bunches hanging low. And We produce therewit gardens of grapes, and the olive and the pomegranate—similar and dissimilar. Look at the fruit thereof when it bears fruit, and the ripening thereof. Surely, in this are Signs for a people who believe."
 (Ch:6, V:100)

Similarly, the words of our beloved Prophet Muhammad peace be upon him, have established the importance of planting and taking care of trees. In many of his sayings the Holy Prophet peace be upon him, emphasised on the value and importance of plants. He forbade cutting down trees even during wars, and mentioned planting a tree as a charitable act.
In a hadith Holy Prophet peace and blessings be upon him, said, 
“Even if the Resurrection were established upon one of you while he has in his hand a sapling, let him plant it.”
(Musnad Aḥmad 12902)

Trees are an essential part of the our environment. They make the environment beautiful and fit for the existence of various species of organisms. Life on the earth will not be possible without trees. They are important to us in many ways. It would not be wrong to say that trees give us life.
Areas of greenery provide a more peaceful environment. People living in such areas experience less stress and are happy. Trees also provide food and shelter to us. . There leaves, roots and bark are used to prepare medicines.
We should avoid cutting trees and planting more of them. We should also encourage people around us to plant trees.








 

Sunday, November 21, 2021

namaz videos














importance of Namaz


 

Tabligh videos










Tabligh is an Obligation not a Voluntary  act




How Lajna can participate in Tabligh activities

 

Tuesday, November 16, 2021

Quran... word of Allah

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 قرآن ۔۔۔ خدا کا کلام 

آر۔ایس۔بھٹی 

اللہ تعالی نے قرآن میں انسان کے لیے بے شمار فوائد رکھے ہیں اور روحانی اور مادی طور پر دونوں علموں کے خزانے اس میں بیان فرمائے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے

علم العلمان علم الابدان و علم الادیان

  بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں 

 جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے

اللہ تعالٰی نے  بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئیے اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنا پاک کلام نازل فرمایا جو آج تک اپنی اصل حالت میں ہم میں موجود ہے قرآن میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود کسی تحریف کا نہ ہونا بذات خود قرآن کی سچائی پر ایک مضبوط دلیل ہے۔ مزید یہ کہ قرآن میں موجود پیش گوئیاں اور علوم کے خزانے قرآن کو وہ رفعتیں عطا کرتے ہیں جو کسی اور کتاب کے حصہ میں نہ آ سکیں اور جس سے اس کے خدا کا کلام ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ قرآن ایک مقدس الہی صحیفہ ہے ۔ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے 

 جیسے کہ حکومت_سیاست کرنے کے بہترین طریق، لین دین کے معاملات، دین سے متعلق احکامات وغیرہ۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی کتاب کے الہی صحیفہ ہونے پر مضبوط دلیل نہیں ہیں اور کوئی عقلمند انسان زندگی کے بعض مسائل کے بارے میں غور کر کے ان کے حل پیش کرسکتا ہے۔ لیکن ایک شعبہ جس پر قرآن نے بہت تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے اور جس کی تفصیلات کا علم آج سے چودہ سو سال پہلے کے انسان کو ہونا ناممکنات میں سے ہے وہ سائینسی علوم کے خزانے ہیں، جو قرآن نے دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں اور جن کے بارے میں پندرہ سو سال پہلے کے انسان کا علم قریبا صفر تھا لیکن جس قدر تفصیل سے سائنس کی مختلف شاخوں اور ایجادات کے بارے میں قرآن میں آیا ہے وہ  اس دور کہ کسی اعلی تعلیم یافتہ انسان بھی بیان کرنا ممکن نہیں تھا کجا یہ کہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص اس بارے میں بنی نوع کی رہنمائی فرمائے کیونکہ وہ سہولیات جو سائنس کی ترقی کے لئیے ضروری تھیں ان کا پندرہ سو سال پہلے کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ اور ان میں سے زیادہ تر معلومات انسان کو پچھلے ایک سو سال کے دوران حاصل ہوئی ہیں انھی علوم میں سے ایک انسان کی پیدائش کے مراحل ہیں اللہ تعالی قرآن کریم میں سورہ المؤمنون کی آیت میں فرماتا ہے
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ

ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ          

ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ

اور یقیناً ہم نے انسان کو گیلی مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔پھر ہم نے اسے نطفہ کے طور پر ایک ٹھہرنے کی محفوظ جگہ میں رکھا۔پھر ہم نے اس نطفے کو ایک لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو مُضغہ (یعنی گوشت کے مشابہ جما ہوا خون) بنا دیا پھر اس مُضغہ کو ہڈیاں بنایا پھر ہڈیوں کو گوشت پہنایا پھر ہم نے اسے ایک نئی خِلقت کی صورت میں پروان چڑھایا۔ پس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو سب تخلیق کرنے والوں سے بہتر ہے۔         (23:14،15،16)                            

       مشہور ماہر ایمبریالوجی ڈاکٹر کیتھ مور (1925۔2019) نے 1990ء میں اپنے ایک لیکچر میں ان آیات کے بارے میں کہا کہ 
     یہ ساتویں صدی عیسوی میں کسی سائنسی علم کی بنیاد پر نہیں تھیں بلکہ یہی مناسب نتیجہ ہے کہ یہ تفصیلات محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کو خدا نے الہام کی تھیں 

 

اور ایمبریالوجی کی تاریخ  کا آغاز اگرچہ چوتھی صدی عیسوی سے ہوتا ہے اور ارسطو پہلا ایمبریالوجسٹ تھا۔ اور اس نے مرغی کے انڈے پر تجربہ کر کے یہ تو تحقیق کی تھی کہ  پیدائش کے مختلف مراحل ہوتے ہیں لیکن ان مراحل کی اس نے کوئی تفصیلات نہیں بتائی تھیں۔ اس کے بعد گلیلیو نے پہلی مائیکروسکوپ بنائی جو کہ بہت ہی بنیادی نوعیت کی تھی اور انسانی پیدائش کے وہ مراحل جو قرآن نے بیان فرمائے ہیں وہ سائنس بیسویں صدی عیسوی میں بتانے کے قابل ہوئی تھی۔ 
ڈاکٹر کیتھ مور نے ایک کتاب بھی تحریر کی جس میں مسلمان طالبعلموں کے لیے قرآنی آیات کی روشنی میں پیدائش کے مختلف مراحل ( نطفہ، علقہ، مضغہ، عظاما، کسونا العظالحما )بیان کئے ۔ اور مختلف سائنسدانوں سے اس بارے میں رائے بھی لی۔  ان کی کتاب کا نام ہے: 
(The developing Human, with Islamic addition)

ڈاکٹر مور نے موجودہ دور کے بہترین سائنسدان دنیا بھر سے منتخب کئے اور ان سے بھی اس کے متعلق رائے طلب کی۔ انھوں نے جن سائنسدانوں سے اس بارے میں رائے لی ان میں ڈاکٹر ای۔ مارشل جانسن، ڈاکٹر ٹی۔وی۔این۔ پرساد اور ڈاکٹر سر رابرٹ ایڈورڈ شامل ہیں جن کا کہنا تھا کہ ہماری اب تک کی معلومات قرآن کی آیات عین مطابق ہیں 

اللہ تعالٰی نے قرآن میں کائنات کے بہت سے اسرار بیان فرمائے ہیں اور چودہ سو سال پہلے ان رازوں کو سمجھنے کے لئے انسان کے پاس کوئی ذرائعے بھی نہیں تھے لیکن وقت نے ان کی صداقت پر مہر ثبت کی اور اگر آج بھی ان رازوں میں سے بعض سائنسدانوں کو سمجھ نہ  آئیں تو یہ قرآن کی صداقت پر سوال نہیں ۔۔۔ بلکہ سائنس  ہی ہے جو آئندہ وقت کے ساتھ اپنےاصول نظریات اور  کو تبدیل اور بہتر بناتی رہی ہے۔ 

____________________________                                                     

Dr Keith L. Moore   

Dr. E. Marshall Johnson   

Dr. T.V.N. Persaud  

Dr. Sir Robert Geoffrey Edward (Nobel Prize in Physiology/Medicine)


               









Thursday, September 9, 2021

Peace ---no more a dream تلاش برائے امن

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

  تلاش برائے امن   

         (آر-ایس- بھٹی)

عالمی سطح پر بہت سےدن منائے جاتے ہیں انھی میں سے ایک عالمی یوم امن بھی ہے جو  ہر سال   ٢١  /ستمبر کو منایا جاتا ہے- اور اس سال یہ ایسے وقت پر منایا جارہا ہے جب متواتر کئی دہائیوں سے جاری افغانستان جنگ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے- اور بظاہر یہ ایک تاثر آرہاہے کہ شائید افغانستان میں امن قائم ہونے کے راستے ہموار ہوجائیں؛  ہماری   نیک تمنائیں افغانستان کے مظلوم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اسکے علاوہ بھی اس وقت دنیا میں بہت سے تنازعے جاری ہیں جیسے یمن، سوڈان، شام وغیرہ اور بعض تنازعے مثلا فلسطین، کشمیر  تو پچاس سال سے بھی زائد عرصہ سے چلے آرہے ہیں 

اکثر اوقات جب بڑی طاقتوں کی طرف سے  کسی جنگ کا آغاز کیا جاتا ہے تو اسے " جنگ برائے امن" کا نام  دیا جاتا ہے  لیکن شاذ ہی  ایسی کسی جنگ کے نتیجے میں دوبارہ ان علاقوں  کو امن کی طرف واپس آتے دیکھا گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں سے امن، انسان کا خواب ہی ہے 

دوسری جنگ عظیم اپنی تباہ کاریوں کے انمٹ نقوش چھوڑتی 1945 ء میں اپنے اختتام کو پہنچی- یہی وہ وقت تھا جب انسان نے دنیا میں امن کی ضرورت کو بہت شدت سے محسوس کیا  اور  جیسا کہ  کسی دانشور نے کہا تھا کہ ہم نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا سیکھ لیا ہے اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا بھی سیکھ لیا ہے اب وقت ہے کہ ہم انسانوں کی طرح زمین پررہنا بھی سیکھ لیں ۔ لہذا  معصوم لوگوں پر ایٹم بم کا ہولناک تجربہ کرنے کے بعد،اور قریبا اسی (80)ملین لوگوں کی جانیں ضائع ہو جانے کے بعد ، اقوام عالم نے امن کے بارے میں غوروفکر کرناشروع کیا - اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا قیام،  امن کی ان کو ششوں کی طرف ایک احسن قدم تھا- انسان کی ان کوششوں کا یہ مثبت نتیجہ تو دیکھنے میں آیا کہ اب تک تیسری عالمی جنگ کسی حد تک ملتوی ہوتی رہی لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سی چھوٹی جنگوں کاآغاز ہوگیا

امن کی تلاش یقینا ایک سعی لا حاصل ہرگز نہیں، اس کو حاصل کرنے کا بہت ہی سادا اور عام فہم اصول عدل کے نام سے جانا جاتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں نظام عدل پر سختی سے عمل درآمد کروایا جاتا ہے لیکن خدا معلوم، کہ جب یہی ترقی یافتہ قومیں کسی دوسری قوم کے بارے میں فیصلے کرتی ہیں تو اس اصول کو غیر ضروری چیز کی طرح با لائے طاق کیوں رکھ دیا جاتا ہے

اسلام نے قرآن کی صورت میں نسل انسانی کو درپیش تمام اہم مسائل کا حل دنیا کے سامنے رکھا ہے اور دنیا میں امن قائم کرنے کے سنہری اصول بیان فرمائے ہیں- اور اس بات سے سختی سے منع فرمایا گیا ہےکہ محض دشمنی کی بنا پر کسی دوسری قوم سے ناانصافی کا معاملہ کیاجائے- چنانچہ اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے

 

اسی طرح اللہ تعالی نے ایک دوسری جگہ اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ جو دوسری قوموں کے لوگ  قتال پر آمادہ نہیں ہیں ان سے لڑائی کی جائے- بلکہ ان کے ساتھ انصاف اور نیکی کے ساتھ معاملہ کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے

پھر قرآن کریم نے تمام اہل کتاب کو  ایک خدا کے نام پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی ہےکیونکہ ایک خدا کاتصور تمام الہی مذاہب کے ماننے والوں میں پایا جاتا ہے- یہ ایسی آفاقی تعلیم ہے  جو باہمی اختلافا ت کم کرنے میں بہت مددگار بن سکتی ہے - اگر  انسان آپس میں موجوداختلافات بھلا کر، مشترک باتوں پر اکٹھے ہوجائیں تو یہ امن قائم کرنے کی طرف نہایت مثبت قدم ثابت ہو سکتاہے  اللہ تعالی فرماتا ہے

انصاف اور امن ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں - ظلم اور ناانصافی معاشرے میں بدامنی اور بے چینی پیدا کرتے ہیں اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہمارا مقصد ہے تو اس اصول کو پس پشت پھینک کر ہم یہ مقصد کبھی حا صل نہیں کرسکتےلہذا ہمیں اس  کی سمت میں قدم بڑھانا ہوگا 

ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص گلی سے گزر رہا تھا اس نے دیکھا کہ اسکا ہمسایہ اپنے گھر کےسامنے کھڑا کچھ ڈھونڈ رہا ہے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس کی سوئی گم ہو گئی ہے وہ شخص بھی اپنے ہمسائے کی مدد کے لئیے اس کی تلا ش میں شامل ہوگیا لیکن کافی دیر تک ڈھونڈنے پر بھی اس کی گمشدہ سوئی نہ ملی تب اس نے اپنے ہمسائے سے پوچھا کہ آپ کی سوئی کہاں گم ہوئی تھی تو ہمسائے نے بتایا کہ وہ اندر میرے گھر میں گم ہوئی تھی وہ شخص بہت سٹپٹایا کہنے لگا پھر یہاں کیوں ڈھونڈرہے ہو ؟اندر جا کر ڈھونڈو ! تو اس کے ہمسائےنے جواب دیا اندر کیسے ڈھونڈوں وہاں تو اندھیرا ہے

تو جناب یقینا دنیا کوامن نصیب ہوگا بس یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں  ہم اسے غلط جگہ پر  تو تلاش  نہیں کر رہے؟ کیا ہماری سمت درست ہے؟ 

مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے

ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں 

مجھے اپناستار ڈھونڈنا ہے

-------

-------

سناہے گمشدہ چیزیں

جہاں پر کھوئی جاتی ہیں 

وہیں سے مل بھی جاتی ہیں

مجھے اپناستارا ڈھونڈنا ہے









Friday, August 13, 2021

our homeland is our love یہ خاک وطن ہے جاں اپنی

        
اگست کے ملے جلے خیالات 

                یہ خاک وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے 

 (آر۔ ایس۔ بھٹی)                                                                                                 

     یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ پاکستان میں موجود  اٹھانوے فیصد مسلمانوں کے مذہبی جذبات  کس قدر نازک ہیں   نہ صرف نازک ہیں بلکہ کچھ عجیب / متنازعہ  قسم کے ہیں اور ان کی دل آزاری کچھ انوکھی طرز سے ہوتی ہےمثلا

کسی احمدی عبادت گاہ پر موجود مینار صرف اس لئیے توڑ دیئے جاتے ہیں کہ مینار کی موجودگی سے اس عبادت گاہ کے  مسجد ہونے کا گمان ہوتا ہے  اور یہ مسلمانوں کو گوارا نہیں کہ ان کی دل آزاری ہوتی ہے 

اور کسی مندر میں موجود مورتیوں کو کس لئیے توڑا جاتا ہے ؟ شائید اس لیئے کہ یہ سب اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا احمدیوں کی عبادت کو غیراسلامی بنانا اور غیر مسلموں کی عبادت گاہ کو اسلامی طرز پر ڈھالنا، دونوں مقامات پر مسلمانوں کی دل آزاری کی وجوہات بالکل ایک دوسرے کے برعکس کیوں ہیں؟ ۔۔۔ 

  اگر ایک احمدی کلمہ پڑھے تو دوسرے مسلمانوں کی دل آزاری  ہوتی ہے اور اس پر مقدمہ قائم کیا جاتا ہے 

لیکن ایک ہندو کو تھپڑ مار مار کے زبردستی اللہ اکبر کہلوایا جاتا ہے ۔۔۔۔اور اس سے مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہوتی ہے

احمدی کے کلمہ پڑھنے سے دل آزاری کیوں ہوتی ہے اور غیر مسلم سے اللہ اکبر کہلوانے سے کیوں نہیں ہوتی؟ 

یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب ابھی تک منظر عام پر تو نہیں آئے لیکن گمان ہے کہ پاکستان کے مذہبی علما اپنے کسی مدرسے کی لیبارٹری میں ان کے جواب تیار کروا رہے ہوں ؟ ۔۔۔ 

لیکن یہ مذہب کے ٹھیکیدار ایک بات تو مان گئے ہوں گے کہ یہ مذہبی اقلیتوں پر جتنا بھی ظلم کریں نہ تو یہ ان کا مذہب  چھین سکے نہ ہی وطن کی محبت ۔ 

یہ خاک وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے

اور پیارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان "حب الوطن من الایمان" ۔ پر ہم کاربند ہیں، اور رہیں گے انشاءاللہ 

مذہبی منافرت ہمارے ماحول میں پائی جانیوالے تناو کی واحد وجہ نہیں ہےبچوں کے بارے میں جرائم نئی نئی شکلیں بدل کر سامنے آتے ہیں جن کو ضبط تحریر میں لانے کے لئیے بھی حوصلہ چاہیئے

صنف نازک کے خلاف ہونے والے مظالم کی نوعیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ہم نے دانستہ طور پر یہاں خواتین کی بجائے صنف نازک کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ جانوروں کی صنف نازک بھی اب انسانوں کی سفاکی سے محفوظ نہیں اور قبروں میں دفن مردے تو زندہ انسانوں کی بے رحمی کا نشانہ بننے   سے نوحہ کناں ہیں

 مقصد ملک میں ہونے والے جرائم کو گنوانا نہیں کیوں کہ یہ کام تو  بڑے بڑے عالمی ادارے کر رہے ہوتے ہیں دیکھنا تو صرف یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی سمت کیا ہے؟ ایک طرف مذہبی جنونیت بھی اپنی انتہاوں کو چھونا چاہ رہی ہے اور جنسی جنونیت بھی۔ یعنی دو بالکل متضاد چیزیں بیک وقت عمل پیرا ہیں۔ اگر حکومت کا موقف سنا جائے تو وہ بھی اتنا ہی مبہم اور دوہرا معیار لئیے ہوئے ہے جتنا عوام کا ۔ یعنی کبھی ریپ ہونے کی تمام ذمہ داری ریپ ہونیوالوں پر ڈالی جاتی ہے کبھی اس کے برعکس بیان آتا ہے۔ کبھی ہمسا یہ ملک کے مذہبی جنونی گروہ دشمن ہوا کرتا تھا اور اب انھیں محافظ کہا جاتاہیں۔ کبھی وہ  قاتل تھے اور اب شہید ہیں۔ 

لیکن یہ اگست کا مہینہ ہے اور  لکھنا تو تھا قائد اعظم کی اولوالعزم شخصیت پر،  ان کے برصغیر کے مسلمانوں پر احسانات کے بارے میں،  لیکن نظر بار بار قائد اعظم کے پاکستان کی حالت زار کی طرف لوٹ جاتی ہے

کہتے ہیں کہ جب کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اسے اس کے اسلاف سے بد ظن کر دینا چاہیئے۔ اور ہماری قوم اپنے محسن  قائد کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور دو قومی نظریہ کوبھی۔   سوچنے کی بات ہے کیا دو قومی نظریہ قائد اعظم کا تخلیق کردہ تھا؟  

یہ نظریہ تو سینکڑوں سالوں سے برصغیر کے مسلمانوں کا خواب تھا۔ جسے قائد نے عملی جامہ پہنایا۔ اگر برطانوی تقسیم کاروں نے مسلمانوں کی آبادی کے مطابق انھیں خطہ زمین نہیں دیا اور تقسیم   کے منصوبے میں سقم رکھے گئے تو اس میں قائد اعظم تو قصور وار نہ تھے۔ 

لیکن قائد اعظم کی طرف سے وضاحتیں دینے کی بجائے ہمیں ان لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے جنھوں نے یا جن کے بڑوں نے  اسوقت بھی قائد کی مخالفت کی اور پاکستان بننے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور آج  بھی ان کی کردار کشی میں مصروف ہیں صرف ایک ہی مذہبی جماعت تھی جماعت احمدیہ جس نے پاکستان بنانے میں بحیثیت جماعت قائد کا ساتھ دیا 

 اگر برصغیر کے مسلمان یک جان ہوکر اس وقت قائد کا ساتھ دیتے تو تقسیم کے وقت کسی کو پاکستان کے حصہ میں ڈنڈی مارنے کی جرات نہ ہوتی اور سینکڑوں سالوں سے برصغیر کے مسلمانوں کے سینوں میں سلگتی الگ خطہ زمین کی خواہش عظیم  الشان طریقہ سے پوری ہوتی لیکن افسوس مسلمان تب بھی بکھرے ہوئے تھے اور آج بھی 

افتخار عارف کی  نظم "قائد کے حضور"  بار بار  ذہن میں گونجتی ہے

 

       بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد   

کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد

تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے

ایسی بدلی ترے کوچے کی فضا تیرے بعد

اور  تو کیا کسی پیماں کی حفاظت کرتے

ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد

ترے قدموں کو جو منزل کا نشاں جانتے تھے

بھول بیٹھے تیرے نقش کف پا تیرے بعد

مہرو مہتاب دو نیم ایک طرف خواب دو نیم

جو نہ ہونا تھا وہ سب ہو کے رہا تیرے بعد

**********************